قدیم لوک ساز۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایم آر ملک
l1.jpg
l2.jpg
l3.jpg
l4.jpg
وقت کے ساتھ ساتھ طبلہ , نقارہ , ڈھول , ڈھولک , دف , ڈمرہ , ڈگڈگی کا دور شروع ہوا
خنجری نامی ساز پیتل سے بنتا ہے یہ اکثر جوگی اور فقیر بجاتے ہیں
جنوبی پنجاب میں بھی ملتا ہے جسے جھمر میں گائی جانے والی بولیوں میں استعمال کیا جاتا ہے
آم کی لکری سے بنائے جانے والے ساز تنتنا کی لمبائی 8 انچ سے لیکر 9 انچ تک ہوتی ہے
جب ہم سنگیت کے تاریخی اوراق پلٹتے ہیں تو ہمیں تال اور ساز کا جنم ملتا ہے یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ ’’سُر ‘‘ہر جگہ موجود ہے یقینا کرہ ارض پر انسان نے تالی بجائی ہوگی اور تال کی تکمیل کیلئے ساز کی ضرورت کا خیال اس کے دل میں جاگا ہوگا ۔وقت کے ساتھ ساتھ کلچر نے سیڑھیاں طے کیں تو طبلہ ،نقارہ ،ڈھول ،ڈھولک ،دف ،ڈمرو ،ڈگڈگی کا دور شروع ہوا جب ہم گلوبل کی دنیا میں داخل ہوئے تو کئی لوک ساز تو ماضی کا حوالہ بن گئے اور کئی لوک سازوں کا سفر متروک ہونے والا ہے تاہم کئی ایک کا تذکرہ ضروری ہے ۔
ڈھول
وسیب میں دیہی علاقوں میں چمڑے کے مڑھے ہوئے جتنے بھی سازوں کا تذکرہ ملتا ہے ان میں ڈھول بنیادی حیثیت رکھتا ہے ۔ڈھول ،ڈھولکی کا ایک روپ ہے جس طرح ’’ستار ‘‘ کی بڑی شکل سربہار اور وائلن کا بڑا روپ (Base)ہے اس طرح ڈھول بھی ڈھولکی کا ہی ایک بڑا روپ ہے ،ڈھولکی کو عورتوں کا ساز مانا جاتا ہے جبکہ ڈھول مردوں کا ساز ہے۔ڈھول کا استعمال ہمارے وسیب میں سب سے زیادہ ملتا ہے ۔لوک ناچ ،منگنی ،شادی کی رسوم میں جھمر ،بھنگڑے اور گدے میں ڈھول کا استعمال زیادہ ہوتا ہے، بھنگڑا تو ڈھول کے بغیر ڈالا نہیں جاسکتا ماضی قریب میں ڈھول میلوں ٹھیلوں ،کشتی اور کبڈی کے اکھاڑوں میں بکثرت ملتا ہے مگر آہستہ آہستہ یہ ماضی کی دھندلکوں میں گم ہورہا ہے ۔لکڑی کو درمیان سے کھوکھلا کرکے بنایا جاتا ہے اس کے دونوں اطراف کے منہ کھلے ہوتے ہیں جن کی چوڑائی 35سنٹی میٹر تک ہوتی ہے دونوں منہ بکری کی کھال سے ’’مڑھ ‘‘دیئے جاتے ہیں جن کو رسیوں کی مدد سے کسا جاتا ہے ان رسیوں کو دیہی علاقوں میں ’’کنجکے ‘‘کہا جاتا ہے دیہی علاقوں میں جب کوئی بزرگ کسی بیٹے پر ناراض ہوتا تو اسے خبردار کیا کرتا تھا کہ ’’میں تمہارے کنجکے کستا ہوں ‘‘ اسے بانس اور لکڑی کی چھڑیوں سے بجایا جاتا ہے بائیں طرف والی لکڑی ہاکی کی شکل میں ہوتی ہے جسے ’’ڈگا ‘‘کہا جاتا ہے جبکہ دائیں طرف والی بانس کی باریک چھڑی ہوتی ہے ۔
ڈھڈ
پنجاب کے لوک گیتوں میں جو مقام سارنگی کو وہی مقام ڈھڈ کو دیا جاتا ہے لوک گیتوں میں یہ دونوں ساز اکٹھے بجائے جاتے ہیں ماضی قریب میں اس کا استعمال پنجاب کے لوک گیتوں میں بکثرت ہوا جب بزرگ ہیر رانجھا ،سوہنی مہینوال ،سسی پنوں اور دلا بھٹی جیسے لوک قصے اشعار کی شکل میں کسی لوک گلوکار سے سنتے تو اس کا استعمال ملتا ہے۔یہ آم ،شیشم ،توت وغیرہ کی لکڑی سے بنائی جاتی ہے اس کی لمبائی عموماً آٹھ سے دس انچ تک ہوتی ہے۔ ڈمرو کے سائز کی طرح اس کا درمیانہ حصہ پچکا ہوتا ہے اس کے دونوں منہ گول ہوتے ہیں جن پر چمڑے کی باریک کھال چڑھائی جاتی ہے اور دونوں طرف سے سوت کی رسی سے سات یا آٹھ جگہ سے ’’مڑھا ‘‘جاتا ہے تھوڑی سے رسی فالتو رکھی جاتی ہے جسے بجاتے وقت درمیانے حصے پر لپیٹ کر ہاتھ سے کھینچا یا ڈھیلا کیا جاتا ہے دوسرے ہاتھ کی انگلیوں سے اسے بجایا جاتا ہے اس طرح اس سے خاص قسم کی آواز پیدا ہوتی ہے جسے ’’گمک ‘‘ کہا جاتا ہے ۔
نقارہ
راجوں ،مہاراجوں کے دور میں نقارے کو کسی ریاست کے راجے یا مہاراجے کی سواری کے آگے بجایا جاتا تھا تاکہ عوام کو خبر ہو کہ راجہ کی سواری آرہی ہے ماضی میں نقارہ جنگوں کے دوران بجایا جاتا تھا نقارے پر چوٹ لگانے کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ لڑائی ہونے والی ہے سکھ اسے گوردوارہ میں بجاتے ہیں کسی دھات یا لکڑی سے بنایا جاتا تھا اس پر بھینس کی کھال ’’مڑھی ‘‘جاتی ہے چمڑے کی رسی سے ہی اسے کسا جاتا تھا۔
خنجری
یہ ایک ایسا ساز ہے جو اکثر جوگی اور فقیر بجاتے ہیں ۔یہ گول سائز کی لکڑی کی طرح پیتل کی چادر سے بنتی ہے اس کے منہ کی چوڑائی 18سے 24سنٹی میٹر کے درمیان ہوتی ہے اس کے گھیرے پر چمڑے کی باریک کھل مڑھی ہوتی ہے ۔
تومبی
یہ بہت پرانا ساز ہے جو درباروں پر بیٹھے ملنگ اور سادھو سنت بجایا کرتے تھے جو اسے اپنے سروں کے ساتھ ملا کر سارے پا دھانی سا سرگم کا ریاض کرتے آہستہ آہستہ اس ساز نے ترقی کی اور یہ لوک گیتوں میں استعمال ہونے لگا اس کے سائز اور تاروں کو بڑا کرکے ’’تانپورے ‘‘ کی شکل دی گئی جبکہ دوسری طرف چھوٹے سائز میں یہ ’’تومبی ‘‘ کہلائی ،لوک گیتوں ،جگنی ،بھنگڑا ،مرزا میں بجائی جاتی ہے کدو یا لکڑی کو کھوکھلا کرکے اس کو بنایا جاتا ہے جس میں ایک سے لیکر ڈیڑھ فٹ تک ڈنڈا گول کرکے اور تراش کر لگا دیا جاتا ہے اس کے ڈنڈے کی لمبائی 54سنٹی میٹر اور خول کی چوڑائی 9سنٹی میٹر ہوتی ہے اس خول کے منہ پر ایک باریک کھال چڑھائی جاتی ہے اور ڈنڈے کے اوپر ایک لکڑی کی کھونٹی لگائی جاتی ہے جس میں تار پروکر ڈنڈے کی نچلی طرف مروڑی دیکر باندھ دی جاتی ہے۔ چمڑے کی کھال پر لکڑی کا ایک ٹکڑا رکھا جاتا ہے جس پر تار کو سہارا ملتا ہے۔ کھونٹی کے ساتھ تار کو کس کر اپنی منشا کے مطابق ملا لیا جاتا ہے۔ اسے بجانے کیلئے بائیں ہاتھ کی پہلی انگلی میں ستار کی مضراب پہن کر بجایا جاتا تھا کہا جاتا ہے کہ لوک گیتوں میں جو اہمیت اس ساز کو رہی کسی اور کو نہیں ملی ۔
سارنگی
برصغیر کے سازوں میں سارنگی ایک ایسا ساز ہے جوکلاسیکی موسیقی کیلئے اہم ترین ہے اس کے نام سے واضح ہے کہ سارنگی ’’سورنگ والے ساز ‘‘کو کہا جاتا ہے۔ سارنگی کے ساتھ طبلہ ضروری ہوتا ہے جبکہ لوک سنگیت میں سارنگی کی سنگت ’’ڈھڈ ‘‘کرتی ہے ہمارے لوک گیتوں میں سارنگی کا بہت اہم مقام ہے بزرگوں سے معلومات لیں تو وہ کہتے ہیں کہ سارنگی کے ساتھ کلیاں گائی جاتی تھیں جس طرح ہیر کی کلی ،سسی کی کلی ،مرزے کی کلی وغیرہ کبھی کبھی بولیوں میں بھی اس کا استعمال کیا جاتا تھا۔ عام طور پر اس کی لمبائی 58اور چوڑائی 13سنٹی میٹر ہوتی ہے اس میں ’’تومبے ‘‘کی جگہ لکڑی کا بنا ہوا پیٹ ہوتا ہے جو نیچے کی طرف چپکا ہوا اور اوپر کی طرف ڈمرو کے سائز کا ہوتا ہے یہ لکڑی کو کھود کے بنایا جاتا ہے اور اس کے اوپر چمڑا مڑھ دیا جاتا ہے اس چمڑے کے اوپر درمیان میں اونٹ کی ہڈی کی گھوڑی کے اوپر چمڑے کی چار تاریں ہوتی ہیں اس کو کمان کی مدد سے بجایا جاتا ہے۔
تنتنا
یہ ساز جنوبی پنجاب میں بھی ملتا ہے جسے جھمر میں گائی جانے والی بولیوں میں استعمال کیا جاتا ہے، آم کی لکڑی سے بنائے جانے والے اس ساز کی لمبائی 8انچ سے لیکر 9انچ تک ہوتی ہے، ڈھڈ کی طرح اس کا پیٹ درمیان سے پچکا ہوتا ہے اور منہ کھلا ہوتا ہے اس کے منہ کا سائز 6انچ ہوتا ہے اس کے منہ پر چمڑے کی کھال مڑھی ہوتی ہے اس مڑھی ہوئی کھال کے درمیان آدھا میٹر چمڑے کی تار پروکر دوسرے منہ سے نکال دی جاتی ہے۔ اس تند کے چمڑے والے سر کو گانٹھ دی جاتی ہے اور دوسرے سرے کو لکڑی کے گٹے میں گانٹھ دیکر پرودیا جاتا ہے اس کے بجانے کا طریقہ یہ ہے کہ تونبے کو دائیں طرف تند سیدھی کر لی جائے دائیں ہاتھ کی پہلی انگلی کے ساتھ اس کی تند پر چوٹ لگاتے ہوئے لکڑی کے گٹے کو بائیں ہاتھ کے ساتھ کھینچا یا ڈھیلا کیا جاتا ہے اس طرھ اس سے ’’گمک ‘‘ کی آواز پیدا ہوتی ہے ۔
چمٹا
پنجاب میں یہ خاص طور پر ناچ بھنگڑے میں استعمال ہوتا تھا کسی پنڈ یا دیہات میں جب دیہی لوک کسی خوشی شادی بیاہ ،یا بچوں کی پیدائش کے موقع پر ڈھول اور شرنائی ،باجے بردار بلاتے تو ان کے ساتھ چمٹے والا ضرور ہوتا تھا یہ ساز لوک گیتوں میں ڈھولکی کے ساتھ بجایا جاتا تھا پنجاب میں مرحوم عالم لوہار نے اس ساز کو نئی جہت دی وہ جب چمٹا بجاتے تو گائیکی کا ان کا انداز ایسا تھا کہ سننے والے بے سدھ ہوجاتے ایک واقعہ ان سے منسوب ہے کہ لالہ موسیٰ کے اسٹیشن پر ایک بار جب وہ اُترے تو وہاں بیٹھی ایک بوڑھی مائی رو رہی تھی عالم لوہار نے جب اس سے رونے کا سبب پوچھا تو اس نے بتایا کہ میری جیب کٹ گئی ہے اب میرے پاس کرائے کے پیسے بھی نہیں عالم لوہار نے وہیں سٹیشن پر کھڑے چمٹا بجانا شروع کردیا اور گانا گایا پاس کھڑے لوگوں نے عالم لوہار پر پیسوں کی بارش کردی عالم لوہار نے سارے پیسے اس بوڑھی مائی کو دے دئے اس طرح وہ بوڑھی عورت عالم لوہار کو دعائیں دیتی ہوئی رخصت ہوگئی ۔لوہار گروپ نے آج بھی چمٹے کو بطور ساز زندہ رکھا ہوا ہے۔
عالم لوہار کے بعد ان کے بیٹے اور جانشین عارف لوہار نے چمٹے کو ایک نئے انداز میں متعارف کرایا ہے اور چمٹا بجانے میں ان کو کمال حاصل ہے وہ چمٹے اور کڑے کو ایک ہی ہاتھ سے بجا کر سامع کو مبہوت کردیتے ہیں۔ لوک گلوکار سائیں مشتاق کو بھی چمٹا بجانے پر عبور حاصل تھا یہ چار فٹ تک لمبا لوہے کا بنا ہوتا ہے اس کے مٹھی کے موڑ پر ایک گول سائز کا کڑا بھی ہوتا ہے بائیں ہاتھ سے اس کو چمٹے پر مارا جاتا ہے اور اور دائیں ہاتھ سے دونوں پرتوں کو آپس میں ٹکراتے ہوئے اس کو بجایا جاتا ہے لوک گلوکار عطاء اللہ خان عیسیٰ خیلوی نے بھی گایا کہ ’’چمٹا تاں وجدا جدوں وس جائے دل وچ پیار ‘‘۔
گھڑا
ہمارے لوک سنگیت میں گھڑے کو ایک اہم درجہ حاصل ہے شادی کے موقع پر سکھیاں گھڑا بجا کر اور بولیاں ڈال خوشی کا اظہار کرتی تھیں دیہی علاقوں میں آج بھی گھڑا شادی بیاہ کے موقع پر بجایا جاتا ہے پرانے دور میں مرغانی کا شکار کرنے کیلئے شکاری اس کے منہ پر ربڑ باندھ کر خاص طریقے سے بجایا کرتے تھے جس سے شکار قریب آجاتا تھا اس کو دونوں ہاتھوں سے بجایا جاتا ہے ایک ہاتھ کو گھڑے کے منہ پر اور دوسرے ہاتھ کو گھڑے کے پیٹ پر مارا جاتا ہے اکثر اوقات بجانے والے ایک ہاتھ میں چھلے ڈال کر اس کو بجاتے تھے جس سے گھڑے کی آواز کانوں کو بہت بھلی محسوس ہوتی تھی جنوبی پنجاب کے لوک فنکار سائیں انور نے گھڑے پر بہت خوب گایا گھڑا بجانے کا شوق رکھنے والے اکثر اپنے گھڑے کو باہر سے کئی رنگوں میں رنگ لیتے تاکہ دیکھنے والے کو بہت خوبصورت محسوس ہو ۔
گھنگرو
یہ مرد اور عورتوں کا یکساں ساز ہے مرد اسے پیروں میں ڈال کر میلوں ٹھیلوں پر ناچتے ہیں جبکہ عورتیں خوشی کے موقع پر اسے پیروں میں ڈال کر گدا ڈالتی ہیں۔ کانسی کے دھات کے بنے ہوئے گھنگرو زیادہ پسند کئے جاتے تھے اور کہا جاتا ہے کہ ان کی آواز بھی زیادہ ہوتی تھی تاہم زیادہ تر پیتل کے بنے ہوئے گھنگرو استعمال میں دیکھے گئے گھنگرئوں کی بناوٹ دو طرح کی ہوتی ہے ایک چار منہ والے اور دوسرے ایک منہ والے ہر ایک گھنگرو کے اندر کالی مرچ جتنی لوہے کی گولی ہوتی ہے جس سے وہ چھنکتا ہے گھنگرو کے رسیا کہتے ہیں کہ گھنگرو گھس کر جتنا پرانا ہوجائے اتنی ہی اس کی آواز بھلی محسوس ہوتی ہے ۔
بانسری
ہمارے پنجاب لوک کلچر میں بانسری کو بہت اہمیت حاصل ہے ۔ یہ ڈیڑھ فٹ لکڑی کی بنی ہوتی ہے جس میں سوراخ ہوتے ہیں اور ان سوراخوں میں پھونک مار کر ہی ساز کی تشکیل ہوتی ہے بہت سے لوک گلوکاروں کے ساتھ آج بھی کوئی نہ کوئی ماہر بانسری ساز ہوتا ہے جنوبی پنجاب میں ناصر علی ملک نے بانسری میں کمال حاصل کر رکھا ہے جبکہ گوگی کھوہ کا نور محمد گوگی بھی بانسری بجانے میں کمال رکھتا ہے۔