سلامتی کونسل میں خرو شیف کا جوتا ۔۔۔۔۔ تحریر : صہیب مرغوب
Union of Sovet Council.jpg
مرکزی اسمبلیوں، بلدیاتی اداروں او رسیاسی جلسوں میں جوتے چلتے ہم سب دیکھ چکے ہیں۔ سیاست دانوں پر جوتے چلتے بھی سب دیکھ چکے ہیں ۔لیکن بات ذرا پرانی ہے مگر ہے حقیقت۔دنیا کے سب سے اہم اور بڑے ادارے سلامتی کونسل کے اہم اجلاس میںبھی دنیا کی دوسری سپر پاور کے رہنما خروشیف (بعد میں وزیر اعظم بھی بنے )جوتا دکھاچکے ہیں۔یہ اقوام متحدہ میں پیش آنے والے اس نوعیت کے ''اہم ترین‘‘ واقعات میں سے ایک ہے۔
۔1960ء کا ذکر ہے، فلپائنی وفد کے ایک رکن روس کے زیر اثر سابقہ مشرقی یورپ اور سنٹرل یورپ کے کچھ ممالک میں انسانی اور سیاسی حقوق کی پامالی پر بحث کر رہے تھے،یورپ کا یہ حصہ ان دنوں روسی حکومت کے زیر اثر تھا،اس بلاک میں رومانیہ، چیکو سلاواکیہ ،سربیا، مولڈویا،پولینڈ ، ہنگری،کروشیاء سلوواکیہ،البانیہ، مشرقی جرمنی،بلغاریہ ، یونان،نارتھ مقدونیہ اور کوسوو بھی شامل تھے۔روس ان ممالک کو یورپی نظام سے منحرف کرنے کے بعد اپنے دائرے میں لانے میں کامیاب ہو گیا تھا۔بعض دوسرے یورپی ممالک کی طرح فلپائن بھی ان ممالک کو روسی'' سیٹلائٹ‘‘ بننے سے بچانے کی فکر میں تھا ،ان دنوں امریکہ اور سابق سویٹ یونین کے حامی ممالک کے لئے یہی لفظ مستعمل تھا۔امریکہ الگ سابق سویٹ یونین کے خلاف ترکیبیں لڑا رہا تھا ،ان سب کی خواہش اور کوشش تھی کہ دنیابھر میں کمیونزم کاپوراڈھانچہ زمیں بوس ہو جائے۔
ابھی فلپائنی وفد کے سربراہ لورین زو سومولانگ منہ سے یہ جملے نکلے ہی تھے۔۔۔۔'' اس بلاک میں سیاسی اور انسانی حقوق (سابق )سویٹ یونین نے ہڑپ کر لئے ہیں‘‘، سابق روسی رہنما تلملا اٹھے،بلکہ ہوش کھو بیٹھے۔خروشیف پر کتاب کے مصنف ولیم ٹوبمین خروشیف کی سوانح عمری ''خروشیف اور ان کا عہد ‘‘میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔''سابق روسی رہنما اسی وقت اٹھے، دونوںہاتھوں سے میز بجائی، اور اسی وقت اپنا جوتا اتار لیا،ان کے بیٹے کے مطابق شائد سینڈل تھا۔کیونکہ انہیں تسموں سے نفرت تھی (تسمے باندھنے کے لئے بار بار جھکنا پڑتا تھا اور وہ جھکنے پر یقین نہیں رکھتے تھے ،اس لئے عام جوتے شاذ و نادر ہی پہنتے تھے)۔انہوں نے جوتا اتارتے ہی لہرایا،اور پھر جوتے سے ہی میزبجائی ۔وہ آواز کو تیز تر کرتے گئے،ایوان میں موجود ہر ملک کا وفد ان کی کیفیت پر حیرا ن و پریشان تھا،پھر یوں گویا ہوئے۔۔اقوام متحدہ ایک قسم کی پارلیمنٹ ہے۔آپ جانتے ہو،جہاں اقلیت چاہتی ہے کہ اس کی بھی شنوائی ہو،اور اس کے لئے وہ ہر حربہ استعمال کرتی ہے۔یہ کوئی فن نہیں ہے!اس وقت ہم بھی اقلیت میں ہیں، تھوڑے سے وقت کے لئے ،یہ وقت بھی جلدی بدل جائے گا‘‘۔
خروشیف پر کتاب کے مصنف ٹوبمین خرشیف کے فیملی ممبران سے بات چیت کی روشنی میں بیان کرتے ہیں کہ ''یہ واقعہ 1960ء میں نیو یارک میں ہونے والے جنرل اسمبلی کے 902ویں اجلاس کی یادگار ہے۔12اکتوبر کا دن تھا،سابق روسی وزیر اعظم اس وقت سویٹ یونین کے فرسٹ سیکرٹری کے طور پر اجلاس میں شریک تھے۔انہوں نے پہلے اپنے ہی وفد کی میز پر جوتابجایا،اور پھر ڈائس پرآئے۔روسی رہنما نے پوائنٹ آ ف آرڈر پر ڈائس سنبھال لیا،ان کا انداز کافی ڈرامائی تھا،انہوں نے پہلے فلپائنی رہنما کے کافی قریب آ کر دایاں ہاتھ ان کی جانب مخصوص انداز میںلہرایا۔تاہم انہیں ہاتھ لگانے سے گریز کیا، یہ سفارتی اور عالمی آداب کی بہت زیادہ نفی تھا۔اس موقع پر اپنی تقریر میں انہوں نے فلپائنی رہنما کو امریکہ کے کٹھ پتلی اور چاپلوس جیسے لفظوں سے مخاطب کیا۔اپنے حریف کی ہر بات کی مذمت اور نفی کی۔سابق روسی رہنما کے ایک ہاتھ میں جوتا تھا، اور زبان سے شعلے اگل رہے تھے ،جوتے کا رخ سامعین کی جانب تھا لیکن سامعین کافی فاصلے پر بیٹھے تھے، وہ امریکہ کی پالیسیوں پر غصہ نکال رہے تھے ۔ان کے خیال میں تیسری دنیا کے کمزور ممالک میں مسلسل مداخلت ہی نہیں کر رہا تھا بلکہ ان پر جنگیں مسلط کرنے کا ذمہ دار بھی تھا۔ ان کے حقوق غضب کررہاتھا ‘‘۔
انہوں نے جنرل اسمبلی کے اجلاس کے صدرفریڈرک بولینڈ (آئر لینڈ)سے مطالبہ کیا کہ وہ فلپائنی وفد کو اشتعال انگیز گفتگو سے روکیں۔ روسی رہنما کی دھمکی کارگر ثابت ہوئی اور جنرل اسمبلی کی کرسی صدارت پر براجمان بولینڈنے بھی بوکھلاہٹ کے عالم میں فلپانئی وفد کو ایسی کوئی بھی بات کرنے سے روک دیا جس سے جنرل اسمبلی کے اجلاس میں اشتعال پھیلتا ہو، یا ماحول خراب ہوتا ہو۔ بعد ازاں انہوں نے فلپائنی رہنما کو اپنی تقریر جاری رکھنے کا موقع دیتے ہوئے روسی رہنما کو اپنی سیٹ پر واپس جانے کا حکم دیا۔
روسی رہنما کے تقریر ختم کرتے ہی ایوان مچھلی منڈی بن گیا، سب سے پہلے رومانیہ کے نائب وزیر ایڈورڈ میکزن شسکو انتہائی برہمی کے عالم میں پوائنٹ آف آرڈر پر کچھ کہنا چاہا، لیکن یہ موقع نہ دنیے پر بولینڈ پر ہی غصہ نکال لیا،وہ ایوان کی صدارت پر مامور رہنما کے خلاف بولتے رہے، ان کی شان میں اس قدر گستاخی کی کہ بولینڈ نے ان کا مائیکروفون بند کرنا پڑا۔ابھی ان کا مائیکروفون بند ہوتے ہی ساقی مشرقی یورپی ممالک کے وفود نے ڈیسک بجانا شروع کر دیئے، انہوںنے کورس میںشور مچانا شروع کر دیا،چیخ و پکار اس قدر زیادہ تھی کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔ خوبرو بولینڈ کا چہرہ غصے سے لال پیلا ہو گیا، کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ ایوان کو مچھلی منڈی بننے سے کیسے بچائیں۔ شور شرابا اس وقت ختم ہوا جب بدحواس بولینڈ نے جنرل اسمبلی کا اجلاس ملتوی کر دیا۔اجلاس ملتوی کرتے وقت انہوں نے Gavel اس قدر زور سے بجائی کہ وہ بھی ٹوٹ گئی۔بعد ازاں اس کا ٹوٹا ہوا حصہ ہوا میں اچھالتے ہوئے کرسی سے اٹھے اور ایوان سے باہر نکل گئے۔
۔1961ء میں اسی واقعے پر انقلابی دانشور فرانز فانن لکھتا ہے کہ خرو شیف کی ''جوتا بجائی ‘‘پر ایک بھی تقریر پسند ملک ناراض نہیں ہوا، سب خوش تھے، وہ جانتے تھے کہ خروشیف نے ان کے دل کی بات کی ہے ۔انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ۔۔۔''سامراجی ممالک اسی سلوک کے مستحق ہیں‘‘۔
ایک اور دل چسپ یہ ہوئی کہ مغربی ممالک کے خلاف ''اٹھنے والا‘‘ یہ جوتا بنا بھی ان کے ہی ایک ملک میں تھا۔اخبار میں جوتے کی تصویر کی اشاعت کے بعد ایک جرمن شو کمپنی نے اسے پہچان لیا اور بتایا کہ اس کی کمپنی نے ایسے کئی لاکھ جوتے بنائے ہیں لیکن ان مین سے 30ہزار جوتے سابق سویٹ یونین بھجوائے گئے تھے ،ہو سکتا ہے کہ ان میں سے ایک جوتا بعد میں روس کے وزیر اعظم بننے والے رہنما خروشیف نے بھی خریدا ہو‘‘۔