اتنا سفر آسان ہمارا بھی نہیں تھا
جب رات بھی تھی اور ستارا بھی نہیں تھا
کس طرح وہ منظر نظر آیا ہے جب اپنی
آنکھیں بھی نہ تھیں اور تماشا بھی نہیں تھا
کیوں دل سے اُترتی ہی نہیں ہے تری صورت
ہم نے تو تجھے غور سے دیکھا بھی نہیں تھا
آواز تھی لہروں کے اُچھلنے کی سراسر
پانی بھی نہ تھا اور کنارہ بھی نہیں تھا
کرتے رہے اک عمر بہت شوق سے‘ ہم کو
اچھی طرح سے کام جو آتا بھی نہیں تھا
ہم کرتے رہے خوار بہت خود کو اُسی میں
زنہار ہمارا جو زمانہ بھی نہیں تھا
اک موڑ پہ ہم مُڑ گئے تھے اپنی خوشی سے
مُڑنے کا جہاں کوئی اشارہ بھی نہیں تھا
جاگے ہوں کہ سوئے ہوئے‘ رہتا ہے وہی یاد
جو وقت کبھی ہم نے گزارا بھی نہیں تھا
دریا تو‘ ظفرؔ‘ مانتے ہیں، سوکھ گیا ہو
کیوں اپنی جگہ پر وہاں صحرا بھی نہیں تھا