شکوہ اضطراب کون کرے
اپنی دنیا خراب کون کرے
گن تو لیتے ہیں انگلیوں پہ گناہ
رحمتوں کا حساب کون کرے
عشق کی تلخ کامیوں کے نثار
زندگی کامیاب کون کرے
دعوت میکشی ان آنکھوں سے
جرات اضطراب کون کرے
دل کاآئینہ سامنے لا کر
تجھ کو تیرا جواب کون کرے
غرق جام و شراب ہو کے شکیل
، شغل جام وشراب کون کرے
٭٭٭٭
شکیل بدایونی