بہ ہر صورت ٹھہر جانا پڑے گا
اگر رستے میں مے خانہ پڑے گا

محبت میں سکون دل کی خاطر
کسی دن زہر بھی کھانا پڑے گا

ابھی منزل کہاں اے ذوق منزل
ابھی تو منزلوں جانا پڑے گا

نہ پوچھو مجھ سے وجہ بے قراری
بھری محفل میں شرمانا پڑے گا

کہاں جاؤں میں تیرے در سے اٹھ کر
پلٹ کر پھر یہیں آنا پڑے گا

یہی پر لطف الفت ہو تو پختہ
سراپا درد بن جانا پڑے گا

ہیں کیا دیر و حرم ان کی طلب میں
خدا جانے کہاں جانا پڑے گا

تمنائے وفاداری سلامت
انہیں بھی ہاتھ پھیلانا پڑے گا

جوانی آبروئے زندگی ہے
یہ دولت کھو کے پچھتانا پڑے گا

سمجھ لو جرمؔ دستور محبت
زمانے بھر کو سمجھانا پڑے گا

جرم محمد آبادی