ٹک ٹاک پر پابندی ۔۔۔۔ عمار چوہدری
جیسے جیسے ٹیکنالوجی میں تیزی اور جدت آ رہی ہے‘ مزاح‘ انٹرٹینمنٹ پر مبنی نئی نئی موبائل ایپلی کیشنز سامنے آ رہی ہیں۔ان میں سے کئی موبائل ایپس ایسی ہیں جو دیگر کی طرح نوجوانوں کا قیمتی وقت‘ سرمایہ اور اخلاق برباد کر رہی ہیں۔ ٹک ٹاک ان میں سرفہرست ہے۔ پاکستان میں گزشتہ روز ٹک ٹاک پر پابندی عائد کردی گئی۔ یہ پابندی غیر قانونی و غیر اخلاقی مواد کو روکنے کیلئے ٹک ٹاک کی جانب سے مؤثر میکنزم تیار کرنے میں ناکامی پر لگائی گئی۔ گزشتہ دنوں وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز نے کہا تھا کہ وزیراعظم عمران خان معاشرے میں بڑھتی عریانیت اور فحاشی پر شدید پریشان ہیں اور انہوں نے تمام متعلقہ حکام کو اس کی روک تھام کیلئے ہدایت کی ہے کیونکہ ایسا نہ ہوا تو اس کے نتیجے میں پاکستانی معاشرے کی سماجی و مذہبی اقدار تباہ ہو جائیں گی۔مرکزی میڈیا اور سوشل میڈیا اور اس کی ایپلی کیشنز کے ذریعے پھیلنے والی فحاشی کی روک تھام کیلئے جامع حکمت عملی مرتب کرنے کی بھی وزیراعظم ہدایت کر چکے ہیں۔ پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی وہ ادارہ ہے جسے پاکستان میں ٹیکنالوجی سے متعلق کسی بھی حوالے سے شکایات کی جا سکتی ہے۔ ٹک ٹاک سے متعلق بھی معاشرے کے مختلف طبقوں کی جانب سے غیر اخلاقی اور غیر مہذب مواد کی موجودگی کی شکایات کی گئی تھیں جس کے بعد ہی ایپ پر پابندی کا فیصلہ کیا گیا۔ ٹک ٹاک انتظامیہ کے ساتھ اپنے تحفظات شیئر کیے گئے تھے اور انہیں پی ٹی اے کی ہدایات پر عمل کیلئے مناسب وقت بھی دیا گیا تھا تاہم ٹک ٹاک انتظامیہ ہدایات پر عمل کرنے میں ناکام رہی جس کے بعد یہ قدم اٹھایا گیا۔
ایک چینی کمپنی نے ٹک ٹاک ایپ ستمبر 2016ء میں متعارف کروائی تھی ۔ 9 نومبر 2017ء کو ٹک ٹاک نے ایک دوسری ایپ میوزیکلی کو ایک بلین ڈالر میں خرید لیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ ایپ دنیا بھر میں مشہور ہو گئی اور 2018 ء میں صرف امریکا میں 80 ملین صارفین نے اسے ڈاؤن لوڈ کیا۔2018ء میں ہی باقی دنیا میں 800 ملین صارفین نے اسے ڈاؤن لوڈ کیا۔ اکتوبر 2018 ء میں یہ دنیا کے 150 ملکوں اور 75 زبانوں میں دستیاب تھی۔ ٹک ٹاک میں15 سیکنڈ کی ویڈیو بنائی اور شیئر کی جاتی ہے‘ اس میں صارف کو صرف ہونٹ ہلانے ہوتے ہیں اور پندرہ سیکنڈ کی ویڈیو ریکارڈ کر کے اسے سوشل میڈیا پر شیئر کر دیا جاتا ہے۔اس پندرہ سیکنڈ کی ویڈیو میں ذو معنی الفاظ بولے جاتے ہیں۔ عجیب و غریب حرکات و سکنات کی جاتی ہیں اور ناظرین کو متوجہ کرنے کیلئے ہر حد پار کی جاتی ہے۔ اگر آپ اس موبائل ایپلی کیشن کے یوزر نہیں تو شاید آپ اندازہ بھی نہیں کر سکتے کہ اس لت نے کتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو اپنا عادی بنا لیا ہے اور یہ نشے کی حد تک ان کی زندگی میں شامل ہو چکی ہے‘ جس کے بعد اس ایپ کے نقصانات سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ نوجوان اس پر مخبوط الحواس بن کر پاگلوں جیسی حرکتیں اس لئے کرتے ہیں تاکہ ان کے زیادہ سے زیادہ لائیکس اور فالورز بڑھیں اور جس کا بنیادی مقصد آمدنی کمانا ہوتا ہے۔ پاکستان میں کئی لڑکیاں‘ لڑکے ایسے ہیں جن کے ایک کروڑ سے زیادہ فالورز ہیں۔ انہی کو آئیڈیل مان کر نو عمر بچے اور نوجوان انہیں فالو کرنا شروع کر دیتے ہیں اور پڑھائی اور کام کاج چھوڑ کر ٹک ٹاک سٹار بننے کے خواب دیکھنے لگتے ہیں۔یہ کبھی محبوب کی یاد میں رونے لگتے ہیں۔ کبھی سلو موشن میں گھوم کر بیک گرائونڈ میں میوزک چلا دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں یہ ہیرو یا ہیروئین بن گئے ہیں۔اس ایپلی کیشن کے اپنے آئیڈیل اور ہیروز ہیں۔ دس بارہ لڑکے لڑکیاں مل کر گروپ میں بھی اس پر ویڈیوز بنا سکتے ہیں۔ جدید علوم اپنی جگہ‘ مگر ان کے برے استعمال سے معاشرے میں جو تباہی پھیل رہی ہے اس کے نقصانات بہت ہی زیادہ خطرناک ہیں‘ پہلے فیس بک‘ واٹس ایپ‘ انسٹا گرام اور کئی ایسے پروگرام بے حیائی کیلئے استعمال ہورہے تھے‘ اب یہ نئی مصیبت گلے آن پڑی تھی جس نے آتے ہی تباہی مچا دی تاہم شکر ہے کہ اس پر پابندی عائد کر کے معاشرے کو اخلاقی تباہی سے بچا لیا گیا۔
جو لوگ اس پر پابندی کے خلاف ہیں‘ وہ صرف اور صرف پیسے کو اپنا خدا مانتے ہیں۔ ان کے نزدیک اخلاقیات‘ عزت اور تہذیب بے معنی چیزیں ہیں۔یہ سوچ کر یہ اخلاق باختہ‘ فحش اور ذو معنی حرکات کرنے سے بھی باز نہیں آتے۔ آپ غور کریں ایک زمانہ تھا جب ہنسنے کیلئے ہم ایک ٹی وی ڈرامہ دیکھتے تھے جس میں شستہ جملے بولے جاتے تھے‘ مہذب اور بااخلاق فنکار اپنی اداکاری کے جوہر دکھا کر ہمارے دل موہ لیتے تھے لیکن آج سب کچھ پندرہ سیکنڈ کے اندر کرنے کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ کسی کو ہنسانا ہے تو پندرہ سیکنڈ کا ٹک ٹاک بنا دو‘ رُلانا ہے تب بھی۔ فیشن کے جلوے دکھانے ہیں تب بھی اور خطرناک کرتب دکھانے ہیں تب بھی۔ ٹک ٹاک کا پاکستان کیا دنیا بھر میں پچانوے فیصد استعمال منفی معنوں میں ہو رہا ہے اور امریکہ میں گزشتہ دنوں شائع شدہ ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ امریکہ میں ہونے والے جنسی ہراسانی کے واقعات اور ریپ کے پیچھے ایسی ہی موبائل ایپس اور فحش مناظر کا ہاتھ ہوتا ہے۔ ان چیزوں نے موبائل استعمال کرنے والے تمام صارفین کو ایک عجیب و غریب خطرے سے دوچار کر دیا ہے کیونکہ جب کوئی شخص موبائل کو مثبت استعمال کیلئے بھی اٹھاتا ہے تو اسے کہیں نہ کہیں سے فحش ویڈیو موصول ہو جاتی ہے اور اس کا دھیان اپنے اصل کام سے ہٹ جاتا ہے۔یہ دو دھاری تلوار ہے ۔ اس سے دونوں اطراف سے ہاتھ ضرور کٹتے ہیں۔ آپ اسے اچھے مقاصد کیلئے استعمال کرنے کی کوشش بھی کریں گے تو آپ کی ویڈیو کروڑوں غیر اخلاقی ویڈیوز کے نیچے کہیں دب کر گم ہو جائے گی۔ اگر کبھی بھول کر سامنے بھی آ گئی تو اسے دیکھنے والے اتنے نہیں ہوں گے کیونکہ اس کے نوے فیصد فالورز اور صارفین کی عمر تیس برس سے کم ہے۔ یہ وہ عمر ہوتی ہے جب انسان میچورٹی کی جانب گامزن ہوتا ہے ۔ اس دور میں بھرپور غلطیاں کرتا ہے اور جب تک اسے عقل آتی ہے وہ اپنی جوانی کے دن جیسی غیر ضروری ایپس میں ضائع کر چکا ہوتا ہے۔پاکستان میں باسٹھ فیصد نوجوان تیس برس سے کم عمر کے ہیں۔ یہ نوجوان چاہیں تو ٹیکنالوجی کی دنیا میں انقلاب برپا کر سکتے ہیں کیونکہ اس فیلڈ کو ادھیڑ عمر شخص نہیں سمجھ سکتا۔ ٹک ٹاک پر سٹار بن کر پیسے کمانا کوئی بڑا کام نہیں ہے۔ اصل کام ایسی ایپس بنانا ہے جن سے انسانیت کو فائدہ ہو اور ملک کو زرمبادلہ ملے۔ جو لوگ ٹک ٹاک کو اس لئے پسند کرتے ہیں کہ اس سے پیسہ آتا ہے تو پھر پیسہ تو عزت بیچنے سے بھی آتا ہے تو کیا انسان اتنا گر سکتا ہے کہ پیسے کے لئے کچھ بھی کرنے کو تیار ہو جائے؟ یہ کام والدین کے کرنے کا تھا جو حکومت نے کیا لیکن والدین بھی کیا کریں کہ بچوں کے سامنے بے بس ہو جاتے ہیں۔ آج کل کے بچوں پر زور زبردستی بھی نہیں کی جا سکتی لیکن انہیں سمجھانے کی کوشش جاری رکھنی چاہیے۔ ٹک ٹاک جیسے شارٹ کٹ استعمال کرنے سے نوجوان راتوں رات امیر بننا چاہتے ہیں۔ ایسا پیسہ اگر تیزی سے آتا ہے تو اس سے بھی تیزی سے چلا جاتا ہے۔ ٹک ٹاک پر خودکشیوں‘ قتل اور بلیک میلنگ جیسی ویڈیوز آئے روز اپ لوڈ ہوتی ہیں جن کی وجہ سے گھروں کا سکون برباد ہوتا ہے۔والدین اور ریاست کیلئے ان کے بچے ان کے نوجوان سب سے بڑا اور قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں اور اگر یہ غلط راستے پر چل پڑیں توریاست نوجوانوں کے ٹیلنٹ اور توانائی سے محروم ہو جاتی ہے۔حکومت نے ٹک ٹاک پر جو پابندی لگائی ہے اسے برقرار رکھنا چاہیے اور کسی بھی اندرونی بیرونی دبائو میں آئے بغیر صرف اور صرف معاشرتی اقدار اور نوجوان نسل کو بچانے کی فکر کرنی چاہیے۔