جو کارواں میں ہے شامل نہ رہ گزار میں ہے
وہ شخص میری تمناؤں کے دیار میں ہے

سحر شناس اندھیرے کہ شب گزیدہ سحر
نہ وہ نگاہ میں اپنی نہ یہ شمار میں ہے

یہ کیا خلش ہے کہ لو دے رہی ہے جذبوں کو
نہ جانے کون سا شعلہ میرے شرار میں ہے

بسی ہے سوکھے گلابوں کی بات سانسوں میں
کوئی خیال کسی یاد کے حصار میں ہے

رچی ہوئی ہے فضاؤں میں کس کے خون کی بو
یہ کیسا جشن بہاراں مرے دیار میں ہے

نہ جانے کون سے جھونکے سے جل بجھوں عظمیٰؔ
مرا وجود ہواؤں کے کار زار میں ہے
خالدہ عظمٰی