نام رکھا ہے فسوں گر نے سخن ساز مرا
گھونٹے دیتی ہے گلا اب مری آواز مرا
رہ گیا راز کسی طرح اگر راز مرا
بے نیازی بھی اٹھائے گی تری ناز مرا
آج ہے موت بھی وہ عشق جو کل تک تھا حیات
مختلف کتنا ہے انجام سے آغاز مرا
بے پیے مست ہوا پی کے میں بہکا نہ کبھی
وہ تھی ساقی کی کرامت پہ ہے اعجاز مرا
ناوک ناز سے اڑتے ہیں نشانے دل کے
اور پردے میں ابھی ہے قدر انداز مرا
دھڑکنیں اب بھی ہیں ویسی ہی شکستہ دل کی
بے صدا ہو نہ سکا ٹوٹ کے بھی ساز مرا
عذر بے بال و پری تھا جو قفس توڑ چکا
دیکھ کے رہ گئی منہ حسرت پرواز مرا
روز اک تازہ بلا آتی ہے دل کے ہاتھوں
جرمؔ آمادہ ہے دم لینے پہ دم ساز مرا
جرم محمد آبادی