فریب الفت کی داستاں میں اثر کی امید ہی کہاں ہے
ابھی تو مجھ کو اسی میں شک ہے یقیں یقیں ہے گماں گماں ہے
مجھی تک ان کی جفا نہ سمجھو یہ امتحاں ہے وہ امتحاں ہے
وہیں قیامت کا سامنا ہے وفا کی منزل جہاں جہاں ہے
نصاب الفت سے بے خبر ہے سند نہیں بوالہوس کا دعویٰ
جو لفظ میری زباں سے نکلے وہی محبت کی داستاں ہے
کہاں پہنچ کی آرزو ہے تمہارے نقش قدم پہ چل کر
تم اپنے دل سے پتا لگاؤ مری تمنا کی حد کہاں ہے
فریب بن کر نشاط دل کا رہے گا کب تک یہ عیش رفتہ
بدل چکا کروٹیں زمانہ مری نظر میں وہی سماں ہے
ادھر امنگوں کی لہر دل میں ادھر جوانی کی خود نمائی
پڑے ہیں اک کشمکش میں دونوں مذاق فطرت کا امتحاں ہے
تمہاری غفلت شعاریوں نے وہ گل کھلائے کہ رنگ بدلا
قفس کی بنیاد رکھنے والے خزاں کے قبضے میں آشیاں ہے
پلٹ گیا جرمؔ رخ ہوا کا ہیں ایسے آثار اب ہویدا
بہار آئے نہ بعد جس کے چمن میں وہ محشر خزاں ہے
جرم محمد آبادی