پہیلی کون بوجھے گا جواب ناز جاناں کی
ہم اس ہوں کو سمجھتے ہیں نہیں کی اس نے یا ہاں کی
ازل سے یہ امانت ہے جنون فتنہ ساماں کی
خرد کے ہاتھ لگ سکتی نہیں دھجی گریباں کی
اگر موجوں سے ڈر کے ہم بھی ساحل ہی پہ رہ جاتے
تو دنیا پر حقیقت حشر تک کھلتی نہ طوفاں کی
گرفتار بلا کے حق میں وہ زنجیر بنتا ہے
جو نالہ نیند اڑا دیتا ہے زنداں کے نگہباں کی
کہے کچھ تو بھرم جائے جو چپ بیٹھے تو ہوک اٹھے
ضرورت موت بن جاتی ہے غیرت دار انساں کی
کچھ ایسے پھول ہم نے بھی چنے تھے اپنے دامن میں
جو اپنے ساتھ رونق لے گئے گلزار امکاں کی
وہ دیوانہ مرے نزدیک ہوشیاروں سے اچھا ہے
حقیقت جس نے کچھ سمجھی نہیں تار رگ جاں کی
یہ مجبوری تماشا چشم عالم میں بنا ورنہ
خوشی سے دھجیاں کوئی اڑاتا ہے گریباں کی
چمن کیا ہے نمونہ میرے اک رنگیں تصور کا
نشاط کار نے صورت بدل دی ہے بیاباں کی
نکھاریں گے یہی کچھ پھول اور کانٹے کی رنگت کو
پھٹے دامن پہ جو تاریخ لکھیں گے گلستاں کی
مقدر میں جو تھی اے جرمؔ قید زیست کی سختی
عناصر کے روابط بن گئے دیوار و زنداں کی
جرم محمد آبادی