بے رُتبہ آنکھیں
کتنا آسان ہے یہ کہنا:
یہ تیری ناکامی صلہ ہے تیرے کرموں کا!
اسمِ اعظم سے پہچانے جانے والے
میری نیکی کی سچائی
میری جبیں اور میرے سجدے
تیرے جہانوں کی گردش میں
ٹھوکریں کھا کر ہانپ رہے ہیں!
کون پھلانگ سکا ہے اُس کو
میرے خیالوں کی وحشت نے
جو دیوار اٹھا رکھی ہے
جس کے اُدھر ہے، میرے ارادوں
کی اک عاجز دنیا
جس کے اندھے غار کے اندر
زخمی تدبیروں کے سائے رینگ رہے ہیں
جس کے آگے ہے اک اور ہی دنیا
شمسی نظاموں کے جلووں سے
روشن دنیا---تیری دنیا
جس کے تلے بے رُتبہ آنکھیں
--- میری آنکھیں
نادِم، بے بس
تیرے کرم کی آس لگائے
کُچلی پڑی ہیں!
فیصل ہاشمی