دل میں بیشک رہ گئی ہو جستجو تیرے لیے
کوئی کیا پھرتا رہے اب کُو بکُو تیرے لیے
کر رہا ہوں اس میں اب اپنا تعاقب روز و شب
جو سفر رکھا ہُوا تھا ہُو بہو تیرے لیے
رہ گئی ہے اب محبت درمیاں دیوار سی
میں ہوں میں میرے لیے اور تو ہے تو تیرے لیے
ریت کی رفتار باقی رہ گئی ہے اب وہاں
جو رواں رکھی ہوئی تھی آب جُو تیرے لیے
دیکھ رفتہ رفتہ تُو بھی میرے جیسا ہو گیا
دائو پر رہتی ہے دل کی آبرو تیرے لیے
عافیت کا تیری اندازہ ہی کر لیتے ہیں اب
بھیجتے تھے ہم کبوتر چار سُو تیرے لیے
کیا خبر کس دم نمازِ عشق ادا کرنی پڑے
اس لیے رہتے تھے ہر دم باوضو تیرے لیے
اصل میں اپنا ہمارا تو کوئی جھگڑا نہیں
ہر گھڑی رہتے ہیں خود سے دو بدو تیرے لیے
ہوتی رہتی ہے ہوائوں ہی سے اب اپنی ظفرؔ
اپنے ہاں مخصوص تھی جو گفتگو تیرے لیے
ظفر اقبال