اور مجھ کو نہ امتحان میں ڈال
آخری تیر ہے‘ کمان میں ڈال
ورغلا تتلیوں کی ملکہ کو
پھوٹ پھولوں کے خاندان میں ڈال
کام لے یار اپنی آنکھوں سے
چھوڑ شمشیر کو‘ میان میں ڈال
درد و غم سے وجود بھر آیا
لامکانی اٹھا مکان میں ڈال
سابقہ عشق سابقہ ہے میاں
دل پرندہ نئی اُڑان میں ڈال
میرے بارے میں لوگ جانتے ہیں
جھوٹ اتنا تو مت بیان میں ڈال
آپسی مسئلہ ہے، حل کر لے
مت کوئی غیر درمیان میں ڈال
تیرا اپنا ہوں، اتنا تو حق دے
مار کر مجھ کو سائبان میں ڈال
دیکھ مت مسکرا کے یوں مجھ کو
نہ مجھے عشق کے گمان میں ڈال
آزاد حسین آزادؔ