سکندر اعظم اور راجہ پورس ۔۔۔۔۔ عبدالحفیظ ظفر
sakindar e azam aur raja poras.jpg
اگر پورس کے ہاتھی ’’ غدراری‘‘ نہ کرتے تو تاریخ مختلف ہوتی
تاریخ عالم اٹھا کر دیکھیں تو کئی حکمران ایسے ملیں گے جنہوں نے پوری دنیا فتح کرنے کا خواب دیکھا اور اس کے لئے اپنی تمام تر صلاحیتیں صرف کردیں لیکن وہ کامیاب نہیں ہوئے۔ سکندراعظم نے بہت دنیا فتح کرلی لیکن وہ بھی ساری دنیا کو فتح کرنے میں ناکام رہا۔ آخر صرف 32 برس کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔ نپولین کی بات ہوجائے وہ بھی اپنے آپ کوعقل کُل سمجھتا تھا اور اس کے دل میں بھی یہ تمنا انگڑائی لے رہی تھی کہ وہ ساری دنیا کو فتح کر لے۔ وہ ایک بہادر اور جنگجو حکمران تھا لیکن اپنے عزائم میں ناکام رہا۔ واٹرلو کی جنگ میں اسے شکست ہوئی اور اسے قید کرلیا گیا پھر اسے برطانیہ کے ایک جزیرے میں رکھا گیا۔ اس جزیرے کے اردگرد کی آب و ہوا اتنی خراب تھی کہ نپولین کو متعدد بیماریاں لاحق ہوگئیں، ان میں جگر کی بیماری بھی شامل تھی۔ آخر ان بیماریوں نے نپولین کا کام تمام کردیا۔کہاں گئے وہ ارادے اور کہاں گئے وہ خواب سب چکنا چور ہوگئے۔
بیسویں صدی میں جرمنی کے ایڈولف ہٹلر کے دماغ میں بھی یہ بات سما گئی کہ وہ ساری دنیا فتح کر سکتا ہے۔ اس کا یہ مؤقف تھا کہ دنیا کی بہترین نسل آریہ نسل ہے اور اسی کو پوری دنیا پر حکومت کرنے کا حق ہے۔ جنگ عظیم دوم کے شروع میں جب جرمنی نے فتوحات حاصل کرنا شروع کیں تو ایسا لگا کہ ہٹلر اپنے عزائم میں کامیاب ہو جائے گا لیکن پھر ہٹلر کے تمام منصوبے خزاں رسیدہ پتوں کی طرح بکھر گئے اور اس کا انجام سب کو معلوم ہے۔ یہ بات قابل غور ہے کہ آخر بعض لوگوں کو دوسروں پر غلبہ پانے کی اتنی خواہش کیوں ہوتی ہے؟ بعض کا خیال ہے کہ یہ انسانی جبلت ہے، لیکن کیا ہر انسان کی یہ جبلت ہے؟ ہرگز نہیں۔ کہنا یہ چاہیے کہ بعض انسانوں کے دماغ میں یہ خلل ہوتا ہے کہ وہ دوسروں پر غلبہ حاصل کریں۔ لیکن وہ یہ نہیں سوچتے کہ انسانی زندگی کا تو کوئی بھروسہ نہیں۔ اور پھر کیا ضروری ہے کہ وہ اپنے ارادوں میں کامیاب ہو جائیں اور اگروہ ناکام ہو گئے تو پھر وہ کس انجام سے دوچار ہوں گے؟ یہ ایک بحث طلب معاملہ ہے۔ ہم اس مضمون میں سکندر اعظم اور راجہ پورس کے بارے میں اپنے قارئین کو آگاہ کریں گے کہ اگر کسی بہادر حملہ آور کا مقابلہ دوسرے بہادر شخص سے پڑ جائے تو پھر کیا ہوتا ہے؟۔
سکندراعظم کا تعلق یونان سے تھا جبکہ راجہ پورس پنجاب سے تھا۔ بہت سے لوگ جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ پنجاب نے ہمیشہ حملہ آوروں کو خوش آمدید کہا‘ غلط ہے کیونکہ پنجاب کے راجہ پورس نے سکندراعظم کا ڈٹ کر مقابلہ کیا تھا۔ آخری فتح بے شک سکندراعظم کی ہوئی لیکن اخلاقی فتح راجہ پورس کی تھی۔ جب سکندراعظم نے راجہ پورس سے پوچھا کہ تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا جائے تو اس کا جواب یہ تھا جو بادشاہ بادشاہوں کے ساتھ کرتے ہیں۔
سکندراعظم نے 15 سالہ فتوحات کے زمانے میں کبھی شکست نہیں کھائی۔ یونان کی بادشاہت حاصل کرنے کے بعد سکندر 334 قبل مسیح میں ایشیاء میں داخل ہوا جہاں اس نے کئی جنگوں میں فتح حاصل کی۔ اس سے پہلے 326 قبل مسیح میں اس کا مقابلہ ہندوستان کے شہزادے پورس سے ہوا جس کے ساتھ اس نے ہائیڈس پیس میں جنگ لڑی۔ اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ سکندراعظم کا قد صرف 5 فٹ تھا جبکہ راجہ پورس 7 فٹ لمبا تھا۔ سکندر کو عظیم اس وقت کہا گیا جب اس نے سلطنت فارس کو فتح کیا۔ اس زمانے کا ہائیڈس پیس آج کا دریائے جہلم اور دریائے چناب کے درمیان کا علاقہ ہے اور یہ ہندوستان میں شامل تھا۔ سکندراعظم کو اس حقیقت کا ادراک نہیں تھا کہ راجہ پورس کتنا زبردست اور بہادر جنگجو ہے۔ مؤرخین کے مطابق یہ لڑائی پنجاب کے علاقے مونگ (Mong) میں لڑی گئی۔
یہ جنگ سکندر نے بڑی مشکل سے جیتی۔ اس نے شکست کے جبڑے سے فتح چھینی۔ پورس کی بدقسمتی یہ رہی کہ 30,000 پیدل فوج‘ 4000 گھڑسوار فوج اور گھوڑا گاڑیاں اپنے ہی ہاتھیوں تلے کچلے گئے پورس کے ہاتھی خود اس کے لیے تباہ کن ثابت ہوئے۔ ''پورس کے ہاتھی‘‘ تو اب محاورہ بن چکا ہے۔ پہلے صورت حال یہ تھی کہ سکندر کی گھڑسوار فوج مکمل طور پر پورس کو اطاعت پر مجبور نہ کر سکی۔ یہ پورس کی جرأت کا نتیجہ تھا کہ سکندراعظم کو پہلی بار شکست کا خطرہ محسوس ہوا۔ اس جنگ نے سکندر کی فتوحات کی حد مقرر کردی اور وہ کوئی دوسری مہم شروع کرنے سے پہلے ہی وفات پا گیا۔ قدیم یونانی مؤرخین کے مطابق سکندر کی موت ملیریا کی وجہ سے ہوئی۔ بعض مٔورخین کی رائے میں سکندر کو زہر دیا گیا‘ بعض کہتے ہیں کہ اسے شدید بخار ہوگیا تھا اور وہ اس بخار میں 10 دن تک مبتلا رہا۔ بہرحال وہ 323 قبل مسیح کو چل بسا۔ سکندر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بلیوں سے بہت ڈرتا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہٹلر اور مسولینی بھی بلیوں سے خوفزدہ رہتے تھے۔
مؤرخین کے مطابق راجہ پورس ایک وسیع مفتوحہ علاقے پر حکومت کرتا تھا اور اسکا دارالحکومت آج کا پاکستانی شہر منڈی بہائو الدین ضلع گجرات تھا۔ بعض کے مطابق سکندراعظم اور راجہ پورس کے درمیان لڑائی سرگودھا کے قریبی علاقے بھیرہ میں لڑی گئی سکندر نے سلطنت فارس کے بادشاہ دارا سوئم کو شکست دی تھی اس لئے اس کا حوصلہ بہت بلند تھا۔ دارا کو بھی ''عظیم دارا‘‘ کہا جاتا ہے۔ فارس کے اس بادشاہ نے سلطنت فارس کو بہت پھیلایا اور پھر یونان پر حملہ کیا لیکن اسے شکست ہوئی۔
اب ذرا بعض اور مؤرخین کی رائے بھی پڑھ لیجئے جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ راجہ پورس پورادا کا راجپوت تھا۔ پورادا آج کے پنجاب کے علاقے کی ایک ریاست تھی جو دریائے جہلم اور دریائے چناب کے درمیان پھیلی ہوئی تھی جہاں تک پورس کے راجپوت ہونے کا تعلق ہے تو اس بارے میں یہ اس حقیقت کو مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ راجپوتوں کی ابتداء گپتا سلطنت کے زوال کے بعد ہوئی۔ لفظ راجپوت سنسکرت زبان سے اخذ کیا گیا ہے جس کا مطلب ہے ''بادشاہ کا بیٹا‘‘ لیکن راجہ پورس کا دور 326 قبل مسیح کا ہے۔ اس کا حقیقی نام پروشتوتاما تھا اور وہ پورادا سلطنت کا بادشاہ تھا جو دریائے جہلم کے کناروں پر تھی، وہ پورو قبیلے سے تعلق رکھتا تھا۔ ہندوئوں کی مذہبی کتاب رگ وید میں پورو قبیلے کا ذکر کیا گیا ہے اور اسے سبھروال سے منسوب کیا گیا ہے۔ سبھروال کا مطلب پنجابی کھتریوں کی ایک سب ذات ہے۔ راجپوتوں کی ابتدا ء ساتویں صدی سے ہوئی جبکہ پورس قبل مسیح کے دور کا تھا۔ پورس چندر ونتتی تھا اور چندر ونتتی کا راجپوتوں سے کوئی تعلق نہیں۔ بعض مؤرخین اس بات پر بھی اصرار کرتے ہیں کہ پورس برہمن تھا لیکن یہ بات بھی حتمی طور پر درست نہیں۔
ایک اور رائے پڑھ لیں۔ جدید مؤرخین کا دعویٰ ہے کہ راجہ پورس کا تعلق کیٹوک سے تھا اور کیٹوک چندر ونتتی سلسلے کا ایک قبیلہ ہے۔ بہرحال مؤرخین کی کسی رائے سے بھی حتمی طور پر اتفاق نہیں کیا جا سکتا۔ کیٹوک برادری کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کیٹوک نام ممکنہ طور پر دو الفاظ سے اخذ کیا گیا ہے۔ ایک کوٹ (KOT) اور دوسرا آئوچ (OUCH)۔ اٹھارہویں صدی میں اس برادری کے بیشتر ارکان مسلمان ہوگئے تھے۔
آخر میں اس بات کا تذکرہ بہت ضروری ہے کہ جب راجہ پورس نے سکندراعظم کے سامنے ہتھیار ڈالے تو سکندر نے اس سے جو سوال پوچھا‘ اس کے جواب سے وہ بہت متاثر ہوا۔ اس نے پورس کی سلطنت اسے واپس کردی اور بادشاہ کے عہدے پر بھی بحال کردیا۔