Results 1 to 2 of 2

Thread: قدیم مصری تہذیب اوردریائے نیل ۔۔۔۔ خاور نیازی

  1. #1
    Join Date
    Nov 2014
    Location
    Lahore,Pakistan
    Posts
    25,276
    Mentioned
    1562 Post(s)
    Tagged
    20 Thread(s)
    Rep Power
    214784

    candel قدیم مصری تہذیب اوردریائے نیل ۔۔۔۔ خاور نیازی

    قدیم مصری تہذیب اوردریائے نیل ۔۔۔۔ خاور نیازی

    Qadeem Misri Tehzeeb.jpg
    مصری باشندے ایک عورت نیل دیوتا کی بھینٹ چڑھاتے تھے

    مصری باشندے ہزاروں سالوں سے دریائے نیل کے کنارے آباد ہیں ۔اس طویل مدت میں بہت سے انقلاب آئے ، متعدد قومیں آتی جاتی رہیں لیکن خاص مصری نمونہ یا سٹرکچر جوں کا توں ہی رہا۔ یونان کے قدیم مؤرخ ہر ودویش نے کہا تھا کہ ''مصر نیل کا عطیہ ہے‘‘۔

    نیل کی وادی انتہائی سر سبز و شاداب اور زمین حد درجہ زرخیز ہے، شاید ہی کوئی دوسری زمین اس قدر زرخیز ہو۔دریائے نیل نے بنجر ریگستان کو سبزہ زاروں میں تبدیل کر دیاہے۔یہ دریا حبشہ کی زمینوں سے کھاد لیکر آتا رہتاہیاور مصر کی زمین کو زرخیز کردیتا ہے ۔ دریائے نیل دنیا کا دوسرا سب سے لمبا دریا ہے ۔یہ عظیم دریا قدیم مصری با شندو ں کو بہت پر اسرار معلوم ہوتا تھا۔ وہ تعجب کرتے تھے کہ اس میں ہر سال باقاعدگی سے اپنے وقت پر طغیانی کیسے آتی ہے ۔ اس بارے میں طرح طرح کے افسانے گھڑ لئے گئے تھے ۔ایک افسانہ تو یہ تھا کہ اس میں دیوی ہر سال ایک آنسو گراتی ہے جس کے سبب نیل میں حیرت انگیز طغیانی آ جاتی ہے ۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ افسانہ یا کہاوت بے معنی ہو تی چلی گئی۔
    گڑیا پھینکنے کی رسم
    قدیم زمانے میں یہی دریا آمدورفت کا ایک بہت بڑا ذریعہ تھا۔اس لئے قدیم مصری باشندے دریائے نیل کی پوجا کیا کرتے تھے ، بقول ان لوگوں کے ، زندگی کی ساری رونقیں اسی دریا پر ہی منحصر ہیں ۔طغیانی کے زمانے میں وہ خوف کھاتے تھے ۔جب دریا پانی سے بھر جاتا تو وہ ''نیل دیوتا‘‘ کے اعزاز میں تہوار مناتے اور دیوتا کی فیاضی کے جواب میں ایک دوشیزہ کو اسکی بھینٹ چڑھاتے تھے لیکن رفتہ رفتہ اس رسم میں تبدیلی آ تی گئی ، اور ایک گڑیا دریا میں پھینک کر رسم ادا کر دی جاتی تھی۔
    سیلاب کی رات
    ۔17جون کی رات کو دریا چڑھنا شروع ہو جاتا تھا ، مقامی لوگ اسے ''لیل تقاطیر‘‘(ٹپکنے والی رات) کے نام یاد کرتے تھے ۔ مقامی طور پر ایسی سوچ رکھنے والے چند لوگ آج بھی موجود ہیں۔ جہاں تک لیل تقاطیر کے حقیقی تصور کا معاملہ ہے کچھ لوگوں کا اب بھی یہ کہنا ہے کہ ٹپکنے سے ان کی مراد ''اسیس‘‘ نامی دیوی کے آنسو کا ٹپکنا ہے ۔اس کے برعکس کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ دریا میں پانی کی وافر مقدارکے باعث پانی کناروں سے باہر نکلتا رہتا تھا، اس لئے سیلاب کی پہلی رات کو لیل تقاطیر کہتے تھے ۔
    تین شہر عجائب
    گھروں میں تبدیل
    مصری باشندے باد بانی کشتیوں کے ذریعے شمال سے جنوب کی طرف، دریا کے رخ پر سفر کرتے تھے ۔دریا کے ذریعے نقل وحمل کی اس سہولت کے سبب مصریوں نے فن تعمیر میں حیرت انگیز ترقی کی ۔مؤرخین کی یہ رائے ہے کہ اگر دریائے نیل نہ ہوتا تو شاید مصری فن تعمیر اتنی ترقی نہ کر پاتا۔ یہ دریائے نیل ہی تھا جس کے ذریعے آسان نقل وحمل سے مصری باشندے بھاری بھر کم پتھر دور دراز کے مقامات سے لائے ،اور عالی شان عمارتیں بنا کر دنیا کو حیرت میں ڈال دیا۔ بڑی آبی گزرگاہ ہونے کی وجہ سے یہاں کے قدیم لوگوں نے جہاز اور کشتیاں بنانے میں حیران کن حد تک مہارت حاصل کر لی تھی۔اسی کی بدولت یہ ملک اس قدر مال دار ہو گیا کہ انسانی تاریخ کا پہلا اعلیٰ تمدن یہیں سے شروع ہوا۔ انہوں نے دریا کی انجینئرنگ اور زمین کی پیمائش کا علم سیکھنا ضروری سمجھا۔
    اہل مصر کو فن تعمیر کے میدان میں جس قدر کمال اور دسترس حاصل تھی، وہ مہارت دنیا کے کسی اور ملک اور قوم کو نصیب نہ ہو سکی۔
    ہر تاریخی دور کی یادگاریں ملتی ہیں ۔آجکل مصر کے تین شہر عجائب گھروں میں بدل چکے ہیں۔ اول، مکسر (قدیم تھبس) جہاں ابتدائی دور کے مصریوں کے ستون دار ایوان اور مندروں کے آثار قدیمہ نہایت وسیع علاقے میں پھیلے ہوئے ہیں ۔قدیم تھبس ( موجودہ مکسر )کے محل وقوع پر کرنک کا مندر انسانی صنعت کی تاریخ میں عجیب و غریب چیز ہے ۔ایک نامور امریکی مؤرخ جیمس بریسٹڈ نے کرنک میں اپنی کرنک کے مندر کی سیر کا احوال ان الفاظ میں بیان کیا تھا،ستونوں کا اتنا بڑا ایوان انسانوں نے آج تک نہیں بنایا جتنا اس مصری عمارت میں موجود ہے ۔ اس کے دالان کے ستون 69 فٹ بلند اور چوٹی پر ایک ستون اتنا وسیع ہے کہ اس کے اوپر 100 آدمی ایک کھڑے ہو سکتے ہیں ۔اس کے ہر طرف بلند مخرو طی مینار اور فرعونوں کے دیو پیکر مجسمے بنے ہوئے ہیں ۔ان سب پر شوخ رنگ دئیے گئے ہیں ۔انہی میں جا بجا سونا اور چاندی اپنی چمک دکھاتے نظر آتے ہیں ۔گویا فن تعمیر کی عظمت اور شان بڑھانے میں نقاش اور بت تراش نے اپنی فنی مہارت کو چار چاند لگا دئیے ہیں ۔
    اصل میں یہاں کے بلند ستون مختلف درختوں کی صورت میں بنائے گئے ہیں اور ان کے سرے کھلے ہوئے پھول کی ماند بنائے گئے ہیں۔ اس پر طرہ یہ کہ اسی کی مناسبت سے ان پر روغن بھی کر دیا گیا ہے۔دوئم سکندریہ ، جہاں یونانی و رومی عہد کی باقیات کے آثار ملے ہیں۔ تیسرا شہر قاہرہ ہے۔ وہاں ابتدائی مسلم عہد کے مقابر ومحلات اور ایک سے ایک شاندار مسجد اور مکانات کے آثار موجود ہیں۔
    اہرام مصراورابوالہول
    قدیم مصر کی یاد گار تعمیرات کا اولین سال جو محکمہ آثار قدیمہ کے علم میں آیا وہ 3200 قبل مسیح کاہے ۔مگر اس وقت بھی انکی تہذیب بہت ترقی کر چکی تھی۔ مصری صناعی میں اس قدر کمال کی دسترس حاصل کر چکے تھے کہ یقین کرنا مشکل ہے ۔ قدیم مصر کی سب سے بڑی یادگاروںمیں ''اہرام مصر‘‘اور ''ابوالہول‘‘قابل ذکر ہیں۔ ''ابوالہول‘‘ ایک بیٹھے ہوئے شیر ببر کا مجسمہ ہے ۔جس کا سر انسان جیسا ہے ۔ یہ گویا قوت اور دانائی کے یکجا ہونے کی رمزی صورت ہے ۔ یہ دونوں اوصاف کسی بھی بادشاہ یا پوری قوم کے امتیاز کا باعث تصور کئے جاتے ہیں ۔ جس طرح اہرام کی وسعت اور عظمت کا اندازہ سرسری نگاہ سیکرنا مشکل ہے اسی طرح ابوالہول بھی ہمارے اندازے سے کہیں زیادہ بڑا ہے ۔اس کی بلندی 66 فٹ، کان 4 فٹ لمبے اور تقریبا"2 فٹ چوڑے ہیں ۔ناک 6 فٹ لمبی ہے، اگر ہم کان کے اوپر کھڑے ہو کر ہاتھ بڑھائیں تو بھی ہاتھ بالوں تک نہیں پہنچ سکتے۔
    اہرام مصر پانچ زمروں میں تقسیم کئے گئے ہیں ۔ سب سے قدیم پائے تخت ممفس کے گرد و پیش ہی بنے ہوئے ہیں ۔یہ مقام موجودہ قاہرہ سے چند کلو میٹر دوری پر واقع ہے ۔ جنیرہ کے اہرام سب سے مشہور ہیں ۔ان جناتی عمارتوں کو دیکھ کرہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں بنانے والی قوم کس قدردولت مند اور مرکزی حکومت کس قدر صاحب اختیار اور مضبوط ہو گی۔ چیوپس کے بڑے اہرام کا مصری نام خفو تھا ۔ اس عظیم عمارت کو دیکھ کر ہی اس کی تعمیر کے لئے کی گئی محنت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
    23لاکھ پتھروں کا استعمال
    نیویارک کے قریب آزادی کا بت نصب ہے ،اس وقت تک اس کے طول وعرض کا صحیح اندازہ نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کے آخری حصے پر چڑھا نہ جائے ۔یہی حال بڑے پیمانے پر جیزہ کے ہرم کبیر کا ہے ۔اسے23لاکھ سے زائدپتھروں کی مدد سے بنایا گیا ہے ، جب کہ بعض ایک ایک سالم پتھر کا وزن 150 ٹن ہے ۔اسے تعمیر کرنے میں بیس برس تک ایک لاکھ مزدور روزانہ کام کرتے رہے تھے ۔ اس کے نچلے حصے کا رقبہ 5 لاکھ مربع فٹ سے زیادہ ہے ۔اگرچہ ایک زمانہ گزرنے کے بعد اسکے بہت سے پہلو گھس گئے ہیں اور سابقہ طول و عرض میں کمی آ گئی ہے ، پھر بھی اس کا زیریں حصہ750فٹ چوڑا اور بلندی 450 فٹ ہے ۔
    سورج دیوتا ''آمون‘‘
    سے متعلق قیاس آرائیاں
    قدیم عوامی مصرمیں مشرکانہ رسومات پائی جاتی تھیں۔ مصرمیں موت کے بعد اس دنیا میں ہی دوبارہ جی اٹھنے کا تصور موجود تھا۔وہ کہتے تھے کہ دنیا میں زندگی بسر کرنے والے کا جسم اس کے مرنے کے بعد بھی زندہ رہتا تھا۔ قبر، حنوط اور اشاری مجسمے اسی لئے بنائے اجتے تھے۔آگے چل کر مصریوں کا ''تصور عدم فنا‘‘ ایک خاص دیوتا کی پرستش پر آ کر رک گیا۔ اسے'' اوسرس ‘‘کہتے تھے ۔ اس سے مراد دریائے نیل بھی تھا ۔ایک دیوتا نے اپنی عزیزہ ''ایسس ‘ سے شادی کر لی تھی۔'' ایسس‘‘ سے مراد زمین اور زمین کی زرخیزی تھا۔ وہ سورج دیوتا کو " آمون " کہتے تھے جو روزانہ مرتا تھا اور روزانہ ہی زندہ ہوجاتا تھا۔ وہی تمام دیوتاؤں کاباپ تھا ۔
    اعلیٰ طبقات مشرکانہ عقائد میں صلاح مشورے کے ذریعے تبدیلیاں کرتے رہے ۔''اخناطون ‘‘نے اپنا تصور قائم کیا۔ اس فرعون نے '' ‘‘کے مذہب کا پرچار کیا۔اس کا نشان ایک سورج تھا جس میں سے شعائیں نکلتی رہتی تھیں اور ہر شعاع انسانی ہاتھ پر ختم ہوتی تھی ۔دوسرا سورج دیوتا جو مصریوں کے اور بہت سارے دیوتاؤں کے ساتھ انسانی شکل میں پیش کیا جاتا تھا۔
    اخناطون کا اصل نام افنوفس تھا۔آطون کی خاطر اس نے اپنا نام ''افناطون‘‘رکھ لیا تھا۔جس کی خواہش تھی کہ انسان نیک کام کرے اور برائی سے اجتناب برتے ۔اخناطون تاریخ میں پہلا شخص تھا جسے مثالیت پسنداور مصلح جوکا درجہ حاصل ہوا۔وہ مطلق العنان فرعون کے گھر پیدا ہوا اور اپنے اقتدار سے فائدہ اٹھا کر اصلاحات نافذ کر سکتا تھا لیکن مصرجیسی مطلق العنان حکومت میں بھی اخناطون بری طرح ناکام ہوا۔اس نے پرانے مذہب کے پروہتوں کو ناراض کر دیا۔ چنانچہ اس کی وفات ایسے حالات میں ہوئی جو واضح نہیں ۔





    2gvsho3 - قدیم مصری تہذیب اوردریائے نیل ۔۔۔۔ خاور نیازی

  2. #2
    Join Date
    Nov 2014
    Location
    Lahore,Pakistan
    Posts
    25,276
    Mentioned
    1562 Post(s)
    Tagged
    20 Thread(s)
    Rep Power
    214784

    Default Re: قدیم مصری تہذیب اوردریائے نیل ۔۔۔۔ خاور نیازی

    2gvsho3 - قدیم مصری تہذیب اوردریائے نیل ۔۔۔۔ خاور نیازی

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •