جنگ عظیم اول ملکہ وکٹوریہ ۔۔۔۔۔ صہیب مرغوب
1st World War and queen victoria.jpg
ملکہ کے 49رشتے داروں نے لڑی
انہوں نے برطانوی شہزادوں کی شادیاں جرمنی، روس، سپین، ناروے اور سویڈن میں کی تھیں
برطانیہ کی ملکہ وکٹوریہ اپنے بچوں کی شادیوں کے ذریعے پورے یورپ پر غلبہ پانے کی سکیمیں تیاری کررہی تھیں ،انہوں نے اپنے مقصد میں کامیابی کی خاطر نہ صرف اپنے بچوں کی پسند کو ٹھکرایا بلکہ ان پر اپنی مرضی مسلط کی اور جہاں وہ چاہتی تھیں ان کے رشتے طے کئے۔دنیا کی اہم ترین سلطنت ہونے کے ناطے انہوں نے برطانیہ کے شہزادوں اور شہزادیوں کے جیون ساتھی کے لئے روس، ناروے، سویڈن، یونان، رومانیہ، جرمنی اور سپین کے شاہی خاندانوں کو چنا۔پرکشش شخصیت کے علاوہ شاہی طاقت بھی ان کے پیش نظر تھی۔
دادی ملکہ وکٹوریہ کے 42 پوتے اور نواسیاں
دادی ملکہ وکٹوریہ کے سات بچے اور 42 پوتے اور نواسیاں(کل 49) یورپ بھر میں ملکہ کی دھاک بٹھانے اور طاقت قائم کرنے کے لئے کافی تھے۔
یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ ملکہ وکٹوریہ اس دور میں برطانیہ کی ملکہ تھیں جب تاج برطانیہ میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا، اسی حوالے سے انہیں 19ویں صدی کی اہم ترین ملکہ ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے کیونکہ پہلی جنگ عظیم کے دوران کے بیٹوں،پوتوں اورنواسیوں کے شوہر یا نواسیاں خود ایک دوسرے کے خلاف جنگ میں ملوث ہوئیں ،اسی لئے ایک مضمون نگار نے تو یہاں تک لکھ دیا ہے کہ ''پہلی جنگ عظیم میں شدت کی ذمہ دار ملکہ کی جانب سے کی گئی شادیاں ہیں۔
یورپ ،کو ایک لڑی میں پرونے کی ناکام کوششیں
ملکہ وکٹوریہ شادیوں کے ذریعے یورپ کو ایک لڑی میں پرونے کی کوشش کر رہی تھیں لیکن شاہی خاندان کے بچوں کی شادیوں کا نتیجہ تباہ کن نکلا۔ یورپ میں برطانیہ کی بالادستی قائم کرنے کا خواب تو چکنا چور ہو ہی گیا اس سے یورپ کی سالمیت بھی متاثر ہوئی۔ شادی کے بعد وہ قوم پرست ہو گئے جس سے یورپ میں نئے کھچائو نے جنم لیا۔ کئی مرتبہ اپنے ہی خاندان کے خلاف رائے قائم کرنے سے یورپ کا شیرازہ بکھرنے لگا۔ کہتے ہیں کہ یورپ کی فکری تقسیم اور انتشار کی ذمہ دار ملکہ وکٹوریہ بھی تھیں کیونکہ ان شادیوں سے استحکام پیدا ہونے کی بجائے لڑائی جھگڑوں نے جنم لیا۔
شاہی خاندان کی بہن نے بہن کے خلاف جنگ لڑی
پہلی جنگ عظیم کے دوران ملکہ وکٹوریہ کے پوتوں ، پوتیوں اور نواسیوں نے بھی ایک دوسرے پر گولے برسائے، ان کی وجہ سے پہلی جنگ عظیم میں شدت پیدا ہوئی۔انہوں نے لڑتے وقت یہ بھی بھلا دیا کہ وہ ا پنے ہی رشتے داروں کے خلاف نبرد آزما ہیں ۔ ایک موقع ایسا بھی آیا کہ ایک شوہر اپنی بیوی کے خلاف جنگ لڑ رہا تھا، حتیٰ کہ ایک بہن دوسری بہن کے خلاف تھی۔حیران کن طور پر پہلی جنگ عظیم میں برطانیہ کا جانی نقصان کسی بھی جنگ کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہوا۔اس وقت تک ملکہ وکٹوریہ کے انتقال کو17برس ہو چکے تھے مگر کزنوں میں جنگ جاری تھی۔کہا جاتا ہے کہ شادیوں کے بعد بچوں کی برطانیہ سے وفاداری برائے نام رہ گئی، شادی کے بعد وہ دوسرے ملک سے محبت کرنے لگے، اور وہ قوم پرستوں کے طور پر ابھرے۔
کئی سلطنتیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئیں
ملکہ وکٹوریہ کی شادیوں کی محقق ڈیبورا کیڈبری نے ثابت کیا کہ
''پہلی جنگ عظیم دراصل برطانوی شاہی خاندان کے کزنوں کے مابین بھی لڑی گئی۔ نئے رشتے قائم ہونے سے پرانے رشتوں میں دراڑیں پڑنے لگیں، شاہی خاندان کے کزنز نئے ماحول میں بالکل بے بس ہو گئے نتیجہ المیہ کی صورت میں نکلا ۔یوں یہ بچے اپنے ہی رشتے داروں پر گولے برسا رہے تھے۔ کئی محاذوں پر تو برطانیہ کے بچوں نے براہ راست ایک دوسرے پر حملے کرائے۔‘‘
ان کی ایک تحقیق کا موضوع ہے '' ملکہ وکٹوریہ کی میچ میکنگ : شاہی شادیوں نے کس طرح یورپ کو نئی شکل دی اور جنگ کی آگ بھڑکائی۔ملکہ کی میچ میکنگ سہواََ پہلی جنگ عظیم میں شدت کا پیش خیمہ بن گئی۔ ملکہ کی میچ میکنگ سے نیا یورپ سامنے آیا، جبکہ انہوں نے خود ہی اس کی بربادی کا سامان بھی کر دیا۔ کئی سلطنتیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئیں۔بعض حکومتوں کا نام و نشان بھی مٹ گیا۔ ترکی، آسٹریا، ہنگری اور روس میں تبدیلیوں نے جنم لیا،ان کی زندگی میں ہی شادیوں کے منفی نتائج سامنے آنے لگے تھے، اگرچہ بعد کے حالات دیکھنے کے لئے وہ زندہ نہ رہیں، تاہم اگر زندہ ہوتیں تو انہیں اپنی غلطی کی سنگینی کا احساس ہو جاتا۔ اسی لئے وکٹوریہ کی پوتی (Victoria Melita of Saxe Coburg) اور اس کے شوہر نے اپنی کزن میری آف رومانیہ کو1917ء میں لکھا کہ ''ہمیں کچھ بھی نظر نہیں آ رہا، پہلے جیسا فخر، نہ امید، نہ دولت اور نہ ہی کوئی مستقبل‘‘۔
وہ لکھتی ہیں کہ
'' بچوں کی شادیوں میں ملوث ہونا شاہی خاندانوں کے لئے غیر معمولی بات نہیں۔'دی رائل ایکٹ مجریہ 1772ء ‘ کی رو سے ملکہ کو اپنے بچوں کی شادیاں کرانے کا اختیار حاصل ہے۔ لیکن ملکہ نے بچوں کی من پسند شادیوں کومنع ہی نہیں کیا بلکہ اپنی مرضی بھی تھوپ دی ۔ ہر شادی اقتدار کے حصول کی ایک سیڑھی تھی، شادی کو سافٹ پاور کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے، یوں انہوں نے اپنی آئینی بادشاہت کو پورے یورپ میں وسعت دے دی تھی۔کچھ شہزادوں اورشہزادیوں نے اپنی دادی کے احکامات بلاچوں و چرا مان لئے لیکن کچھ نے مزاحمت بھی کی۔ البرٹ وکٹربادشاہ بننے والے تھے ،وہ شاہی خاندان میں دوسرے نمبر پر تھے۔وکٹوریہ کی فرمائش پر انہوں نے پرنسس میری آف ٹیک کو شادی کی پیش کش کی ۔ شہزادی میری کے انکار کے باوجود ملکہ وکٹوریہ نے البرٹ کو ان سے شادی کرنے پر مجبور کیا۔لیکن بدقسمتی سے وہ 1892 ء میں فلو سے ہلاک ہو گیا‘‘۔
ڈیبورا نے لکھا کہ ''ملکہ وکٹوریہ کو جرمن شہزادے بھی اچھے لگتے تھے ان کی دلی خواہش تھی کہ کوئی نہ کوئی شہزادہ یا شہزادی جرمنی میں بیاہی جائے۔اس لئے ملکہ وکٹوریہ نے البرٹ کے بھائی جارج کو پرنسس میری سے شادی پر مجبور کیا، ان کی بار بار کی گئی پیشکش پرنسس میری نے قبول کر لی ، شادی کے بعد جارج پنجم بادشاہ بن گئے۔
شہزادی ایلیکس آف ہیسی () ملکہ کی فیورٹ تھیں ، ملکہ ان کے لئے ہر دم دیدہ و دل فرش راہ کئے رہتی تھیں، لیکن جب شادی کا مرحلہ آیا تو شہزادی نے ملکہ کی رائے کو ٹھکرا دیا۔وہ روسی شہزادے نکولس ومانوف کو دل دے بیٹھی تھیں ۔یہ سنتے ہی ملکہ کے تن بدن میں آگ لگ گئی، وہ سیخ پاء ہو گئیں۔وہ روسی شہزادوں اور بادشاہوں کو وحشی اور بدعنوان سمجھتی تھیں ، ان کے نزدیک یہ رشتہ اخلاقیات کے کم سے کم معیارسے بھی نیچے تھا۔ یہ رائے قائم کرنے میں دادی کسی حد تک سچی تھیں لیکن پیار کے آگے شہزادی ایلیکس بھی مجبور تھی،دو مرتبہ نہ سننے کے بعد بالآخر یہ رشتہ بھی طے پا گیا۔ نکولس دوم اور پرنسس ایلیکس کی شادی 1894ء میں ہوئی۔ ایک طرف شادی کے بینڈ بج رہے تھے اور دوسری جانب نکولس کی رسم تاجپوشی کی تیاریاں جاری تھیں۔وہ شہزادے سے بادشاہ بننے والے تھے۔ انقلاب روس اور جنگ عظیم اول کے دور میں جارج پنجم نے رومانوف کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا،وہ اس کی حمایت کو اپنی سیاسی ساکھ کے لئے نازک سمجھتے تھے، پھر وقت نے پلٹا کھایا اور یہ پورا خاندان انقلاب روس کے بعد قتل کر دیا گیا۔ نکولس دوم اور زارینہ سکندرہ اپنے پانچ بچوں کے ساتھ انقلابی دستوں کے ہاتھوں 1918ء میں قتل کر دیے گئے۔
شاہی جھگڑے
ملکہ نے ایک شہزادی کی شادی پرنس کیسر ولہم آف پرشیاء سے کرانے کی کوشش کی۔ جھگڑالو شہزادے کیسر ولہم دومII)بعد میں جرمنی کے طاقتور بادشاہ بنے، ان کا سکہ چلتا تھا لیکن طبیعت میں ٹھہرائو نام کی کوئی چیز نہ تھی۔ اس نے بھی ملکہ کو زخم دیئے۔ جارج پنجم نے اپنے قتل سے پہلے ہر موڑ پرکیسر ولہم کی مخالفت کی، روسی زار نکولس بھی قتل سے پہلے ان کے سخت مخالف تھے ۔ شادی کے بعد انہوں نے اپنی ساس کی ایک نہ سنی۔ وہ ملکہ کی ہربات کو ٹھکراتا رہا۔ شہزادی نے اپنی ملکہ کو لکھے گئے خطوط میں اسے غدار تک لکھ دیا۔ انہوں نے 1897ء میں لکھا کہ ''اب وہ کچھ ہونے والا ہے جس کا سوچتے ہی مجھ پر وحشت طاری ہو جاتی ہے‘‘۔