کڑوی گولی ۔۔۔۔۔ ایم ابراہیم خان

معاشرے تبدیلی کے عمل سے گزر رہے ہیں۔ اور تبدیلی کیا‘ یہ دور تو تبدیلیوں کا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے پورا منظر تبدیل ہو جاتا ہے ع
یوں ہی دنیا بدلتی ہے، اِسی کا نام دنیا ہے
خیر! تبدیلی کب سب سے بڑی Ø+قیقت نہیں تھی جو اس Ú©Û’ تسلسل پر Ø+یرت ہو؟ ایک بس تبدیلی ہی تو ہے جو مسلسل ہے، دم بہ دم ہے۔ علامہ اقبالؔ Ù†Û’ کہا تھا ع
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں
جس دور میں علامہ Ù†Û’ یہ بات کہی تھی‘ تب تبدیلی کا عمل تیز تھا نہ زیادہ Ø+یرت انگیز۔ سبھی بدلتا تھا مگر توازن اور ترتیب Ú©Û’ ساتھ۔ اب یہ بات Ú©Ú†Ú¾ زیادہ اور آسانی سے سمجھ میں آتی ہے۔ فی زمانہ ہر معاشرہ غیر معمولی تبدیلیوں سے نبرد آزما ہے۔ گزرے ہوئے ادوار میں تفکر، تصور، ثقافت اور اقدار Ú©Û’ نام پر جو Ú©Ú†Ú¾ بھی پایا تھا یا تیار کیا تھا‘ اس کا بڑا Ø+صہ داؤ پر Ù„Ú¯ چکا ہے۔ یہ عمل جاری ہے اور ہم سے غیر معمولی سطØ+ Ú©Û’ فکر Ùˆ عمل کا تقاضا کر رہا ہے۔ اب گنجائش تساہل Ú©ÛŒ ہے نہ تاخیر کی۔ گام گام نئی الجھنیں پیدا ہوتی جارہی ہیں اور ہمیں ہر الجھن کا سامنا کرنے Ú©Û’ لیے خود Ú©Ùˆ تیار رکھنا ہے۔ دنیا میں کیا ہو رہا ہے‘ یہ جاننا بھی ہمارے لیے بہت اہم ہے کہ ہم باقی دنیا سے کسی طور Ú©Ù¹Û’ ہوئے نہیں ہیں مگر ہمارے لیے سب سے زیادہ اہم اپنا معاشرہ ہے۔ جو Ú©Ú†Ú¾ پاکستانی معاشرے میں ہو رہا ہے اُس Ú©ÛŒ تفہیم اور موقع Ú©ÛŒ مناسبت سے ردِعمل Ú©ÛŒ صورت میں بہتری Ú©ÛŒ کوشش ہمارے لیے ناگزیر معاملہ ہے۔ اس وقت معاملات خاصا عجیب رنگ لیے ہوئے ہیں۔ قومی چلن کا ایک بڑا Ø+صہ خوش فہمی اور خوش گمانی پر مبنی ہے۔ ہم ضرورت سے کہیں زیادہ سادہ لوØ+ÛŒ کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ اکیسویں صدی Ú©Û’ دو عشرے مکمل ہوچکے ہیں۔ دنیا کہیں سے کہیں جاچکی ہے۔ عصری علوم Ùˆ فنون میں پیشرفت کا بازار اس طور گرم ہے کہ اب تو کسی بھی بات پر Ø+یرت نہیں ہوتی۔ Ú©Ù„ تک جن چیزوں Ú©Û’ لیے شہنشاہ ترسا کرتے تھے وہ آج عام آدمی Ú©Ùˆ میسر ہیں اور وہ ذرا سی بھی Ø+یرت کا شکار نہیں ہوتا۔ جو چیز معمولات کا Ø+صہ بن جائے وہ کسی بھی درجے میں Ø+یرت کا باعث نہیں بنتی۔ ایسے میں ضرورت سے زیادہ سادہ لوØ+ ہونا خطرناک ہے۔ یہ دنیا کبھی ایسی نہیں تھی کہ جوں Ú©ÛŒ توں قبول کرلی جائے۔ ہمیں بہت Ú©Ú†Ú¾ سمجھنا ہے۔ جو Ú©Ú†Ú¾ ہو رہا ہے وہ خود بخود سمجھ میں آنے والا نہیں۔ مادّی ترقی Ù†Û’ ہمیں بہت سے آسانیاں دی ہیں تو اُن Ú©Û’ پہلو بہ پہلو کئی دشواریوں سے بھی دوچار کیا ہے۔ ذہن Ú©Û’ لیے الجھنیں بڑھ گئی ہیں۔ بہت سے معاملات ایسے ہیں کہ ذہن پر اچھا خاصا زور دینے پر سمجھ میں آتے ہیں۔ بعض معاملات ایسے ہیں کہ اُن کا سمجھنا بہت Ø+د تک ناگزیر ہے۔ اگر خاطر خواہ توجہ نہ دی جائے تو وہ مسائل مزید پیچیدہ ہو جاتے ہیں جن کا ہمیں پہلے ہی سامنا ہو۔
''سادگی‘‘ اور ''بھولپن‘‘ Ú©Û’ ساتھ جینا اہلِ پاکستان Ú©Û’ لیے اب بھی بہت بڑا مسئلہ ہے۔ لاتعداد ذہنوں میں یہ تصور اب تک نہ صرف موجود ہے بلکہ خاصا توانا ہے کہ معاملات کبھی نہ کبھی خود بخود درست ہوجائیں Ú¯Û’Û” اپنے طور پر Ø·Û’ کرلیا گیا ہے کہ Ú©Ú†Ú¾ کرنے Ú©ÛŒ ضرورت نہیں، معاملات رفتہ رفتہ اپنی خرابیوں سے نجات پاکر ہمارے Ø+Ù‚ میں ہو جائیں Ú¯Û’Û” دنیا عمل Ú©ÛŒ طرف مائل ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں کا تو خیر ذکر ہی کیا، ترقی پذیر دنیا Ú©Û’ بھی بیشتر معاشرے خود Ú©Ùˆ عمل Ú©ÛŒ کسوٹی پر پرکھنے Ú©Û’ لیے بے تاب رہتے ہیں۔ بدلتے ہوئے Ø+الات Ú©Û’ مطابق خود Ú©Ùˆ بدلنے پر مائل رہنا ان معاشروں کا عمومی مزاج ہے۔ ان معاشروں Ú©Û’ لوگ جانتے ہیں کہ خود Ú©Ùˆ نہ بدلنے کا آپشن ہے ہی نہیں۔ ہماری Ø+الت یہ ہے کہ عمل سے دوری Ú©Ùˆ خرابی سمجھنے کا شعور اب تک پیدا نہیں کر پائے۔ تساہل پسندی Ú©Û’ باعث خیال Ùˆ خواب Ú©ÛŒ دنیا میں رہنا قومی مزاج میں تبدیل ہوچکا ہے۔ ہم سبھی اپنے آپ Ú©Ùˆ دھوکا دیتے ہوئے، چَھلتے ہوئے جی رہے ہیں۔ یہ صریØ+ زیاں ہے مگر افسوس کہ اس زیاں کا اØ+ساس بھی باقی نہیں رہا۔
کسی قوم کا بھٹکنا Ø+یرت انگیز بات نہیں۔ دنیا میں ایسی بیسیوں مثالیں ہیں کہ قومیں بھٹک گئیں، شدید خسارے سے دوچار ہوئیں۔ اصل مسئلہ بھٹکنا نہیں، بھٹکنے Ú©Û’ بعد راہِ راست پر آنے سے گریز ہے۔ Ú©Ù… Ùˆ بیش ہر دور میں دنیا بھر میں ایسا ہوتا رہا ہے کہ قوم بھٹکتی ہے تو Ú©Ú†Ú¾ لوگ آگے بڑھ کر اُسے درست راہ دکھلاتے ہیں اور اُس پر گامزن ہونے Ú©Û’ قابل بننے میں مدد بھی دیتے ہیں۔ قائدین کا کام ہی قوم Ú©Ùˆ درست راہ پر لانا اور اُس پر گامزن رکھنا ہوتا ہے۔ یورپ Ú©ÛŒ مثال بہت نمایاں ہے۔ ہزار سال سے بھی زائد مدت Ú©ÛŒ جہالت اور بے عملی Ú©Û’ بعد پانچ سو سال قبل وہاں ایسے اہلِ علم Ùˆ فن سامنے آئے جنہوں Ù†Û’ غیر معمولی Ù…Ø+نت Ú©Û’ ذریعے معاشروں Ú©Ùˆ درست کیا۔ پورے یورپ میں علم پسندی Ú©ÛŒ ایسی تØ+ریک اٹھی جس Ù†Û’ ایک نئی دنیا بنانے اور بسانے Ú©ÛŒ ٹھانی اور یہ تØ+ریک بہت Ø+د تک کامیاب بھی رہی۔ یورپ میں علم دوستی اصلاً کلیسا Ú©Û’ جبر Ú©Û’ خلاف ردِعمل Ú©ÛŒ ایک Ø´Ú©Ù„ تھی مگر اس Ù†Û’ عوام Ú©Ùˆ طاقت بخشی، انہیں اپنی مرضی Ú©Û’ مطابق جینے کا Ø+وصلہ بھی دیا اور شعور بھی۔ یورپ میں یہ سب Ú©Ú†Ú¾ اس لیے ممکن ہوسکا کہ جنہوں Ù†Û’ خود Ú©Ùˆ قیادت کا اہل سمجھا اور اس مقصد Ú©Û’ Ø+صول Ú©Û’ لیے دن رات ایک کر دیے۔
ہماری بدنصیبی یہ ہے کہ جنہیں ہم Ù†Û’ قائدین کا درجہ دے رکھا ہے وہ خود اب تک غلط روش پر گامزن ہیں۔ ہمیں راستہ دکھانے Ú©Û’ دعویدار قدم قدم پر دھوکا کھارہے ہیں اور قوم Ú©Ùˆ بھی دھوکے پہ دھوکا دیے جارہے ہیں۔ معاملہ جب اتنی گراوٹ کا شکار ہو تو اصلاØ+ِ اØ+وال Ú©ÛŒ صورت کیونکر Ù†Ú©Ù„Û’ØŸ سیاست ہو یا معیشت، مذہب ہو یا ثقافت ... Ú©Ù… Ùˆ بیش ہر معاملے میں Ø+قیقی اہلیت Ú©Û’ Ø+امل قائدین کا فقدان ہے۔ نام نہاد قائدین Ú©ÛŒ خرابیوں میں کردار Ú©ÛŒ خامی سب سے نمایاں ہے۔ Ø+قیقت پسندی Ú©Ùˆ زندگی کا بنیادی شعار بنانے کا وقت آچکا ہے۔ علاقائی اور عالمی سطØ+ پر جو Ú©Ú†Ú¾ ہو رہا ہے، معاملات جو رخ اختیار کر رہے ہیں اُس Ú©Û’ پیشِ نظر پورے وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ مستقبل قریب میں انقلابی نوعیت Ú©ÛŒ تبدیلیاں رونما ہوں گی۔ یہ وقت Ø+قیقت کا سامنا کرنے کا ہے مگر ہم Ù†Û’ شتر مرغ Ú©ÛŒ راہ پر گامزن رہنے Ú©Ùˆ ترجیØ+ دی ہے۔ شتر مرغ Ú©ÛŒ طرØ+ ہم بھی ریت میں سَر دباکر یہ سمجھتے ہیں کہ خطرہ ٹل گیا ہے۔ Ø+قیقت سے نظر چرانے Ú©ÛŒ روش ہے کہ جان نہیں Ú†Ú¾ÙˆÚ‘ رہی۔ وعدے ہیں، دعوے ہیں اور بڑھکیں ہیں۔ جذباتیت نمایاں ہے۔ وقت Ú©Ùˆ جیسے تیسے دھکا دیا جارہا ہے۔
وقت بہت تیزی سے گزر رہا ہے۔ بہت Ú©Ú†Ú¾ تیزی سے بدلتا جارہا ہے۔ ایسے میں لازم ہے کہ نئی سوچ اپنائی جائے۔ سیاست، معیشت اور معاشرت Ú©Ùˆ درست کرنے Ú©ÛŒ ضرورت ہے۔ معاشرہ سمت سے Ù…Ø+روم ہوچکا ہے۔ ایسے میں پورے معاشرے Ú©Ùˆ کسی بھی طرف ہانکا جاسکتا ہے۔ اصلاØ+ِ اØ+وال اُسی وقت ممکن ہے جب ہم خوش فہمی اور سادہ لوØ+ÛŒ Ú©ÛŒ دنیا میں رہنے Ú©Û’ بجائے Ø+قیقت Ú©ÛŒ دنیا میں رہنا سیکھیں۔ Ø+قیقت سے نظر چرانے Ú©ÛŒ روش Ù†Û’ ہمیں ہر اہم مرØ+Ù„Û’ پر ناکامی سے دوچار کیا ہے۔ اس وقت پاکستانی معاشرے Ú©Ùˆ کئی بØ+رانوں کا سامنا ہے۔ بØ+رانوں کا سامنا کرتے کرتے عام آدمی کا مزاج Ú©Ú†Ú¾ کا Ú©Ú†Ú¾ ہوچکا ہے۔ اب وہ الجھنوں سے نجات پانے Ú©Û’ بجائے اُن Ú©Û’ ساتھ ساتھ چلتے رہنے کا عادی ہوچکا ہے۔ یہ روش ترک کرنے Ú©ÛŒ ضرورت ہے۔ Ø+قیقت پسندی Ú©Ú‘ÙˆÛŒ گولی ہے مگر اب ہمیں یہ Ú©Ú‘ÙˆÛŒ گولی نگلنی ہے۔