Results 1 to 2 of 2

Thread: انقلابِ نبویﷺ ۔۔۔۔۔ ڈاکٹر اسرار احمد

Hybrid View

Previous Post Previous Post   Next Post Next Post
  1. #1
    Join Date
    Nov 2014
    Location
    Lahore,Pakistan
    Posts
    25,276
    Mentioned
    1562 Post(s)
    Tagged
    20 Thread(s)
    Rep Power
    214784

    Islam انقلابِ نبویﷺ ۔۔۔۔۔ ڈاکٹر اسرار احمد

    انقلابِ نبویﷺ ۔۔۔۔۔ ڈاکٹر اسرار احمد
    Inqalab e nabvi.jpg
    تاریخِ انسانی میں صرف اور صرف ایک ہی انسان ہیں جو ہر دو اعتبار سے بلند ترین اور کامیاب ترین قرار پاتے ہیں اور وہ ہیں محمد رسول اللہﷺ۔ حضور اکرمﷺ کی زندگی اس اعتبار سے واقعتاً بے مثال ہے کہ ایک انقلابی دعوت کا آغاز بھی آپؐ نے کیا اور اسے کامیابی کی آخری منزل تک بھی خود پہنچایا جب ہم دنیا کے چند مشہور انقلابات کا جائزہ لیتے ہیں تو اُن میں ’’انقلابِ فرانس‘‘ بہت مشہور ہے اور اس میں شک نہیں کہ یہ واقعی انقلاب تھا۔ لیکن اس سے صرف سیاسی نظام میں تبدیلی آئی تھی، مذہب پہلے بھی عیسائیت تھا، بعد میں بھی وہی رہا۔ سماجی ڈھانچے میں بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ تو انقلابِ فرانس میں صرف سیاسی نظام تبدیل ہوا۔ دوسرا بہت مشہور انقلاب روس کابالشویک انقلاب ہے جو 1917ء میں آیا۔ اس سے صرف معاشی نظام تبدیل ہوا۔ تمام ذرائع پیداوار قومیا لئے گئے اور انفرادی ملکیت کا خاتمہ کردیا گیا۔ نوٹ کیجئے کہ یہ دونوں انقلابات ہیں جبکہ رومن امپائر کا بیک وقت کرسچین ہو جانا انقلاب نہیں ہے۔ اب ذرا حضرت محمدﷺ کے برپا کردہ انقلاب کا جائزہ لیجئے۔ سب سے پہلے تو یہ دیکھئے کہ کیا واقعی حضور اکرمﷺ نے انقلاب برپا کیا۔ یاہم صرف جوشِ عقیدت میں یہ دعویٰ کر بیٹھتے ہیں؟ واقعتاًیہ ہے کہ حضرت محمدﷺ نے تاریخِ انسانی کا عظیم ترین انقلاب برپا کیا۔ یہ بات میں جذباتی انداز سے نہیں بلکہ ٹھنڈے تجزیئے سے ثابت کرنا چاہتا ہوں۔ سب سے پہلے تو میں اس پر اغیار کی گواہیاں پیش کروں گا، اس لئے کہ ’’الفضل ما شھدت بہ الاعدائا‘‘(اصل فضیلت وہ ہوتی ہے جس کا دشمن بھی اقرارکریں) دوست اور اعتقاد رکھنے والے تو ہر چیز کی تعریف ہی کریں گے، اصل تعریف وہ ہے جو دشمن کی زبان سے ہو۔ اگرشیر دل کنگ رچرڈ نے صلاح الدین ایوبی کی تعریف کی تو معلوم ہوا کہ واقعتاً صلاح الدین ایوبی بڑی عظیم شخصیت تھی۔ ایم این رائے ایک بنگالی ہندو تھا اور وہ انٹرنیشنل کمیونسٹ آرگنائزیشن کا رکن تھا۔ اس نے 1920ء میں بریڈ لا ہال لاہور میں ’’اسلام کا تاریخی کردار‘‘ ) کے عنوان سے لیکچر دیا اور کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ تاریخ انسانی کا عظیم ترین انقلاب محمد(ﷺ) نے برپا کیا۔ واضح رہے کہ وہ عقیدت مند نہیں ہے، ایک بنگالی ہندو ہے اور کمیونسٹ ہے لیکن وہ یہ بات تسلیم کر رہا ہے یہ تو 1920ء کی بات ہے، یعنی صدی کے آغاز سے 20برس بعد… اب 1980ء پر آ جائیے، صدی کے اختتام سے 20 برس قبل امریکہ میں ڈاکٹر مائیکل ہارٹ نے کتاب ’’The 100‘‘لکھی۔ اس کتاب میں اس نے پانچ ہزار سالہ معلوم انسانی تاریخ میں سے ایسے100 انسانوں کا انتخاب کر کے ان کی درجہ بندی کی، جنہوں نے انسانی تمدن کے دھارے کے رخ کو موڑنے میں مؤثر کردار ادا کیا۔ اور اس درجہ بندی میں وہ نمبر ایک پر لایا حضرت محمد رسول اللہﷺ کو۔ ڈاکٹر مائیکل ہارٹ مذہب کے اعتبار سے عیسائی ہے اس کی یہ کتاب دنیا میں بہت عام ہوئی لیکن اشاعت کے بعد وہ بہت جلد نایاب ہو گئی اور عام خیال یہ تھا کہ شاید کسی سازش کے تحت اسے غائب کیا گیا ۔ اس لئے کہ اس نے اس کتاب میں (عیسائیوں کے نزدیک خدا، کے اکلوتے بیٹے) حضرت مسیحؑ کو نمبر3 پر رکھا اور حضور اکرم ﷺ کو نمبر ایک پر لایا، اور یہ بات عیسائی دنیا کے لئے قابل قبول اور قابل برداشت نہیں تھی۔ ڈاکٹر مائیکل ہارٹ کے نزدیک انسانی زندگی کے دو علیٰحدہ علیٰحدہ میدان ہیں۔ ایک ہے مذہب، اخلاق اور روحانیت کا میدان، جبکہ ایک ہے تمدن، تہذیب، سیاست اور معاشرت کامیدان، اور ان دونوں میدانوں میں انتہائی کامیاب انسان تاریخِ انسانی میں صرف اور صرف ایک ہی ہیں اور وہ ہیں حضرت محمدﷺ۔ جن لوگوں کو بالعموم بڑاسمجھا جاتا ہے ان کی عظمت کسی ایک پہلوسے نمایاں ہوتی ہے۔ عبادت گزاری اور نفس کشی میں گوتم بدھ بہت اونچا ہے۔ اخلاقی تعلیمات کے اعتبار سے حضرت مسیحؑ بہت اونچے ہیں، لیکن ریاست، حکومت اور سیاست میں ان کا کوئی دخل نہیں۔ فتوحات اور ملک گیری کے حوالے سے سکندر اعظم بہت ا ونچا ہے، اٹیلا بہت اونچا ہے، چنگیز خان بہت اونچا ہے، اکبر اعظم بہت اونچا ہے اور بھی بڑے بڑے حکمران ہو گزرے ہیں… لیکن دین، اخلاق اور روحانیت میں ان کا کوئی مقام تھا؟ یہاں زیرو سے بھی کام نہیں چلے گا، مائنس لانا پڑے گا۔ تاریخِ انسانی میں صرف اور صرف ایک ہی انسان ہے جو ہر دو اعتبار سے بلند ترین اور کامیاب ترین قرار پاتے ہیں اور وہ ہیں حضرت محمد رسول اللہﷺ۔ اغیار کی گواہیوں میں سے تیسری گواہی میں ایچ جی ویلز کی دیا کرتا ہوں، لیکن اس کی جس عبارت کا میں حوالہ دیتا ہوں، اس کی کتاب ’’History of the World A Concise ‘‘کے نئے ایڈیشن سے اس عبارت کو نکال دیا گیاہے۔ واقعتاً کسی دشمن کی زبان سے اس سے بڑا خراج تحسین ممکن نہیں۔ اس لئے کہ ایچ جی ویلز بدترین دشمن ہے لیکن جب اس نے آنحضورﷺکے خطبہ حجۃ الوداع کے مندرجہ ذیل الفاظ کا حوالہ دیا ہے تو وہ گھٹنے ٹیک کر خراجِ تحسین پیش کرنے پر مجبور ہوگیا ہے۔ خطبہ حجۃالوداع میں رسول اللہﷺ نے فرمایا تھا: یا ایھا لناس الا ان ربکم واحد‘ وان اباکم واحدٌ الا لافضل لعربی علی اعجمی ولالعجمی علی عربی ولا لاحمر علی اسود ولالسود علی احمر الا بلاتقویٰ (مسند احمد، ح …) ’’لوگو! آگاہ ہوجاؤ، یقینا تمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ بھی ایک ہے۔ خبردار! نہ کسی عربی کوکسی عجمی پر کوئی فضیلت حاصل ہے اور نہ کسی عجمی کو کسی عربی پر۔ اور نہ کسی گورے کو کسی کالے پر کوئی فضیلت حاصل ہے اور نہ کسی کالے کو کسی گورے پر۔ فضیلت کی بنیاد صرف تقویٰ ہے۔‘‘ ایچ جی ویلز اگرچہ عیسائی ہے، لیکن خطبہ حجۃالوداع کا حوالہ دینے کے بعد وہ یہ اعتراف کرنے پر اپنے آپ کو مجبور پاتا ہے:’’اگرچہ انسانی اخوت، مساوات اور حریت کے وعظ تو دنیا میں پہلے بھی بہت کہے گئے تھے اور ایسے وعظ ہمیں مسیح ناصری کے ہاں بھی بہت ملتے ہیں، لیکن یہ تسلیم کئے بغیر چارہ نہیں کہ یہ محمد(ﷺ) ہی تھے جنہوں نے تاریخِ انسانی میں پہلی بار ان اصولوں پر ایک معاشرہ قائم کیا۔‘‘ چنانچہ دشمنوں کی گواہی سے بھی یہ بات ثابت ہو گئی کہ یہ تاریخِ انسانی کا عظیم ترین انقلاب تھا جو حضرت محمد رسول اللہﷺ نے برپا فرمایا۔ انقلابِ محمدی ؐ کا انقلابِ فرانس اور انقلابِ روس سے تقابل کریں تو نظر آتا ہے کہ انقلابِ فرانس میں صرف سیاسی نظام بدلا اور انقلابِ روس میں صرف معاشی نظام تبدیل ہوا۔ لیکن انقلابِ محمدیؐ میں ہر چیز بدل گئی۔ مذہب بھی بدل گیا، عقائد بھی بدل گئے، رسومات بھی بدل گئیں، سیاسی نظام بھی بدل گیا، معاشی نظام بھی بدل گیا، معاشرت بھی بدل گئی۔ کوئی بھی شے اپنی سابقہ حالت پر قائم نہیں رہی۔ ڈھونڈ کر بتائیے کہ فلاں چیز جوں کی توں رہ گئی۔ جہاں پڑھے لکھے لوگ انگلیوں پر گنے جا سکتے تھے، اس قوم کو آپﷺ نے علم کے میدان میں دنیا کا امام بنا دیا۔ انہوں نے نئے نئے علوم ایجاد کئے، پوری دنیا کا علم سمیٹ کر، ہندوستان اور یونان تک سے علم لے کر، اور اسے مزید واضع کر کے دنیا کے سامنے رکھا۔ توپہلی بات یہ ثابت ہوئی کہ دنیا کا جامع ترین، گھمبیر ترین اور انقلاب محمد عربیﷺ کا انقلاب تھا، کوئی دوسرا انقلاب اس کے مقابلے میں نہیں آ سکتا۔ باقی سب جزوی انقلابات تھے۔ باقی تمام انقلابات میں آپ دیکھیں گے کہ فکر اور دعوت دینے والے کچھ اور لوگ تھے جبکہ انقلاب برپا کرنے والے کچھ اور۔ مارکس اور اینجلز نے کتاب Capital Das جرمنی یا انگلستان میں بیٹھ کر لکھی، لیکن جرمنی اور انگلستان کے کسی ایک گاؤں میں بھی مارکسسٹ انقلاب نہیں آیا، بلکہ تیسرے تیواڑے کہاں جا کر روس میں بالشویک اور مانشویک کے ہاتھوں انقلاب آیا، اور عین وقت پرفرنٹ پر لینن آ گیا۔ اس انقلاب کے برپا کرنے میں نہ مارکس کاکوئی حصہ ہے نہ اینجلز کا۔ تو فکر دینے والے اور تھے، اور انقلاب برپا کرنے والے اور۔ اسی طرح والٹیئر اور روسو جیسے بے شمار اصحاب قلم تھے جنہوں نے حریت، آزادی اور جمہوریت کی فکر دی لیکن وہ محض ڈیسک ورکر تھے، کتابیں لکھ سکتے تھے، میدان میں آ کر قیادت نہیں کر سکتے تھے۔ لہٰذا فرانس میں انقلاب برپا کیا اوباش اور بدمعاش لوگوں نے۔ یہی وجہ ہے کہ انقلاب فرانس انتہائی خونیں انقلاب تھا۔ اسے کنٹرول کرنے والا کوئی تھا ہی نہیں اور ہجوم (mob) جو چاہے کر گزرے۔ اب ذرا contrastدیکھئے کہ حضرت محمد رسول اللہﷺ کا انقلاب دنیا کا واحد انقلاب ہے کہ ابتدا ء سے انتہا تک اس کی قیادت ایک ہی ہستی کر رہی ہے۔ ایک وقت میں وہی ہیں جو مکے میں کر رہے ہیں، گلی گلی گھوم کر دعوت دے رہے ہیں، تبلیغ کر رہے ہیں۔کوئی مجنوں کہتا ہے، کوئی کہتا ہے شاعر ہیں۔ آپﷺ سب برداشت کر رہے ہیں۔ آپؐ نے کبھی پلٹ کر نہیں کہا پاگل تم ہو۔ لیکن وہی شخص ہے جو میدانِ بدر میں فوج کی کمان کر رہا ہے۔ کوئی ہے تاریخ میں اس کی مثال؟ میں پھر ڈاکٹر مائیکل ہارٹ کے وہی الفاظ دہراؤں گا کہ He is the only, the only, the only personکہاں گلی گلی دعوت دینے والا ایک شخص، کہاں ایک فوج کی کمان کرنے والا قائد، کوئی ہے مناسبت؟ حضور اکرمﷺ کی زندگی اس اعتبار سے واقعتاً contrastکی حامل ہے کہ ایک انقلابی دعوت کا آغاز بھی آپؐ نے کیا اور اسے کامیابی کی آخری منزل تک بھی خود پہنچایا۔ دنیا کے انقلابات میں سے کوئی بھی دوسرا انقلاب ایک حیات انسانی کے عرصے (span)میں پورا نہیں ہوا، بلکہ فکر دینے والے مرکھپ گئے، بعد میں کہیں وہ فکر پروان چڑھی اور اس کی بنیاد پر کہیں انقلاب آ گیا جبکہ حضرت محمد رسول اللہﷺ کاا نقلاب اس اعتبار سے منفرد اور لاثانی ہے کہ ایک انسانی زندگی کے اندر، کل 23 سال کے عرصے میں، الف سے ی تک انقلاب کے تمام مراحل طے ہو گئے۔ اس سے میں یہ نتیجہ اخذ کرتا ہوں کہ آج عہدِ حاضر میں اجتماعیات، سوشیالوجی یا پولٹیکل سائنس کا کوئی طالب علم پوری دیانت داری سے انقلاب کا صحیح طریق کار اخذ کرنا چاہے تو اسے صرف حضرت محمد رسول اللہﷺ کی سیرتِ طیبہ سے مکمل راہنمائی مل سکتی ہے مارکس، اینجلز، لینن یا والٹیئر کی زندگیوں سے اس ضمن میں قطعاً کوئی راہنمائی حاصل نہیں ہو سکتی۔ گویا طریقِ انقلاب کے لئے اب دنیا کے سامنے صرف ایک ہی منبع و سرچشمہ (source)ہے اور وہ رسول اللہﷺ کی سیرتِ طیبہ ہے۔ چنانچہ میں انقلاب کے طریق کار پرجو کچھ عرض کررہا ہوں اس کیلئے میرا زریعہ صرف سیرتِ محمدیؐ ہے۔ میں اسلامی اصطلاحات دین، اسلام، ایمان، جہاد اور قتال استعمال کئے بغیر جدید اصطلاحات میں انقلاب کے مراحل ا ٓپ کے گوش گزار کرناچاہتا ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے دورِ زوال کے دوران ان اصطلاحات کامفہوم محدود اور مسخ ) ہوگیا ہے اور ہم جب بھی کوئی اصطلاح استعمال کرتے ہیں تو اس کا وہی مسخ شدہ تصور ذہن میں آتا ہے۔ لہٰذا اگران اصطلاحات سے صرفِ نظر کرتے ہوئے جدید میں بات کی جائے توانقلاب کاخاکہ نسبتاً آسانی سے سمجھ میں آ سکتا ہے۔اس کے بعد مناسب ہوگا کہ اس خاکہ میں قرآن و حدیث کی اصطلاحات، سیرت النبیﷺ اور واقعات کا رنگ بھردیا جائے۔
    Last edited by intelligent086; 07-11-2020 at 03:35 AM.

  2. #2
    Join Date
    Nov 2014
    Location
    Lahore,Pakistan
    Posts
    25,276
    Mentioned
    1562 Post(s)
    Tagged
    20 Thread(s)
    Rep Power
    214784

    Default Re: انقلابِ نبویﷺ ۔۔۔۔۔ ڈاکٹر اسرار احمد


Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •