غلط فہمی میں مبتلا مت ہوں
Ghalat Fehmi.jpg
کیا آپ نے کبھی گائوں کا سفر کیا ہے؟ اگر کیا ہے تو ایک سواری کا لطف ضرور لیا ہو گا جس کا نام ہے بیل گاڑی۔ گائوں میں بیل گاڑی کی اہمیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔آپ نے ایک اور منظر دیکھا ہو گا وہ یہ کہ ہر بیل گاڑی کے ساتھ ایک کتا ضرورہوتا ہے اس کی ڈیوٹی ہوتی ہے کہ جہاں کہیں بھی مالک رُکے اس نے سامان کی حفاظت کرنی ہوتی ہے اور جب بیل گاڑی چلتی ہے تو یہ گاڑی کے بالکل نیچے درمیان میں چلتا ہے۔ رہی بات یہ کہ وہ نیچے ہی کیوں چلتا ہے تو اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ کسان عمومی طور پر کتے کو ساتھ ساتھ رہنے اور چلنے کی عادت ڈالنے کے لیے اسے ریڑھی کے نیچے باندھ دیتے ہیں اس طرح ان کی عادت پکی ہوجاتی ہے اور اس طرح اس کی یہ عادت پختہ ہو جاتی ہے اور کتا بڑا ہو کر بھی اپنی اُسی جگہ پر چلتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک دن ایسے ہی ایک کتے نے سوچا کہ جب مالک گاڑی روکتا ہے تو سب سے پہلے بیل کو پانی پلاتا ہے اور چارہ ڈالتا ہے پھر خود کھاتا ہے اور سب سے آخر میں مجھے کھلاتا ہے حالانکہ بیل گاڑی کا سارا بوجھ تو میں نے اپنے اوپر اٹھا رکھا ہے مالک کو میری قدر نہیں دراصل اس کتے کو بیل گاڑی کے نیچے چلتے یہ گمان ہونے لگا تھا اور اس کا یہ گمان اس قدر پختہ ہو گیا کہ وہ اس بات کو سوچ سوچ کر اندر ہی اندر غم میں مبتلا رہنے لگا اور بدلے کی آگ اس کے اندر بھڑکنے لگی بالآخر اس سے رہا نہ گیا اور اس نے بدلہ لینے کاپختہ فیصلہ کر لیا۔ترکیب اس طرح بنائی کہ آج جب نصف سفر ہو جائے گا تو میں آدھے راستے میں بیٹھ جائوں گا جب ریڑھی نہیں چلے گی تو مالک کو میرا احساس ہو گا اور وہ میری منت سماجت کرے گا اس طرح میرا اصل مقام مجھے مل جائے گا۔ اب جیسے ہی گھر کے نصف راستے پر پہنچے تو کتا آنکھیں بند کر کے بیٹھ گیا مگر جب اسے دھوپ کی تپش محسوس ہوئی تو اچانک آنکھیں کھول کر دیکھا تو بیل گاڑی آگے نکل چکی تھی اور کتا راستے کے درمیان بیٹھا حیرت سے گاڑی کو جاتے اور اپنا سفر جاری رکھے دیکھ رہا تھا۔ اس سارے کے سارے منظر میں سب سے پہلی سیکھنے کی بات تو یہ ہے کہ جب ہم دوسروں کے بارے میں خود سے اپنے ذہن میں ایک سوال بناتے ہیں اور خود ہی اس کا جواب بھی بنا لیتے ہیں تو یہ عمل غلط فہمی کہلاتا ہے جو ہمیں ناصرف اپنے اچھے تعلقات سے محروم اور بد گمان کر دیتا ہے بلکہ زندگی کی اصل حقیقت پہچاننے سے بھی قاصر کر دیتا ہے جیسا کہ کتے نے اپنے مالک کسان کے بارے میں بنایا اور درمیان سڑک بیٹھا رہ گیا۔ اس منظر سے دوسرا سبق یہ ملتا ہے کہ جب ہم اپنے بارے میں اچھا سوچتے ہیں اور جو کام نہیں کرتے اس کی داد اور تعریف بھی اپنے حق میں سوچنے لگتے ہیں تو ایسی بے جا تعبیریں ہمیں اپنے بارے میں اندر ہی اندر خوش کرتی ہیں اس عمل کا نام خوش فہمی ہے۔
یاد رکھیں دیوار میں لگی ہر اینٹ سمجھتی ہے کہ میں دیوار ہوں مگر اسے نکال دیا جائے تو اس کی جگہ کوئی اور اینٹ لے سکتی ہے ۔ہماری زندگی میں ایسے کردار بھی آتے ہیں جو سمجھتے ہیں انہوں نے ہمارا سارا بوجھ اٹھا رکھا ہے اور ایسے کردار بھی جن کے بارے شاید ہم سمجھتے ہیں کہ وہ ہماری وجہ سے ہیں تصویر کے دونوں رخ ہر لمحہ دماغ میں رکھیں۔ زندگی میں آنے والے ایسے کرداروں سے اپنا دامن بچائیے اور خود کو غلط فہیموں اور خوش فہمیوں سے بھی بچائیے۔ زندگی کے حسن کو لگنے والی یہ وہ دیمک ہے جو تعلقات کی صلاحیتوں کو کھا جاتی ہے جو قابل سے قابل انسان کو اندر ہی اندر کھوکھلا کر دیتی ہے جو تکبر کی بنیاد بنتی ہے اور عاجزی کو ختم کر دیتی ہے۔اپنے کریم مالک کا شکر ادا کیجیے۔ اللہ کسی شخص پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ اور ذمہ داریاں نہیں ڈالتا۔ جب بندہ اپنی موجودہ حالت پر کسی غلط فہمی اور خوش فہمی میں مبتلا نہ ہو تو اپنی ذمہ داریاں مکمل ایمانداری اور دیانتداری سے انجام دیتا ہے تو اللہ اس سے خوش ہوتا ہے اور اسے مزید عزت اور مقام و مرتبہ عطا کر دیتا ہے۔
(ڈاکٹر محمد اعظم رضا تبسم کی کتاب'' کامیاب زندگی کے راز ‘‘سے انتخاب)