روس اور جاپان کی جنگ، .... عبدالحفیظ ظفر
Rassia and Japan War.jpg
اس نے جنگ عظیم اول کیلئے راستہ ہموار کیا
جب بھی دو ممالک میں جنگ ہوتی ہے اس کے پیچھے معاشی اور سیاسی عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ جنگیں اس لیے لڑی گئیں کہ دفاعی لحاظ سے اپنے اپنے ملک کو مضبوط بنایا جائے۔ فوجی تنازعات کی وجہ سے بہت سی جنگوں کا آغاز ہوا، ایسی ہی جنگ روس اور جاپان میں 1904 ء میں لڑی گئی جو 1905ء تک جاری رہی۔
روس اور جاپان میں جنگ کی بنیادی وجہ دونوں ممالک کی کوریا اور منچوریا میں غلبے کی کوشش تھی۔چین اور جاپان کی پہلی جنگ کے بعد جاپان نے چین سے لیائو ونگ جزیرہ حاصل کر لیا لیکن یورپی طاقتوں نے جاپان کومجبور کیا کہ وہ اس جزیرے کو واپس کردے۔چین نے بعد میں روس کو یہ جزیرہ دے دیا۔
دونوں ممالک میں بادشاہتیں قائم تھیں۔ روس کو اپنی بحری تجارت کیلئے بحرالکاہل پر گرم پانیوں کی بندرگاہ چاہئے تھی۔ چین اور جاپان کے مابین پہلی جنگ 1895ء میں ختم ہوئی۔ جاپان کو خدشہ تھا کہ وہ کوریا میں اپنا اثرو نفوذ بڑھا لے گا اس کے ساتھ اسے یہ بھی خطرہ تھا کہ روس مانچریا میں بھی اپنا اثر ونفوذ بڑھا سکتا ہے ۔ سولہویں صدی میں روس سائبیریا کے مشرق بعید میں اپنی توسیع پسندی کا مظاہرہ کر چکا تھا،دونوں ممالک میں عدم برداشت بھی دیکھنے میں آئی۔ روس کوا پنا حریف سمجھتے ہوئے جاپان نے روس کو یہ پیشکش کی کہ وہ منچوریا میں روس کے غلبے کو تسلیم کر لے گا لیکن اس کے بدلے روس کو کوریا میں جاپان کے اثرو نفوذ پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے۔ روس نے یہ پیشکش مسترد کردی اور مطالبہ کیا کہ شمالی کوریا کو روس اور جاپان کے مابین بفرزون قرار دیا جائے۔ جاپانی حکومت نے یہ سمجھا کہ روس کی دھمکی کا مقصد جاپان کو ایشیا ء تک جانے سے روکنا ہے اور پھر اس نے جنگ کا فیصلہ کیا۔
۔1904ء میں جب مذاکرات ناکام ہوئے تو جاپانی بحریہ نے آرتھر بندرگاہ چین پر روس کے مشرقی بیڑے پر اچانک حملہ کر دیا۔ آرتھر بندرگاہ علاقے میں روسی بحریہ کے آپریشنز کا اڈہ تھا۔ روس کے زارنکولس ii کو اس کے مشیروں نے بتایا تھا کہ جاپان روس کو فوجی لحاظ سے چیلنج نہیں کرے گاحالانکہ دونوں طاقتوں کے درمیان مذاکرات ناکام ہو چکے تھے۔ جاپان کے آرتھر بندرگاہ پر حملے سے پہلے روسی رہنمائوں کو جاپان کے عزائم کا پتہ نہ چل سکا۔
اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ بین الاقوامی قانون کے مطابق حملے سے پہلے جنگ کے رسمی اعلان کی ضرورت نہیں تھی۔ 2 سال بعد 1907ء میں دوسری ہیگ امن کانفرنس میں یہ طے پایا کہ حملے سے پہلے جنگ کا اعلان ضروری ہے۔ اصل میں جاپانی بحریہ کے روسی بیڑے پر اچانک حملے کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ روس کے اثرو نفوذ کو زائل کیا جائے۔
ایڈمرل ٹوگو سیہاچیرو کی قیادت میں جاپانی بحریہ نے روس کے بحری جہازوں پر حملے کیلئے تارپیڈو کشتیاں بھیجیں اِن میں سے 3 اہم بحری جہازوں کو سخت نقصان پہنچایا گیا۔ آرتھر بندرگاہ کی لڑائی اگلے دن شروع ہو گئی اگرچہ روس کا باقی بحری بیڑے کی آرتھر بندرگاہ کے اندر زبردست حفاظت کی جا رہی تھی۔ حملوں نے روسیوں کو کھلے سمندروں کی طرف جانے سے روک دیا۔جاپانیوں کی بندرگاہ کی ناکہ بندی کی کوششیں ناکام ہو گئیں تاہم وہ روسی بحری جہاز جو جاپانیوں کے قابو نہ آ سکے وہ بھی نقصان سے نہ بچ سکے۔
روس نے اپنی سرنگوں کے ذریعے انتقام لے لیا اُس نے جاپان کے2 جنگی جہازوں کو سخت نقصان پہنچایا لیکن ایشیائی طاقت کا آرتھر بندرگاہ پر پلہ بھاری رہا اور وہ ساحل پر زبردست بمباری کرتے رہے۔ روس پر زمینی حملے کرنے کی کوششوں میں ناکامی کے بعد جاپان کو سخت جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑا لیکن جاپان کی مستقل مزاجی نے بہرحال کام کر دکھایا۔ اگست کے آخر میں شمالی روس سے جو فوجیں آرتھر بندرگاہ کے بحری بیڑے کی مدد کرنے کیلئے بھیجی گئیں انہیں لیائوسینگ کی لڑائی میں جاپانیوں نے پیچھے دھکیل دیا۔ جاپانیوں نے روسی بحری جہازوں پر زبردست فائرنگ کی، یہ جہاز ساحل پر لنگر کے سہارے آسانی سے لگ گئے تھے۔
۔1904ء کے آخر تک جاپانی بحریہ روسی بیڑے کا ہر بحری جہاز ڈبو چکی تھی۔جنوری 1905ء کے شروع میں روس کے میجر جنرل اناطولی سٹیسل نے جو آرتھر بندرگاہ کا فوجی کمانڈر بھی تھا‘ہتھیار پھینکنے کا فیصلہ کیا‘اس کا یہ فیصلہ نہ صرف جاپانیوں کے لیے حیران کن تھا بلکہ روس کے حکمران بھی سرپکڑ کر بیٹھ گئے ۔ انہیں یہ یقین تھا کہ بندرگاہ کا دفاع اب اتنا اہم نہیں تھا جبکہ بہت قربانیاں دی جا چکی تھیں اب تک یہ ظاہر ہو چکا تھا کہ جاپان نے جنگ میں واضح طور پر فتح حاصل کر لی ہے۔سٹیسل کو بعد میں غداری کے مقدمے کا سامنا کرنا پڑا اور اسے اس کے فیصلے کی وجہ سے سزائے موت دے دی گئی لیکن بعد میں اسے معاف کر دیا گیا۔
روسی بحریہ کو بعد میں سمندر کی لڑائی میں شدید نقصان اٹھانا پڑا۔ یہ وہ حالات تھے جب روسی فوجیں حوصلہ ہار چکی تھیں۔اب جاپان کی زمینی فوجیں جزیرہ نما کوریا میں کنٹرول حاصل کرنے کے لیے روانہ ہو گئیں۔2 ماہ کے اندر انہوں نے سیول(آج کے جنوبی کوریا کا دارالحکومت) پر قبضہ کر لیا۔اپریل 2006ء کے آخر میں جاپان کی زمینی فوجوں نے مانچریا پر حملے کی منصوبہ بندی کر لی جو اس وقت روس کے کنٹرول میں تھا۔پہلی زمینی لڑائی میں جاپان نے مئی 1906ء میں روسی فوجیوں پر حملہ کیا اور انہیں آرتھر بندرگاہ کی طرف دھکیل دیا۔مانچریا میں سردی کے موسم میں وقفے وقفے سے لڑائی جاری رہی۔
اگلی قابلِ ذکر زمینی لڑائی 20فروری 1905ء کو شروع ہوئی جب جاپانی فوجوں نے مکران کے مقام پر روسیوں پر حملہ کیا۔سخت لڑائی کے دن شروع ہو گئے جاپانیوں نے بڑی مہارت سے روسیوں کو پیچھے دھکیل دیا۔10مارچ کو جبکہ لڑائی شروع ہوئے 3 ہفتے گزر چکے تھے‘ روسیوں کو سخت جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑا اور انہیں شمالی میکران کی طرف دھکیل دیاگیا۔
اگرچہ جاپانیوں نے میکران کی لڑائی میں اہم فتح حاصل کی تھی۔لیکن انہیں بھی بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا۔آخر میں ان کی بحریہ نے کام دکھایا اور یہ لڑائی جیت کردکھائی۔مئی 1905ء میں روس کا بالٹک بیڑہ آ پہنچا لیکن اس کے باوجود روسیوں کو چیلنج کا سامنا تھا۔ وہ جاپان کے سمندر تک نہیں پہنچ سکتے تھے تا کہ جس کا مقصد ولیڈی وسٹوک پر کنٹرول حاصل کرنا تھا کیونکہ آرتھر بندرگاہ اب ان کے لیے نہیں کھلی تھی۔روس کی جو کمک پہنچی تھی اس کا جاپانیوں نے جلد کھوج لگا لیا۔ جاپانی بحری جہازوں نے تاریکی میں روشنیاں جلا دیں۔
ایک دفعہ پھر ایڈمرل ہیپاچرو کی قیادت میں جاپانی بحریہ نے ولیڈی ووسٹک کی طرف جانے والے والا روس کا راستہ روک دیا اور انہیں 27مئی 1905ء کو سویشما آنبائےکی لڑائی میں پھنسا دیا۔اگلے دن کے آخر میں روس کے مزید 5,000سے زیادہ فوجی لقمہ ٔ اجل بن گئے۔ان کے صرف 3 بحری جہاز اپنی منزل تک پہنچ سکے۔بالٹک بحریہ کو تباہ کر دیا گیا۔جاپان کی اس فیصلہ کن فتح نے روس کو امن معاہدہ کرنے پر مجبور کر دیا۔کہا جاتا ہے کہ اس جنگ میں جاپان اور روس کے ڈیڑھ لاکھ فوجی مارے گئے۔اس کے علاوہ 20ہزار چینی شہری بھی موت کی آغوش میں چلے گئے۔
اتنی بڑی تعداد میں شہریوں کی ہلاکت کو روس کے مانچریامیں کیے گئے سخت اقدامات سے منسوب کیا جاتا ہے۔جو صحافی اس جنگ میں اپنے صحافتی فرائض سرانجام دے رہے تھے انہوں نے الزام عائد کیا کہ روسیوں نے مانچریا میں لوٹ مار کی اور کئی دیہاتی علاقوں کو آگ لگا دی۔ان کے مطابق روسیوں نے بہت سی عورتوں کی آبروریزی کی اور کئی ایک کو ہلاک کر دیا۔پھر پورٹس مائوتھ کا معاہدہ) ہوا جس کی ثالثی اس وقت کے امریکی صدر تھیوڈور روز ویلٹ نے کی۔پورٹس مائوتھ (نیو ہیمپشائر) میں کی۔یہ معاہدہ 1905ء کے موسم بہار اور موسم گرما کے دوران عمل میں آیا۔
روس کی طرف سے مذاکرات میں روس کے زارنکولس کے وزیر سرجی وٹے اور جاپان کی طرف روزویلٹ کو مذاکرات میں ثالثی کرانے پر نوبل امن انعام دیا گیا۔