تخلیقی کاموں کیلئے دماغ کی تربیت کیجئے
takhleeki kaam aur dimmagh.jpg
انسانی دماغ کو کوئی سائنس دان پورے طور پر سمجھ سکا ہے نہ سمجھ سکے گا، انہوں نے اب کہنا شروع کر دیا ہے کہ خود کو ذہنی طور پر کمزور سمجھنے والاشخص اگر چاہے تو وہ اپنے دماغ کی تربیت بھی کر سکتا ہے۔ مشق کے ذریعے وہ کند ذہن شخص کی بجائے ذہین آدمی بن سکتا ہے۔ حالیہ شائع شدہ مضمون میں لکھا گیاہے کہ ''دماغ کی تربیت کے ذریعے تخلیق و اختراع کی چھپی ہوئی صلاحیتوں کو استعمال کیجئے ‘‘ (Train your brain to unlock creativity and innovation) ۔
مضمون نگار نے ڈاکٹر سرنی کے حوالے سے لکھا ہے کہ ''تخلیقی صلاحیت کسی بزنس مین ، سائنسدان یا آرٹسٹ کی میراث نہیں ہے ۔ یہ صلاحیت کوئی بھی شخص اپنے اندر بیدار کر سکتا ہے۔ دماغ میں اسی قدر سرگرمی پیدا ہو گی جس قدر آپ چاہیں گے۔تخلیقی صلاحیت ہر اس شخص کے اندر بیدار ہو سکتی ہیں جو اپنی زندگی کو پرانے راستے سے ہٹ کر نئی ڈگر پر چلانا چاہتا ہے‘‘۔ مضمون میں حوالوں سے ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ ہر شخص مخصوص تربیت کے ذریعے دماغی صلاحیتوں کو بڑھا سکتا ہے۔یہ کوئی مشکل بات نہیں ۔نیورو سائنسدان ڈاکٹر سرنی پیلے (Srini Pillay) کے بقول ''کسی ایک چیز پر اپنی توجہ کو مرکوز رکھ کر بھی آپ دماغ کو بدل سکتے ہیں۔ مخصوص انداز میں سوچئے، آج تک جو کچھ سوچتے رہے ہیں اس سے باہر نکل کر کچھ نیا سوچنے کی کوشش کیجئے، اور جلد از جلد کسی نتیجے پر پہنچنے کی کوشش کیجئے۔ اس ضمن میں کئی ذہنی ورزشیں بھی معاون بن سکتی ہیں ۔اس کے بعد فرق محسوس کیجئے‘‘۔
افریقی نژاد ہاروڈ یونیورسٹی کے تربیت یافتہ ڈاکٹر سرنی کا کہنا ہے کہ ''میں اپنی ذہنی صلاحیتوں کی تربیت کے ذریعے موسیقار بھی بن گیا ہوں اور شاعر بھی۔ برین سائنٹسٹ بھی بن گیا اور ٹیکنالوجی کابزنس بھی کر رہا ہوں۔ان کے علاوہ 'نیورو کوچنگ‘ کمپنی کا مالک بھی ہوں۔میں نے دماغ کی تربیت کے ذریعے ہی اتنا کچھ پا لیا ہے‘‘۔
ڈاکٹر سرنی کا کہنا ہے کہ '' اگر کوئی سمجھتا ہے کہ اس پر 'آمد‘ نہیں ہوتی تو یہ ضروری نہیںکہ وہ اچھا شاعر نہیں بن سکتا،وہ اچھا شاعر بن سکتا ہے ، لیکن ا س کے لئے کچھ مشقیں کرنا ہوں گی ،ان مشقوں سے اس میں وہ صلاحیتیں بیدار ہو جائیں گی جنہیں اس نے 'سٹور‘ میں رکھ کر بے کار کر دیا تھا۔اسی تربیت کے ذریعے ہم اپنی اینگزائٹی اور ڈپریشن پر بھی قابو پا سکتے ہیںا ور دماغ کو مسلسل ڈپریشن پیدا کرنے والی باتیں سوچنے کی بجائے اسے کسی اور کام میں بھی لگا سکتے ہیں‘‘۔ ہاردڈیونیورسٹی سے منسلک رہنے کے باعث ا نہوں نے کئی بڑی عالمی کمپنیوں کے ملازمین کا علاج کیااور اسی طریقے سے اینگزائٹی کو بھی دور کر دیا۔وہ کہتے ہیں کہ تھراپی یا ادویات کے بغیر بھی دماغ کوتربیت دے کر اینگزائٹی کو بھگایا جا سکتا ہے ۔ انہوں نے 17 سالہ تحقیق کے بعد ''برین کوچنگ‘‘ کی اصطلاح بنائی ہے یعنی ہم اپنے برین کی کوچنگ کر کے اعلیٰ صلاحیتوں کے مالک بن سکتے ہیں۔ اس سائنس کو ''نیورو کوچنگ‘‘ کا نام دیاگیا ہے۔ اس ضمن میں ''سب سے پہلے آپ کو سوچنے کا انداز بدلنا ہوگا ،ہر خیال کے ذہن میںآتے ہی اس کے مضمرات اور فوائد پر غور کیجئے ، پریشانی کا باعث بننے والے ہر خیال کو اسی وقت جھٹک دیجئے۔ یہ کام ہر کوئی کر سکتا ہے۔ذہن کو اچھی باتیں سوچنے پر لگا دیجئے۔ کسی بھی چیز کے بارے میں سوچنے کا انداز بدل دیجئے۔منفی باتوں پر کم سے کم دھیان دیجئے، ایسی باتوں کو ذہن میں آتے ہی جھٹک دیجئے ،اس طرح دماغ کی مدد سے دماغ کو بدلا جا سکتاہے ‘‘۔
تخلیقی صلاحیتوں میں اضافے کا ایک چطریقہ ہو سکتا ہے ۔ ایک طریقے کو انہوں نے (positive disintegration) قرا ردیا ہے۔ذاتی ترقی کا یہ طریقہ (Kazimierz Dabrowski ) نے پیش کیا تھا، انہوں نے سب سے پہلے ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ دماغ پر قابو پانے کے بعد آپ اپنی اینگزائٹی اور ڈپریشن سے ادویات کے بغیر بھی لڑ سکتے ہیں۔ڈاکٹر سرنی نے اسے جدید شکل میں پیش کیا ہے۔ان سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ زیادہ تر لوگ اپنی زندگی عام سی ڈگر پر گزارنے کی کوشش کرتے ہیں ،وہ زیادہ ذہن لڑانے کی زحمت گوارہ نہیں کرتے۔سب سے پہلے یہ لوگ اپنے اندر بائیولوجیکل تبدیلیوں پر انحصار کرتے ہیں اور اس کے بعد گرد و پیش کے تقاضوں کوسامنے رکھتے ہیں 'کہ دنیا کیا کہے گی‘، جبکہ شخصیت قدرت عطا نہیں کرتی ، ہر انسان اپنی شخصیت کی تشکیل خود کرتا ہے۔ اکثر افراد اس ضمن میں خود کو ماحول کے رحم کو کرم پر چھوڑ دیتے ہیں،یہی سب سے بڑی غلطی ہے۔وہ شخصیت میں تبدیلی کے لئے دماغ میں نت نئے خیالات کو جگانے کی کوشش کرسکتے ہیں۔اس عمل کو ''design thinking‘‘ کہا گیا ہے۔یعنی کسی خاص انداز میں سوچنے کی عادت ڈال لیجئے۔اس کی مثال اس سائنسدان کی ہے جو یہ کوشش کرتا رہا کہ مجھے ایک اچھا سا ٹوتھ برش بنانا چاہئے اور وہ اسی پر سوچتا رہا حتیٰ کہ نیا برش بنانے میں کامیاب ہو گیا۔
ہمارے ارد گرد روزانہ بے شمار حادثات،تشویشناک واقعات اور جرائم رونما ہو رہے ہیں،ہسپتال زخمیوں سے بھرے پڑے ہیں ، کورونا کے المیے الگ ہیں ،جن پر گزرتی ہے انہیں زندگی بھر کا روگ لگ جاتا ہے جبکہ دیکھنے والے بھی ٹراما کا شکار ہو جاتے ہیں۔اس سے باہر نکلنے کے لئے ''ڈیزائنڈ تھنکنگ‘‘ کی تربیت دی جاتی ہے ، ذہن تیز ہو جاتا ہے اور مسائل کی شدت جلد ختم ہو جاتی ہے۔ اسی لئے کئی ہسپتال ''ڈیزائنڈ تھنکنگ ‘‘ سے بھی کام لے رہے ہیں ۔یونیورسٹی آف منی سوٹا کے ڈاکٹر تھامس فشر کے مطابق ''آپ مخصوص انداز میں سوچنے کی عادت ڈال کر بنیادی تبدیلیاں لا سکتے ہیں‘‘۔
اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے فلاڈیلفیا یونیورسٹی میں ''ڈائریکٹر جیفرسن ہیلتھ ڈیزائن لیب‘‘ ڈاکٹر بان کو کہتے ہیں کہ ''کسی بھی نکتے پرتوجہ مرکوز کیجئیء اپنی مرضی کی باتوں پر دھیان دیجئے ،اپنی ترقی اور صحت کا سوچئے ۔آپ کے اندر بنیاد تبدیلیاں جنم لے سکتی ہیں‘‘۔وہ کہتے ہیں کہ جب ہم نے اپنے مرکز میں ''ڈاکٹروں اور نرسوں کو اسی طرح نئی نئی باتیں سوچنے کی ترغیب دی تو ایک ڈاکٹر نے درد میں کمی لانے والا آلہ تیار کر لیا‘‘۔آپ بھی خود پر دھیان دیجئے اور نقصان دہ باتوں اور سوچوں کو ذہن میں آتے ہی جھٹک دیجئے۔تبدیلی خود بخود دستک دے گی۔