مقدر کے ستارے ۔۔۔۔ رسول بخش رئیس
کبھی سب کچھ انسان کے اپنے ہاتھ میں ہے اور کبھی کچھ بھی نہیں۔ تاریخ کہتی ہے‘ حالات بدلتے رہتے ہیں۔ ہمارے سامنے‘ ہماری زندگی میں دنیا نے کئی رنگ‘ کئی روپ‘ کئی رخ بدلے۔ مانیں گے ہم کبھی نہیں‘ ہمارا ملک بھی کیا سے کیا ہو چکا ہے۔ ہر ایک بدلے ہوئے ملک اور بدلی ہوئی دنیا کو اپنی رنگ دار عینک کے موٹے شیشوں سے دیکھنے کا خوگر ہے۔ بس ہمیں جو رنگ پسند ہیں‘ انہیں رنگوں کی ذہنی بہار میں آسودگی تلاش کرتے ہیں۔ دنیا ہو یا ہماری ذاتی زندگی‘ حرکت سے بدلتے ہیں اور بدل رہے ہیں۔ جہاں حرکت تیز‘ منزل متعین‘ ارادہ پختہ اور خلوص کے وسائل مہیا ہوں گے‘ مرادیں بر آئیں گی‘ توقع سے کہیں زیادہ‘ وہ سب کچھ جس کا احاطہ آپ کے خوابوں کی دنیا بھی نہ کر سکے۔ ابھرتے ہوئے سورج کی سرزمینوں سے ہوں یا مغرب اور شمال کے ساحلوں کی آخری پٹیوں سے‘ صحرائی درویش ہوں یا پہاڑوں کی وادیوں میں خلوت گزیں مفکر‘ شاعر‘ صوفی اور اصلاح کار‘ سب دانش مندوں نے عمل اور سہولت کے درمیان فرق واضح کر دیا ہے۔ سادہ زبان میں چار یا پانچ باتیں ظاہری اور باطنی علم کے علاوہ انسانی زندگی کی جامع تاریخ سے ماخوذ سکھا اور سمجھا دی ہیں‘ جن کا ذکر میں یہاں کرنا چاہتا ہوں۔ یہ فطرتِ ایزدی کا عکس ہیں‘ صداقت‘ امانت‘ جدوجہد‘ خلوص اور محبت۔ باقی سب باتیں جو ہم کرتے اور سنتے ہیں‘ فروعی ہیں۔ خدمت‘ انسانیت‘ بھائی چارہ‘ ہم آہنگی اور رزقِ حلال‘ سب کی بنیادیں کہیں نہ کہیں محنت اور صداقت سے ملتی ہیں۔ کچھ کریں گے تو کچھ ہو گا‘ کچھ نہیں کریں گے تو کچھ نہیں ہو گا۔ سیاست‘ معیشت اور شخصی ارتقا کچھ کرنے کے متقاضی ہیں۔ اس کے علاوہ آسمان سے ابرِ رحمت کی تمنا دل میں ہمیشہ رہنی چاہئے۔ اس میں بھی اسباب اور نتائج کا رشتہ ازلی اور ابدی ہے۔ میرے ہمسایے اور سکول کے دنوں کے دوست‘ پیرنڈتہ چند جماعتیں پڑھنے کے بعد آگے نہ چل سکے۔ تیسری جماعت سے چلے تو ہم سینکڑوں میں سے ایک تھے‘ مگر جب آٹھویں کا بورڈ کا امتحان ہوا تو آخر میں فقط یہ درویش ہی رہ گیا تھا۔ پھر سفر جاری رہا‘ اور منزلیں بدلتی رہیں۔ آپ اپنی زندگی میں بھی دیکھیں‘ کتنے ہمارے دوست تھک گئے یا کسی اور وجہ سے آگے نہ چل سکے۔ ہم بہت خوش قسمت ہیں کہ پائوں حرکت میں رہے اور دعائوں کی بادِ نسیم نے ہماری مسافرت میں خوشبوئیں پھیلائیں‘ تھکن کا احساس تک نہ ہونے دیا‘ اور ولولے میں تازگی بھرتی رہی۔ پیرنڈتہ چھٹی جماعت کے بعد سکول چھوڑ کو اپنے والد کے ساتھ آبائی پیشے سے منسلک ہو گیا۔ جفت سازی ایک فن تھا‘ اب مشینی دور میں آہستہ آہستہ مٹ رہا ہے۔ درختوں کے سائے میں انہوں نے ایک چھپر بنا رکھا تھا۔ خس و خاشاک سے بنی لمبی چوڑی چٹائی درمیان میں دن رات بچھی رہتی۔ ایک صندوقچی میں اوزار‘ درمیان میں ایک پتھر کی سل اور پانی کا چوڑا برتن اس انسانی کارخانے کی کل سرمایہ کاری تھی۔ ایک نہیں‘ دیسی جوتے بنانے کی بارہ کے قریب ورکشاپیں تھیں۔ ہر جگہ تین سے چار کاریگر بیٹھتے‘ اور ان میں سے ہر ایک شام تک کم از کم ایک جوڑا ضرور تیار کر لیتا تھا۔ درمیان میں وقفہ بھی ہوتا اور گرمیوں کی تپتی دوپہروں میں آرام بھی۔ زندگی میں اس وقت خاصا ٹھہرائو تھا۔ ہمارے لوگ سادہ اور قناعت پسند تھے۔ نئے جوتے تیار کرنے کے ساتھ ساتھ پُرانے جوتوں کی مرمت بھی کی جاتی تھی۔ دیہات سے کاشتکار ڈھیروں پُرانے جوتوں کو کپڑوں میں ڈال کر بنڈل بنا لیتے اور آتے ہی جفت سازوں کے سامنے ڈھیر لگا دیتے اور پوچھتے: کب تک مرمت ہو جائیں گے؟ دو تین دن کا وقت مقرر کر دیا جاتا۔ جن کے جوتوں کی کیلیں پیروں کو زخمی کرنے کیلئے سر باہر نکالتیں‘ ایمرجنسی کے طور پر فوراً ٹھونک دی جاتیں‘ اور بندہ پھر سے چلنے پھرنے کے قابل ہو جاتا۔
نئے جوتوں کی قیمت مقرر ہوتی‘ جو سالوں تبدیل ہوتے نہیں دیکھی۔ چمڑا ملتان سے خریدا جاتا تھا کہ چمڑا صاف کرنے کے کارخانے وہیں تھے‘ اور اب بھی ہیں۔ جانوروں کی کھالیں خاصی بڑی مقدار میں عید قربان کے دنوں میں اکٹھی کی جاتی تھیں یا پھر عام دنوں میں گوشت کیلئے جانور ذبح ہوتے تو کھالوں کے بیوپاری‘ جن میں درویش نامی ایک شخص بہت مشہور تھا‘ کھالیں خریدتے اور ٹرک میں ڈال کر ملتان میں واقع کارخانوں کو بیچ آتے۔ پُرانے جوتوں کی مرمت کا معاوضہ نقد نہ ہوتا۔ فصل تیار ہوتی تو کاریگر بستیوں کا چکر لگاتے اور اپنے ہر گاہک سے جسے مقامی زبان میں ''آھتی‘‘ کہتے‘ گندم وصول کرتے۔ ہر ایک کے پاس اتنی گندم اکٹھی ہو جاتی کہ سارا سال کبھی بازار سے خریدنے کی نوبت نہ آتی۔ پیرنڈتہ اپنی سادہ زندگی میں خوش رہا اور کبھی زیادہ کی تمنا نہ کی۔ ساگ‘ سبزی اس وقت مفت مل جایا کرتے تھے۔ کوئی آھتی جوڑے مرمت کرانے کیلئے آتا تو ساتھ سبزی بھی لاتا۔ محلے میں جس کے گھر گائے یا بھینس ہوتی اور لسی بنتی تو اردگرد کی عورتیں اپنے برتن اٹھا کر گھیرے میں بیٹھ جاتیں۔ سب کو حصہ ملتا۔ اگر ایک گھر سے ضرورت پوری نہ ہوتی تو دوسرے گھروں کا بھی چکر لگانا معیوب بات نہ ہوتی۔ لسی کم پڑتی تو پانی ڈال کر اس کو پتلا کر لینا بھی عام بات تھی۔ یہ سب محبت‘ خلوص اور صداقت ہی تو تھی کہ بانٹ کر کھانے کا رواج عام تھا۔
اس خاکسار نے زندگی میں بہت غلطیاں کی ہیں‘ پہاڑوں سے بڑی‘ سوچتا ہوں‘ شرمندہ رہتا ہوں‘ مگر وطن اور اپنی مٹی کو چھوڑنے کی غلطی سے گریز کیا ہے۔ گائوں‘ دیہاتوں‘ وہاں کے باسیوں‘ پُرانے دوستوں اور ان کی یادوں سے رشتہ قائم‘ ناتا برقرار‘ تعلق موجود اور رابطہ جاری ہے۔ پیرنڈتہ اب ہم میں موجود نہیں۔ ایک سال قبل اس کا انتقال ہو گیا تھا۔ جب بھی اپنے آبائی علاقے کو جاتا‘ اس سے ملاقات ضرور ہوتی۔ چند دہائیاں پہلے‘ جب مشینی دور میں تیزی آئی تو جفت ساز بیکار ہونا شروع ہو گئے۔ ایک کے بعد دوسرا‘ تیسرا اور آخر میں سب۔ وہ چھپر‘ جن کے سایوں میں صدیوں سے ایک فن نسل در نسل منتقل ہوتا رہا‘ آنکھوں سے اوجھل ہو گئے۔ وقت کی دھول نے ان کا نام و نشان بھی باقی نہ چھوڑا۔ پیرنڈتہ نے اپنے گھر کی پشت پر گلی میں ایک بیکری بنا رکھی تھی۔ وہی گلی میرے گھر سے باہر جانے کا راستہ بھی تھی۔ آتے جاتے وہ مجھے زبردستی اپنے بنائے ہوئے بسکٹ پیش کرتا‘ فخر سے بھٹی بھی دکھاتا اور دیگر تمام اشیا کی نمائش لگا دیتا‘ جو اس کی چھوٹی سی دکان میں تیار ہوتی تھیں۔ چند سال پہلے دیکھا تو اس کی دکان خالی تھی اور پیرنڈتہ اپنے حقے کے لمبے کش لگا رہا تھا۔ پوچھا: کیا ہوا؟ کہا ''ستارے‘‘ گردش میں ہیں‘ دعا کریں ان کی رجعت ختم ہو جائے اور میرے حالات ٹھیک ہو جائیں۔ بار بار وہ کہتے کہ بس کیا کریں‘ سب ستاروں کا کھیل ہے۔ بس ستاروں کی گردش ختم ہونے اور حالات کے ٹھیک ہونے کی آس لگائے کسمپرسی کے دن گزارتے رہے اور اسی سادگی‘ قناعت اور صداقت کے ساتھ وہاں روانہ ہو گئے‘ جہاں سے کبھی کوئی واپس نہیں آیا۔
اصل وجہ تو بڑے شہروں میں چلنے والے کارخانے تھے‘ جن کی وجہ سے پیرنڈتہ کا پہلے آبائی پیشہ تباہ ہوا اور پھر آخر میں بیکری بھی ختم ہو گئی۔ رنگ دار ریپروں میں محفوظ اور ڈبوں میں بند اشیا کا مقابلہ ایک چھوٹی سی بیکری کیسے کر سکتی تھی‘ سو وہ دم توڑ گئی اور میرا دوست بھی۔ کاش کوئی سوچتا‘ کوئی کچھ کرتا کہ ہم اپنے ہنرمندوں کو اس مسابقتی دور میں تربیت دیتے‘ سرمایہ فراہم کرتے۔ ہمارے مقدر کے ستاروں پر حریصوں‘ غاصبوں اور لوٹ مار کرنے والوں نے قبضہ کر رکھا ہے۔ یہ ستارے ہم سب کے اور سب کے لئے آزاد ہو سکتے ہیں۔ ذرا حرکت کریں‘ بیدار ہو جائیں‘ ہوش سنبھالیں۔ دوست اور دشمن کی پہچان کوئی مشکل نہیں‘ صرف عقل کی آنکھ کھولنے کی ضرورت ہے اور دل کو تعصب سے پاک کرنے کی۔ سب صاف نظر آئے گا۔