Results 1 to 2 of 2

Thread: جوانی میں بائیڈن کا عہد ’’ماں میں امریکہ کا صدر بنوں گا ‘‘ ...

  1. #1
    Join Date
    Nov 2014
    Location
    Lahore,Pakistan
    Posts
    25,276
    Mentioned
    1562 Post(s)
    Tagged
    20 Thread(s)
    Rep Power
    214784

    candel جوانی میں بائیڈن کا عہد ’’ماں میں امریکہ کا صدر بنوں گا ‘‘ ...

    جوانی میں بائیڈن کا عہد ’’ماں میں امریکہ کا صدر بنوں گا ‘‘ ... صہیب مرغوب

    Maa Main america Ka sadar banon ga.jpg
    بیوی اور بیٹی Ú©ÛŒ موت Ú©Û’ بعد خود Ú©Ø´ÛŒ کا خیال آیا لیکن جھٹک دیا: جوبائیڈن Ú©ÛŒ بائیوگرافی Ú©Û’ چند Ø+صے، جوبائیڈن بلا Ú©Û’ ذہن Ú©Û’ ہیں، انہیں یہ بھی یاد ہے کہ سکول میں کون کون ان کا ساتھ تھا، اور Ú©Ù† بچوں Ù†Û’ مخالفت Ú©ÛŒ تھی، جوبائیڈن Ú©Ùˆ ڈاکٹروں Ù†Û’ مردہ قرار دے دیا، آخری رسومات Ú©ÛŒ ادائیگی Ú©Û’ لئے پادری بھی بلوا لئے گئے تھے لیکن اچانک نبض Ú†Ù„ Ù¾Ú‘ÛŒ
    امریکہ میں صدارتی انتخابات کا بگل بجنے Ú©Û’ بعد مگر صدارتی انتخاب کیلئے ووٹنگ شروع ہونے سے چند ہفتے قبل ØŒ 27 اکتوبر 2020Ø¡ Ú©Ùˆ نو منتخب صدر جو بائیڈن Ú©ÛŒ شخصیت ØŒ سیاسی غلطیوں اور ذاتی زندگی میں پیش آنے والے Ø+وادث پر مبنی ایک کتاب ’’جو بائیڈن، دی لائف، دی رن، اینڈ واٹ میٹرز نائو‘‘ (جو بائیڈن، ان Ú©ÛŒ زندگی، صدارتی انتخاب، اور اب کیا اہم ہے؟ )منظرعام پر آ گئی تھی۔ کتاب Ú©Û’ مصنف امریکی سیاست دانوں پر گہری نگاہ رکھنے والے معروف دانشور ایوان اوسنوس ہیں۔ کتاب Ù„Ú©Ú¾Ù†Û’ سے پہلے مصنف Ù†Û’ براک اوباما، جو بائیڈن Ú©Û’ اہل خانہ، ان Ú©Û’ ساتھ کام کرنے سینکڑوں افراد Ú©Û’ انٹرویوز کئے جن Ú©Û’ ذریعے وہ بائیڈن Ú©ÛŒ زندگی Ú©Û’ کئی راز پانے میں کامیاب ہو گئے۔کتاب لکھتے وقت مصنف Ù†Û’ سوال کیا کہ ’’اگرٹرمپ Ù†Û’ ایوان صدر خالی کرنے سے انکار کردیا تو کیا ہو گا؟جو بائیڈن Ù†Û’ جواب دیا کہ ’ اگر ایساہواتو یہ بہت بری بات ہو گی‘ لیکن بائیڈن پریشان نہ تھے۔ وہ کہتے تھے کہ اس Ú©ÛŒ روک تھام کیلئے ادارے ہیں نا‘‘۔

    جوزف آر بائیڈن20جنوری 2021Ø¡ Ú©Ùˆ امریکہ Ú©Û’ 46ویں صدر Ú©Û’ طور پر منصب سنبھالیں Ú¯Û’Û” ان Ú©Û’ بارے میں کئی کتب میں لکھا ہے کہ وہ اعلیٰ عہدوں پر خواتین Ú©Ùˆ اپنے ساتھ نہیں دیکھنا چاہتے، لیکن کملا ہیرس Ú©Ùˆ نائب صدر Ú†Ù† کر انہوں Ù†Û’ یہ بات غلط ثابت کر دی Û” کتاب میں مصنف Ù†Û’ بائیڈن Ú©Û’ Ø+والے سے ثابت کیا ہے ،کہ ’’انسان اپنی ہمت سے Ú©Ú†Ú¾ بھی Ø+اصل کر سکتا ہے۔وہ صدارتی امیدوار بننے Ú©ÛŒ دوڑ میں دو مرتبہ ناکام ہونے Ú©Û’ بعد تیسری مرتبہ کامیاب ہوئے ہیں،اور اگر وہ جیت گئے (یہ کتاب انتخابی نتائج سے چند ہفتے پہلے Ù„Ú©Ú¾ÛŒ گئی تھی) تو وہ لا علاج مسائل Ú©Ùˆ بھی آسانی سے Ø+Ù„ کر لیں Ú¯Û’ØŒ ان میں اس Ú©ÛŒ صلاØ+یت ہے Û” ان Ú©ÛŒ زیادہ کامیابی کا دار Ùˆ مدار اس بات پر بھی ہو گا کہ سینٹ پر کنٹرول کس کا ہوگا؟‘‘۔میری رائے میں فی الØ+ال تو سینٹ میں مشکل پیش آنے Ú©Û’ آثار ہیں۔

    کتاب کا مصنف لکھتاہے،

    ’’جوزف آر بائیڈن کو دنیا کاخوش قسمت ترین انسان بھی کہا جا سکتا ہے اوربدقسمت انسان بھی۔ ہر موڑ پر قسمت نے ان کا ساتھ دیا لیکن بدقسمتی نے بھی دامن تھامے رکھا۔اپنے پچاس سالہ سیاسی کیرئیر میں وہ ارادوں کے پختہ نکلے، انہوں نے جوانی میں اپنی ماں سے کہا تھا کہ میں ایک نہ ایک دن امریکہ کا صدر بنوں گا‘‘۔

    ہ اپنی ماں سے کیا گیا وعدہ پورا کرنے میں کامیاب رہے، انہوں نے صدر بن کر دکھایا،

    ’’لیکن انہوں Ù†Û’ اس مقام تک پہنچنے میں بہت Ú©Ú†Ú¾ Ú©Ú¾Ùˆ یا بھی ہے۔اپنی ڈرامائی زندگی میں صرف پختہ ارادوں Ù†Û’ ہی انہیں کامیاب کرایا ،کئی مرتبہ وہ موت Ú©Û’ کا نوالہ بنتے بنتے رہ گئے۔ہر قدم پر رکاوٹوں Ù†Û’ ان کا راستہ روکا لیکن وہ اعلیٰ ترین منصب Ú©Ùˆ پانے Ú©ÛŒ امنگ دل میں لئے آگے ہی آگے بڑھتے رہے۔جو بائیڈن کہتے ہیں کہ ناکامی اور زندگی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ یہ آتی رہتی ہیں لیکن اگر کوئی ناکامی Ú©Û’ خوف سے آگے بڑھنا Ú†Ú¾ÙˆÚ‘ دے تو یہ ناقابل معافی عمل ہے۔ایک باہمت آدمی Ú©ÛŒ طرØ+ کام کرتے ہوئے انہوں Ù†Û’ یہ ثابت کیا کہ ترقی Ú©Û’ سفر میں امریکی کبھی ہمت نہیں ہارتے‘‘۔

    ’’جو بائیڈن بلا کے ذہن ہیں، انہیں سکول کے زمانے کی باتیں بھی یاد ہیں ۔انہیں یہ بھی یاد ہے کہ سکول میں کون سا بچہ ان کے ساتھ ہوتا تھا اور کن بچوں نے ان کی مخالفت کی تھی،لیکن وہ سب کی عزت کرنا جانتے ہیں،اس لئے ری پبلیکنز کو بھی ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کریں گے‘‘۔

    ایوان اوسنوس لکھتے ہیں کہ ’’نومنتخب صدر Ú©ÛŒ شخصیت زندگی میں پیش آنے والے Ø+ادثات سے عبارت ہے، مستقبل Ú©Û’ فیصلوں پر بھی ا Ù† Ú©Û’ تجربات Ú©ÛŒ چھاپ دیکھی جا سکے گی، وہ امریکہ Ú©Ùˆ کسی نئی اور بہتر منزل Ú©ÛŒ جانب Ù„Û’ جانے Ú©ÛŒ کوشش کریں Ú¯Û’ ‘‘۔لیکن اگر وہ ا پنے تلخ تجربات سے باہرنہ Ù†Ú©Ù„ سکے تومسائل اور مشکلات میں اضافے کا امکان ہے۔

    مصنف کے مطابق ،

    ’’ Û”1972Ø¡ میں پیش آنے والے کار Ú©Û’ Ø+ادثے کا زخم آج بھی ان Ú©Û’ دل میں تازہ ہے، اس Ø+ادثے میں انہوں Ù†Û’ اپنی فیورٹ بیٹی نائومی اور شریک Ø+یات نیلیاکو Ú©Ú¾Ùˆ دیا تھا۔انہیں یاد ہے کہ جب پہلی مرتبہ سینیٹر بنے تھے تو اسی Ø+ادثے میں زخمی ہونے والے دونوں بیٹے ہسپتال میں تھے ØŒ جو بائیڈن Ù†Û’ ان Ú©Û’ بستر Ú©Û’ سامنے Ú©Ú¾Ú‘Û’ ہو کر اپنے عہدے کا Ø+لف اٹھایا تھا۔ بقول جو بائیڈن ،یہ غم اس قدر شدید تھا کہ ایک آدھ بار زندگی مایوسیوں Ú©Û’ پہاڑ Ú©Û’ سوا Ú©Ú†Ú¾ نظرنہ آئی۔ ایک بار خود Ú©Ø´ÛŒ کرنے کا خیال بھی ذہن میں جاگا،لیکن با ہمت ہوں، بے موت مرنے کاخیال ذہن میں آتے ہی جھٹک دیا۔ وہ کہتے ہیں کہ مایوس ترین لمØ+ات میںبھی ترقی اور بہتری Ú©ÛŒ ایک کرن ضرور چمکتی ہے، یہی کرن ہمیں زندگی Ú©Û’ اندھیروں میں بھٹکنے سے بچا سکتی ہے۔وہ یہ کہتے ہیں کہ ’’ میں ہرگز یہ نہیں چاہتا تھا کہ میری پہچان ایک نامراد ØŒ بھٹکتے ہوئے راہی Ú©ÛŒ Ø+یثیت سے ہو،لوگ سمجھیں کہ یہی وہ آدمی ہے جسے زندگی Ù†Û’ جہاں چاہا پٹخ دیا، خود Ú©Ùˆ سنبھالنے اور بدلنے Ú©ÛŒ صلاØ+یت سے عاری ہے یہ انسان ۔میں اپنی یہ پہچان ہرگز نہیں چاہتا تھا، اس لئے ہر مشکل کا مقابلہ کیا اورہر غم سے باہر Ù†Ú©Ù„ آیا۔زندگی Ú©Û’ بڑے سے بڑے جھٹکے Ú©Ùˆ میں Ù†Û’ اپنے لئے آگے بڑھنے کا زینہ سمجھا جیسے غموں اور تکالیف Ù†Û’ مجھے آگے Ú©ÛŒ جانب دھکیل دیا ہو‘‘۔

    مصنف ایوان اوسنوس لکھتے ہیں کہ

    ’’ جو بائیڈن Ú©ÛŒ شخصیت Ú©ÛŒ تشکیل ان Ú©Û’ عہد جوانی میں ہی ہو گئی تھی، لڑکپن میں جو بائیڈن Ú©Û’ پیش نظر ایک ہی مقصد تھا، امریکہ کا صدر بننے کا مقصد۔ایک طرف تو وہ اپنی ہونے والی شریک Ø+یات Ú©Û’ ساتھ رشتہ ازدواج میں بندھنے Ú©ÛŒ تیاری کررہے تھے ا ور دوسری طرف ان Ú©Û’ ذہن میں ایک ہی بات گردش کر رہی تھی، ’میں اپنے ملک ا مریکہ کا صدر کیسے بن سکتا ہوں‘۔ اس دوران انہیں ایک اور دھچکا لگا ،وہ ڈیمو کریٹک پارٹی کا Ù¹Ú©Ù¹ Ø+اصل کرنے Ú©ÛŒ دوڑ ہار گئے۔ ہیلری ان پر بھاری ثابت ہوئیں۔ اوہائیو کاکس میں زبردست شکست Ú©Û’ بعد وہ پیچھے ہٹ گئے لیکن ہار نہیں مانی‘‘۔

    ایوان اوسنوس لکھتے ہیں کہ

    ’’جو بائیڈن نے تین بار صدر بننے کی کوشش کی ،پہلی دو کوششیں ناکام ہو گئیں لیکن ہمت ہارنا ان کی سرشت میں شامل نہ تھا‘‘ ۔

    ’’پہلی مرتبہ وہ 1987Ø¡ میں صدارتی انتخاب Ú©Û’ میدان میں اترے، ان دنوں شہرت مثبت نہ تھی،وہ ایک Ø+لقے میں اکھڑ مزاج رہنما Ú©Û’ طور پہچانے جاتے تھے۔انہیں شہر میں شیخی خور بھی سمجھا جاتا تھا۔آخر کار مقامی لوگ زیادہ جانتے ہیں!Û” پھر جو بائیڈن Ù†Û’ ایک زور دار تقریر کی، جس Ú©Û’ چرچے دنیا بھر میں ہوئے ØŒ لیکن منفی انداز میں۔ یہ بات زور Ùˆ شور سے کہی جانے Ù„Ú¯ÛŒ کہ امریکہ Ú©Û’ سب سے بڑے منصب Ú©Û’ ایک امیدوار Ù†Û’ شہرت Ú©Û’ Ø+صول Ú©ÛŒ خاطر برطانوی سیاست دان نیل کنوک Ú©ÛŒ تقریر چوری کر Ù„ÛŒ ہے۔ جس سے ان Ú©ÛŒ انتخابی مہم Ú©Ùˆ زبردست دھچکا لگا۔ یہ لطیفہ بھی مشہور ہو گیا کہ جو بائیڈن مستند شخصیت نہیں ہیں۔ دانشورانہ چوری Ú©Û’ الزامات پرشدید ردعمل کا اظہار کرنے پر Ú©Ú†Ú¾ Ø+لقوں Ù†Û’ انہیں متکبرکہہ ڈالا۔انہیں صدارتی دوڑ سے باہر ہونا پڑا۔یہ صدمہ جو بائیڈن کیلئے ناقابل برداشت تھا، صدارتی دوڑ سے باہر ہونے Ú©Û’ بعد چند مہینے بعد انہیں ’aneurysms‘ نامی بیماری Ù†Û’ آ لیا۔ (ہائی بلڈ پریشر اور ’’ایتھروسکلر٠سس‘‘ (atherosclerosis) اس بیماری کا سبب بنتے ہیں۔جو بائیڈن Ú©ÛŒ دو آرٹریز خراب ہو گئی تھیں۔ جس Ú©Û’ باعث جسم Ú©Û’ دوسرے Ø+صوں میں خون Ú©ÛŒ فراہمی رک گئی تھی:مترجم) Û” بیماری اس قدر شدید تھی کہ ڈاکٹروں Ù†Û’ انہیں مردہ قرار دے دیا۔ ڈاکٹروں Ú©ÛŒ ہدایت پر آخری رسومات Ú©ÛŒ ادائیگی کیلئے پادری Ú©Ùˆ بھی بلوا لیا گیا تھا۔ تدفین کا عمل شروع ہونے سے پہلے نبض Ú†Ù„ پڑی۔ یوں انہیں امریکہ کا نیا صدر بننے کیلئے بچا لیا گیا، ان Ú©ÛŒ زندگی Ù†Û’ ثابت کیا کہ اس منصب کا اہل ان Ú©Û’ سوا کوئی اور نہیں تھا!اگر وہ ذرا دیرکرتے تو شائد بہت دیر ہو جاتی Û” بروقت علاج سے انہیں نئی زندگی مل گئی۔اگر وہ انتخابی مہم جاری رکھتے تو شائد ڈاکٹر سے بروقت رجوع نہ کرتے ØŒ یوں 1988Ø¡ میں مہم سے الگ ہونا بھی رØ+مت ثابت ہوا‘‘۔

    ’’ان سانØ+ÙˆÚº Ú©Ùˆ تین عشروں سے زائد وقت گزر چکا تھا،تب وہ تیسری بار صدارتی امیدوار بنے Û” ایک ایسا ا میدوار جس Ú©ÛŒ زندگی المیوں اور غلطیوں سے عبارت تھی‘‘۔

    ’’جو بائیڈن سمجھتے تھے کہ سینیٹر بننے Ú©Û’ بعد ان Ú©ÛŒ سیاسی زندگی ختم ہو جائے گی، صدر بننے کا خواب دل میں ہی رہ جائے گا، انہیں صدر بننے کا راستہ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔ یہ کام کیسے ہو؟ بیوی اور بیٹی Ú©ÛŒ موت پر بھی ہلکان تھے۔ یہی وہ وقت تھا جب خود Ú©Ø´ÛŒ کا خیال آیا لیکن جھٹک دیا ØŒ چند ایک سینئر ارکان Ù†Û’ رہنمائی کہ اگر انہوں Ù†Û’ آگے بڑھنے Ú©ÛŒ امنگ جاری نہ رکھی تویہ نہ صرف یہ ووٹروں Ú©Û’ ساتھ ناانصافی ہو Ú¯ÛŒ بلکہ آپ اپنے ساتھ بھی اچھا نہیں کریں Ú¯Û’ ØŒ بند Ú¯Ù„ÛŒ میں پہنچ جائیں گے۔بہن ویلری Ù†Û’ بھی بتایا کہ ان Ú©Û’ دو بیٹے ہیں ،پہلے ماں ان Ú©Û’ ساتھ تھی، اب وہ بھی نہیں ہے۔اگر انہیں Ú©Ú†Ú¾ ہو گیا تو بچوںکا ساتھ دینے والا کوئی نہ ہوگا۔جو بائیڈن رنج Ùˆ غم Ú©ÛŒ جیتی جاگتی تصویر بن Ú†Ú©Û’ تھے ØŒ نئی زندگی Ú©ÛŒ شروعات Ú©Û’ لئے اس تاثر Ú©Ùˆ دور کرناضروری تھا۔ دنیا Ø+یران رہ گئی ،انہوں Ù†Û’ خود Ú©Ùˆ بے Ø+د بدل لیاتھا‘‘۔

    ’’ہم Ù†Û’ یہ بھی جانا کہ انہیں غمزدہ انسان سمجھنے والے غلطی پر تھے،وہ دوسروں Ú©Û’ رویے یا سوچ Ú©Ùˆ ترقی کا زینہ سمجھ کر آگے بڑھ رہے تھے۔ یہ رویہ آگے Ú©ÛŒ جانب دھکے سے Ú©Ù… نہ تھا۔ یہ بھی کہا جانے لگا تھا کہ جو بائیڈن ایک ایسے انسان کا نام ہے جو فٹ بال کا کھلاڑی تھا، اپنی جدوجہد سے عمر Ú©ÛŒ تیسری دہائی میں سینیٹر بھی بن چکا تھا ØŒ اس چھوٹی عمر میں اس Ù†Û’ خارجہ پالیسی Ú©Û’ ماہر Ú©Û’ طور پر بھی پہچان بنا Ù„ÛŒ تھی۔ انہوں Ù†Û’ بعض Ø+لقوں میں ناکام انسان Ú©Û’ طور پر ابھرنے والے تصور Ú©Ùˆ بھی ختم کر دیا۔وہ کہتے ہیں کہ نقصاندہ سوچوں پرغالب آکر ترقی کا راستہ بنایا جا سکتا ہے‘‘۔

    ’’لیکن آزمائش ابھی باقی تھی۔2015Ø¡ میں انہوں Ù†Û’ اپنے جان سے پیارے بیٹے بیئو Ú©Ùˆ اس وقت Ú©Ú¾Ùˆ دیا جب وہ کرسمس Ú©ÛŒ خریداری کرنے کار پر جا رہا تھا۔اس گہرے زخم Ù†Û’ انہیں اندر سے توڑ دیا۔یہ Ø+ادثہ زندگی Ú©Û’ اس موڑ پر پیش آیا جب جو بائیڈن وہی Ú©Ú†Ú¾ کر رہے تھے جس Ú©ÛŒ ووٹروں Ú©Ùˆ توقع تھی‘‘۔

    مصنف ایوان اوسونوس لکھتے ہیں کہ ’’ جو بائیڈن Ù†Û’ امریکی ججوں Ú©Û’ چنائو میں بڑھ Ú†Ú‘Ú¾ کر کردار ادر کیاتھا۔ بطور چیئرمین جوڈیشری کمیٹی، انہوں Ù†Û’ ہر جج Ú©Ùˆ کسوٹی پر کھا۔1991Ø¡ میں ان Ú©Û’ سوالات Ù†Û’ جسٹس کلیرنس تھامس Ú©Ùˆ چکرا دیا تھا ۔بعد ازاں ایک خاتون امیدوار انیتا ہل Ú©Û’ Ø+والے سے مشہور ہو گیا جو بائیڈن Ù†Û’ ان پر تلخ سوالات Ú©ÛŒ بوچھاڑ اس لئے Ú©ÛŒ ہے کہ وہ کسی بھی خاتون Ú©Ùˆ جج Ú©Û’ منصب پر فائز ہوتے نہیں دیکھنا چاہتے۔ بائیڈن سے معافی مانگنے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔ ایک عمر اس Ú©ÛŒ وضاØ+تیں کرنے میں گزر گئی۔ جو بائیڈن Ù†Û’ ری پبلیکن پارٹی Ú©Û’ ہر ممبر Ú©Ùˆ عزت دی ہے‘‘۔

    مصنف کتاب میں ان کی شخصیت کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھتاہے کہ

    ’’تمام شدید المیوں پر قابو پا کر وہ پرسکون شخصیت بن Ú†Ú©Û’ ہیں۔ اب وہ پہلے Ú©ÛŒ بہ نسبت کہیں مختلف رہنما ہیں۔Ø+وادث Ù†Û’ 77 سالہ جو بائیڈن Ú©Ùˆ ایک منجھا ہوا، تجربہ کارسیاستدان بنا دیا ہے،ان Ú©ÛŒ زندگی میں کافی ٹھہرائو ہے، وہ ہر قدم پھونک پھونک کر رکھتے ہیں۔انتخابی مہم Ú©ÛŒ ابتدا میں Ú©Ú†Ú¾ کولوگوں Ù†Û’ ماضی Ú©ÛŒ کوتاہیوں Ú©Û’ باعث انہیں سنجیدگی سے نہیں لیاتھا۔پرانی ،پے در Ù¾Û’ ناکامیوں Ú©ÛŒ وجہ سے وہ انہیں ہلکا Ù„Û’ رہے تھے۔ یہ لوگ شائد یہ بھی نہیں جانتے کہ آج کا ووٹر کیا چاہتا ہے‘‘۔

    ’’ٹرمپ کا گزشتہ ساڑھے تین برسوں میں بھرپور اØ+تساب کیا گیا تھا ØŒ میڈیا Ù†Û’ جو بائیڈن کا بھی ا سی طرØ+ سے اØ+تساب کیا تاکہ ووٹرز Ú©Û’ اذہان میں یہ بات راسخ ہوجائے کہ ٹرمپ Ú©ÛŒ طرØ+ بائیڈن بھی قانون Ú©Û’ سامنے جوابدہ ہیں۔ اعتماد Ú©ÛŒ بØ+الی کا یہی ایک راستہ تھا ورنہ گیم ہاتھ سے Ù†Ú©Ù„ سکتی تھی‘‘۔

    مصنف اوسنوس جو بائیڈن کے عزم و ہمت کی داستان بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ

    ’’ بطور سینیٹر وہ عوام Ú©ÛŒ امنگوں پر پورا اترے Û” انہیں توقع تھی کہ ووٹرز دوبارہ ان کا ساتھ دیں Ú¯Û’ØŒ انہوں Ù†Û’ زیادہ اہمیت شہری Ø+قوق Ú©Ùˆ دی۔انہوں Ù†Û’ ڈیلاویئر میں Ú©Ú†Ú¾ Ø+لقوں Ú©ÛŒ منفی سوچ Ú©Ùˆ بدلنے میں کردار ادا کیا۔وہ ڈیلاویئر Ú©ÛŒ نواØ+ÛŒ بستیوں میں گوروں اور سیاہ فاموں میں پیدا ہونے والی تقسیم Ú©Û’ خاتمے Ú©Û’ لئے استØ+کام Ú©ÛŒ علامت بن کر ابھرے ØŒ انہوں Ù†Û’ یکجہتی Ú©Û’ لئے گھر گھر مہم چلائی‘‘۔

    ہوا یوں تھا کہ1954Ø¡ میں امریکی سپریم کورٹ Ù†Û’ ایک بڑے فیصلے Ú©Û’ ذریعے سکولوں میں کالے اور گورے Ú©ÛŒ تقسیم Ú©Ùˆ ختم کرنے کا Ø+Ú©Ù… جاری کر دیا تھا، یہ Ø+Ú©Ù… ایک سیاہ فام عورت مسز برائون Ú©ÛŒ درخواست پر جاری کیا گیاتھا جس Ú©ÛŒ بیٹی Ú©Ùˆ گوروں Ú©Û’ سکول میں داخلے سے روکا گیا تھا جبکہ دیگر سیاہ فام بچوں Ú©Ùˆ سکول Ú©ÛŒ بسوں میں بیٹھنے سے روکا جاتا تھا۔ فیصلے Ú©Û’ فوراََ بعد تصادم Ú©ÛŒ سی کیفیت پیدا ہو گئی تھی لیکن سپریم کورٹ اپنے Ø+Ú©Ù… پر عمل درآمد کرانے میں کامیاب ہو گئی تھی۔ جو بائیڈن Ù†Û’ اس اہم موڑ پر اتØ+اد Ùˆ یگانگت Ú©ÛŒ فضاء قائم رکھنے میں مدد دی تھی۔اس دوران گوروں Ù†Û’ انہیں تنقید کا نشانہ بھی بنایا لیکن وہ انسانی Ø+قوق Ú©Û’ اس مشن سے پیچھے نہ ہٹے بلکہ اس سمت میں انہوں Ù†Û’ کسی بھی دوسرے ڈیمو کریٹ رہنما سے زیادہ کام کیااور یوں قانون پر عمل کرنے والے، انسانی Ø+قوق Ú©Û’ علم بردار Ú©Û’ طور پرابھرے ۔’خواتین پر تشدد Ú©ÛŒ روک تھام‘ سے متعلق ایکٹ Ú©Û’ ایک خالق وہی تھے۔ ’کرائم بل مجریہ1994ء‘ بھی ان Ú©ÛŒ کوششوں سے منظور ہوا تھا۔ امریکہ میں یہ سمجھا جانے لگا کہ ان مسائل پر انہیں عبور Ø+اصل ہے ،اس لئے بہترین Ø+Ù„ بھی وہی پیش کر سکتے ہیں۔’جوڈشیری کمیٹی‘ کا چیئرمین منتخب ہونے Ú©ÛŒ بھی یہی وجہ تھی۔اپنے کاموں Ú©Û’ ذریعے انہوں Ù†Û’ کانگریس میں ٹیکنوکریٹ Ú©Û’ طور پر جگہ بنالی تھی۔ارکان کانگریس کا یہ خیال تھا کہ یہی وہ آدمی ہے جو مسائل کا Ø+Ù„ جانتا ہے۔وہ مخصوص کمرے میں دن بھر کام کرنے Ú©Ùˆ باعث فخر گردانتے۔انہیں پہلی مرتبہ نائب صدارت کا امیدواربھی اسی لئے چنا گیا تھا کہ وہ ایوان نمائندگان Ú©Û’ کام کرنے پر یقین رکھتے ہیں Û” اوباما کا خیال تھا کہ ان Ú©ÛŒ صلاØ+یتوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان اداروں Ú©Û’ کام Ú©Ùˆ مزید بہتر بنایا جا سکتا ہے۔جو بائیڈن کہتے ہیں کہ کوئی معاملہ بھی ناقابل Ø+Ù„ نہیں ہے۔بشرطیکہ آپ اس کا درست Ø+Ù„ پیش کریں‘‘۔


    2gvsho3 - جوانی میں بائیڈن کا عہد ’’ماں میں امریکہ کا صدر بنوں گا ‘‘ ...

  2. #2
    Join Date
    Nov 2014
    Location
    Lahore,Pakistan
    Posts
    25,276
    Mentioned
    1562 Post(s)
    Tagged
    20 Thread(s)
    Rep Power
    214784

    Default Re: جوانی میں بائیڈن کا عہد ’’ماں میں امریکہ کا صدر بنوں گا ‘‘ ..

    2gvsho3 - جوانی میں بائیڈن کا عہد ’’ماں میں امریکہ کا صدر بنوں گا ‘‘ ...

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •