جاپان کا ’’خود کشی دیوتا‘‘ ۔۔۔۔۔ محمد ندیم بھٹی
Japan ka khudkushi devta.jpg
دنیا کی قدیم تہذیبوں میں زندگی اور موت کے الگ دیوتا پائے جاتے تھے، ہر علاقے میں ان کے اپنے نام تھے لیکن سب کام ایک ہی تھا۔ پرانے لوگوں کی ناقص رائے میں یہی دیوتا زندگی اور موت کا کھیل کھیل رہے تھے۔ ایک جان نکالنے پر مامور تھا تو دوسرا زندگی دینے پر ۔ یہ لوگ پہلے خود ہی ان نام نہاد دیوتائوں کی خوفناک تصاویر بناتے ،اور پھر ڈرنا شروع کر دیتے تھے ۔قدیم جاپانیوں کے خیال میں انسان از خود نہیں مر سکتا ۔یہ کام اس کے بس سے باہر کا ہے،کوئی اور طاقت ہے جو اسے پیدا کرتی ہے اور وقت پورا ہونے پر مار دیتی ہے۔ جاپان میں ایک دیوتا ہلاکتوں کا دیوتا کہلاتا تھاجبکہ ''خود کشی کا دیوتا ‘‘ الگ تھا۔
یوں تو موت اپنے وقت پر آتی ہے لیکن اگر انسان خود اپنی مرضی سے مرنا چاہے تو قدیم تصور کے مطابق جونہی کوئی شخص مرنے کا قصد کرتا تھا، یہ دیوتا دل کا راز پا کر اس تک پہنچ جاتا تھا۔اور اس کی مرضی کے مطابق جان نکال کر کہیں گم ہو جاتا ہے۔جاپانی زبان میں اسے ''شینی گامی‘‘ کہا جاتا تھا۔شینی گامی ''شینی‘‘ سے نکلا ہے جو موت کے ہم معنی ہے۔خود کشی کے اس دیوتا کے اور بھی کئی نام تھے ۔ ''جداکرنے والاسنگدل ‘‘،روحانی قاتل اورموت کا فرشتہ بھی ان میں شامل ہیں ۔ جاپانی اسے دیو، بڑی روح اور مددگار سمیت کئی دوسرے ناموں سے بھی پہچانتے ہیں۔ تاہم بدھ مت کا ایک گروہ یہ ماننا ہے کہ ''کج ان ‘‘ یا اونریوبھی جان نکالنے کا کام کرتے تھے ۔یہ دونوں بھی بد روحوں کے ہی نام ہیں۔
بدھ مت کے ایک گروہ کی رائے میں ''مرتیو مارا ‘‘ نامی شیطان موت کا ذمہ دار ہے۔قدیم جاپانیوں کے تصور کے مطابق یہی شیطان انہیں مرنے پر مجبور کرتا ہے ، ان کی خرافات کے مطابق اگر یہ نہ ہو تو کسی جاپانی کو موت بھی نہ آئے۔ایک اور رائے یہ ہے کہ اگر کسی کو اچانک خود ہی مرنے کا خیال آ جائے تو یہ کام اصلی شیطان کا نہیں ہے، یہ کام اس جیسا ہی شیطان شینی گامی سنبھال لیتا ہے۔لیکن یہ بھی شیطان ہی کی قسم ہے تاہم اس کا نام مختلف ہے۔ جاپانی کی قدیم تحریر ''یوگا کارا ‘‘ کے مطابق ''انڈر ورلڈ‘‘ کا بادشاہ ''یاما‘ ہواکرتا تھا،لیکن اس سے بھی یہ کام ٹھیک سے نہیں ہوتا تھا ، اس کی مدد کے لئے ایک اور شیطان تھا، ا س کاچہرہ گھوڑے جیسا اور سر گائے کی مانند تھا لیکن یہ اپنے روپ بدلتا رہتا تھا۔
ایک اور روایت کے مطابق جاپان کے جزائر ''ازنامی ‘‘اور'' ایزناگی‘‘ نامی خلائی دنیا سے تعلق رکھنے والے دیوتائوں نے بنائے تھے۔ شنتو مذہب کے مطابق یہ دیوتا بعد میں دنیا سے واپس چلے گئے۔ایک گروہ کے مطابق ''انزامی ‘‘ دیوتا موت کا ذمہ دار ہے اس گروہ کے مطابق اسے ہی شینی گامی کہا جاتا ہے۔
جاپان میں 1603ء سے 1868ء تک ایک کٹھ پتلی تماشادکھایا جاتا تھا جسے ''ننگیو جوروری‘‘ کہا جاتا تھا ،اس میں شیطانوں کی کہانیاں دیکھنے کو ملتی تھیں۔ یہ دور جاپان میں ''ایڈوپیریڈ ‘‘ کہلاتا ہے ۔ان پتلی تماشوں میں خود کشیوں کا ذکر بھی ملتا ہے۔ہنوئی میں 1706ء میں پرفارم کئے جانے والے ایک ڈرامے میں اداکارشیطان کو موت کی دعوت دیتا ہے۔ ایک اور ڈرامے میں ایک عورت ایک مرد کے ساتھ خود کشی کرنے کاسوچتی ہے تو شیطان آ دھمکتا ہے۔اسے ''ڈبل خود کشی‘‘ کہا جاتا تھا۔
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ جاپانی ادب میں شینی گامی یا اس سے ملتا جلتا کوئی لفظ نہیں ملا۔ ثقافتی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ تصور زمانہ قدیم میں عام ہوتا تو اس کا ذکر کسی ادبی کتاب میں ضرور ملتا۔تاہم کچھ غیر ادبی کتب میں اس کا ذکر موجود ہے جن سے ان دیوتائوں کی موجودگی کو ثابت کرنے کی کوشش ہوتی رہی ہے۔
جاپانی خرافات میں ملنے والے ''موت کے دیوتا‘‘ یورپی تصور سے مختلف ہیں کیونکہ جاپان میں بدھ مت کے ماننے والوں کی کثیر تعداد ان خرافات پر یقین نہیں رکھتی۔ان کے اپنے اپنے تصورات ہیں۔ان کے نزدیک دیوتا یا بت کسی کو زندگی یا موت نہیں دے سکتے، بدھ مت کے ایک گروہ کا خیال ہے کہ زندگی اور موت پر غور کرنا اور کوئی حتمی نتیجہ نکالنا ان کی سوچ سے بالاتر ہے۔