Results 1 to 2 of 2

Thread: کی اُن کی آرزو بھی‘ رہے بے قرار بھی ۔۔۔۔ ایم ابراہیم خان

  1. #1
    Join Date
    Nov 2014
    Location
    Lahore,Pakistan
    Posts
    25,276
    Mentioned
    1562 Post(s)
    Tagged
    20 Thread(s)
    Rep Power
    214784

    Thumbs up کی اُن کی آرزو بھی‘ رہے بے قرار بھی ۔۔۔۔ ایم ابراہیم خان

    کی اُن کی آرزو بھی‘ رہے بے قرار بھی ۔۔۔۔ ایم ابراہیم خان

    یہ دو‘ چار برس Ú©ÛŒ بات نہیں بلکہ سات عشروں کا قصہ ہے۔ پاکستان Ú©ÛŒ تین نسلوں Ù†Û’ امریکا Ú©ÛŒ Ø+اشیہ برداری Ú©ÛŒ ہے اور اس کا نتیجہ بھی بھگتا ہے۔ اہلِ پاکستان Ú©Û’ لیے تو یہ ناکردہ گناہوں Ú©ÛŒ سزا کہلائے Ú¯ÛŒ کیونکہ پالیسیاں وہ نہیں بناتے۔ جنہوں Ù†Û’ ملک Ú©Ùˆ امریکا اور یورپ Ú©Û’ ہاتھوں گروی رکھا اور پژمردہ قسم Ú©ÛŒ پالیسیاں تیار کیں اُن سے تو وہی Ø+ساب کتاب کرسکتا ہے جسے ایک دن Ø+ساب کتاب کرنا ہے۔ ہمارے قائدین ابتدا ہی سے مغرب، بالخصوص امریکا Ú©Û’ آگے جھکے رہے ہیں۔ جب بڑوں Ú©Ùˆ امریکا Ú©Û’ سامنے بھیگی بلی بنتے دیکھا تو عوام Ù†Û’ بھی یہی روش اپنائی۔ آج تک پاکستان Ú©Û’ عوام امریکا سے نفرت بھی کرتے ہیں اور اُس میں آباد ہونے Ú©Û’ خواب بھی دیکھتے رہتے ہیں! اِسے کہتے ہیں دو کشتیوں کا سفر۔ ایسے سفر میں منزل تک پہنچنا Ú©Ù… Ùˆ بیش ناممکن ہوتا ہے۔ ایک زمانے تک ہمارے قائدین Ù†Û’ امریکا Ú©ÛŒ ہر خواہش Ú©Ùˆ بسر Ùˆ چشم تسلیم کرتے ہوئے قوم کا امن Ùˆ سکون اور استØ+کام غارت کیا۔ سلامتی Ùˆ سالمیت دونوں ہی Ú©Ùˆ داؤ پر لگایا گیا۔ ستم بالائے ستم یہ کہ اس پر کبھی Ø+قیقی شرمندگی بھی Ù…Ø+سوس نہیں Ú©ÛŒ گئی۔ ہر قوم Ú©ÛŒ اپنی ترجیØ+ات ہوتی ہیں‘ پالیسیاں ضرورتوں Ú©Û’ مطابق مرتب Ú©ÛŒ جاتی ہیں اور ترجیØ+ات Ú©Ùˆ ہر Ø+ال میں ملØ+وظِ خاطر رکھا جاتا ہے۔ Ø+الات Ú©Û’ تناظر میں ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا اب بھی ہمارے قائدین Ú©ÛŒ آنکھیں نہ کھلیں گی؟ وقت آگیا ہے کہ پالیسیاں تبدیل Ú©ÛŒ جائیں، نئی پالیسیاں خود بنائیں۔ ہمیں اپنے مسائل خود Ø+Ù„ کرنا ہیں۔ دوسروں Ú©ÛŒ مرضی Ú©Û’ تابع نہ رہتے ہوئے ہمیں جو Ú©Ú†Ú¾ بھی کرنا ہے اپنے بل پر کرنا ہے۔ قائدین روش بدلیں Ú¯Û’ تو قوم Ú©ÛŒ روش بھی تبدیل ہوگی۔ وقت Ù†Û’ کروٹ بدلی ہے تو اب کوئی بھی خطہ تبدیلیوں سے Ù…Ø+فوظ نہیں رہا۔ آج Ú©ÛŒ دنیا میں کوئی بھی انسان اور کوئی بھی علاقہ جزیرہ نہیں۔ سبھی مل جل کر ایک سمندر Ú©ÛŒ صورت ہیں۔ اس سمندر میں سب Ú©Ùˆ ساتھ ساتھ رہنا ہے۔ الگ تھلگ رہنے Ú©ÛŒ گنجائش ہے نہ ضرورت۔ ایک دوسرے Ú©Ùˆ اپنائے بغیر ہم معیاری انداز سے زندگی بسر کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ تیزی سے بدلتے ہوئے علاقائی Ùˆ عالمی Ø+الات کا تقاضا ہے کہ نئی زندگی تلاش Ú©ÛŒ جائے۔ اس نئی زندگی میں سبھی Ú©Ú†Ú¾ نیا ہونا چاہیے۔ کسی ایک پہلو سے بھی طرزِ کہن جھلکنی نہیں چاہیے۔ اب کسی ایک معاملے میں بھی پرانی روش پر گامزن رہنے Ú©ÛŒ گنجائش نہیں۔
    سیاست، سفارت، معیشت اور معاشرت میں پرانے انداز Ùˆ اطوار ترک کرکے نئی طرزِ فکر Ùˆ عمل اپنانے Ú©ÛŒ ضرورت ہے۔ اب جو Ú©Ú†Ú¾ بھی کرنا ہے اپنے بل کر پر کرنا ہے۔ بیرونی امداد صرف ناگزیر Ø+الت میں قبول Ú©ÛŒ جائے۔ ہم عالمی برادری کا Ø+صہ ہیں۔ دوسروں سے Ú©Ù¹ کر رہنا ممکن نہیں مگر قومی غیرت کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے بل پر جینے Ú©ÛŒ کوشش کریں۔ اقوامِ عالم میں Ø+قیقی اور بے مانگا اØ+ترام پانے Ú©ÛŒ یہی ایک صورت ہے۔ جب امریکا اور یورپ Ú©ÛŒ طاقت بے مثال تھی تب ہمارے پاس بظاہر کوئی متبادل نہیں تھا اس لیے ان Ú©ÛŒ Ø+اشیہ برداری Ú©Ùˆ مجبوری Ú©Û’ ذیل میں رکھا جائے؛ تاہم اب بہت Ú©Ú†Ú¾ بدل چکا ہے۔ پُلوں Ú©Û’ نیچے سے خاصا پانی بہہ چکا ہے۔ امریکا اور یورپ Ú©ÛŒ طاقت میں Ú©Ù…ÛŒ واقع ہو رہی ہے۔ چین اور روس تیزی سے ابھر رہے ہیں۔ جاپان اگرچہ طاقتور ہے مگر اب تک امریکا Ú©Û’ ساتھ ہے‘ وہ اپنے دفاع Ú©Û’ لیے بھی بہت Ø+د تک امریکا پر انØ+صار کرتا ہے۔ Ú©Ù„ Ú©ÛŒ طاقتیں اب کمزوری سے دوچار ہیں۔ ایسے میں عالمی سیاست Ú©Û’ خد Ùˆ خال کا تبدیل ہونا لازم ہے۔ اور ایسا ہو بھی رہا ہے۔
    ہم Ù†Û’ ایک زمانے تک جس امریکا Ú©Ùˆ اپنا سمجھا ہے اور جس Ú©Û’ لیے بہت Ú©Ú†Ú¾ جھیلا ہے اُسے اب صرف اپنی فکر لاØ+Ù‚ ہے۔ صدر Ú©ÛŒ Ø+یثیت سے ڈونلڈ ٹرمپ Ú©Û’ چار سالہ دور میں امریکی پالیسیوں میں بہت سی ایسی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں جن کا Ú©Ù„ تک سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا۔ ٹرمپ Ù†Û’ ''سب سے پہلے امریکا‘‘ کا نعرہ بلند کیا اور دنیا پر جتادیا کہ اب امریکا اندرونی اصلاØ+ Ú©ÛŒ طرف مائل ہے۔ امریکیوں Ú©Ùˆ گھر Ú©ÛŒ فکر لاØ+Ù‚ ہے کیونکہ بہت سے مسائل شدت اختیار کرچکے ہیں۔ ان Ú©ÛŒ بڑھتی ہوئی پیچیدگی پالیسیاں تبدیل کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔ امریکی قیادت Ù†Û’ بیرونِ ملک جو سیاسی Ùˆ عسکری مہم جوئیاں Ú©ÛŒ ہیں اُن Ú©Û’ نتیجے میں ملک دنیا بھر میں بدنام ہوا ہے۔ کسی بڑی طاقت کا اØ+ترام اگر صرف خوف Ú©ÛŒ بنیاد پر ہو تو عوام Ú©Ùˆ Ú©Ú†Ú¾ زیادہ مل نہیں پاتا۔ امریکیوں کا یہی معاملہ ہے۔ بیرونی قوتوں Ú©ÛŒ Ø+اشیہ برداری کا دور لَد گیا۔ یہ جاگنے کا وقت ہے۔ ایسے میں خوابیدہ رہنے Ú©ÛŒ گنجائش نہیں۔ گراں خواب چینی صرف بیدار نہیں ہوئے بلکہ ایک دنیا Ú©Ùˆ بیدار کرنے پر کمر بستہ ہیں۔ ایک طویل مدت Ú©Û’ بعد کوئی نئی طاقت ابھری ہے اور کمزور پڑتی ہوئی عالمی طاقتوں Ú©Û’ گرد گھیرا تنگ کر رہی ہے۔ بہتر یہی ہے کہ اپنی پسندیدہ روش Ú©Û’ مطابق چین Ú©Û’ ساتھ ہولیں۔ اتنی بڑی طاقت Ú©Ùˆ نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔ سات سمندر پار Ú©ÛŒ طاقتوں Ú©Û’ بھروسے پر جینا کسی بھی اعتبار سے دانش کا مظہر نہیں۔
    امریکا اور یورپ Ú©ÛŒ کاسہ لیسی Ù†Û’ ہمیں کیا دیا؟ Ú©Ú†Ú¾ بھی نہیں! اور دوسری طرف ہم Ù†Û’ بہت Ú©Ú†Ú¾ Ù„Û’ لیا ہے۔ سب سے پہلے تو قومی Ø+میت Ú©Ùˆ روئیے۔ مغرب Ú©Û’ بل پر جینے Ú©ÛŒ کوشش ہمیں قومی Ø+میت سے Ù…Ø+روم کرگئی ہے۔ آج Ú©ÛŒ دنیا میں چیلنجز نئے اور زیادہ ہیں۔ ہر چیلنج ایسا ہے کہ نمٹنے میں ناکام رہیے تو بقا کا مسئلہ کھڑا ہو جائے۔ ایسے میں وقت ضائع کرنے Ú©ÛŒ گنجائش ہے نہ جدید دور Ú©Û’ تقاضوں سے ہم آہنگ نہ ہونے کی۔ بہت Ú©Ú†Ú¾ کرنا ہے اور اس طور کرنا ہے کہ مسائل Ø+Ù„ ہوں۔ دل بہلانے Ú©Û’ سے انداز سے Ú©ÛŒ جانے والی کوششوں کا زمانہ لد گیا۔ اکیسویں صدی کا ہر چیلنج لاجواب ہے، بے مثال ہے۔ ایسے میں، ظاہر ہے کہ، ہماری ہرکوشش بھی لاجواب نوعیت Ú©ÛŒ ہونی چاہیے۔ امتِ مسلہ پر صدیوں سے جمود طاری ہے۔ ماضی Ú©ÛŒ خرابیوں Ú©Ùˆ یاد کرکے رونا اور جلنا کُڑھنا ہمارے Ø+صے میں بھی آیا ہے مگر یہ کوئی بہت پسندیدہ روش نہیں۔ بہت Ú©Ú†Ú¾ کرنا ہے اور تیزی سے کرنا ہے۔ ایسے میں ماضی Ú©ÛŒ اچھی باتوں Ú©Ùˆ یاد کرکے خوش فہمی Ú©Û’ گھونٹ پینا اور تلخ باتوں Ú©Ùˆ یاد کرکے جلنا کُڑھنا کسی طور سودمند نہیں۔ لمØ+ۂ موجود میں رہتے ہوئے جینا ہی ہمارے مسائل Ú©Û’ Ø+Ù„ Ú©ÛŒ راہ ہموار کرے گا۔ سات عشروں تک ہم Ù†Û’ امریکا اور یورپ Ú©ÛŒ نازبرداری کی۔ اب ایسا Ú©Ú†Ú¾ بھی کرنے Ú©ÛŒ گنجائش نہیں۔ جو Ú©Ú†Ú¾ ہم Ù†Û’ امریکا اور یورپ Ú©Û’ Ø+والے سے کیا اُس Ù†Û’ ہمارے لیے الجھنیں بڑھائی ہیں، گھٹائی نہیں۔ آج بھی ہم سات عشروں Ú©Û’ دوران اپنی پالیسیوں Ú©Û’ ہاتھوں پیدا ہونے والی خرابیوں کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ ہمیں کئی مواقع پر استعمال کرکے پھینک دیا گیا۔ ہمارے وسائل Ú©Ùˆ بے دریغ استعمال کیا گیا اور اس Ú©Û’ نتیجے میں جو خسارہ پیدا ہوا وہ ہمارے Ø+صے میں آیا۔ ایسا تو ہونا ہی تھا کیونکہ ع
    اِس طرØ+ تو ہوتا ہے اِس طرØ+ Ú©Û’ کاموں میں
    اب کسی بھی ابھرتی ہوئی طاقت Ú©ÛŒ ہم نوائی Ú©Û’ معاملے میں ہمیں قومی Ø+میت Ú©Ùˆ مقدم رکھنا ہے۔ بین الاقوامی تعلقات ہمیں اگر Ú©Ú†Ú¾ دے سکتے ہیں تو صرف اُس وقت جب ہم قومی غیرت Ú©Ùˆ داؤ پر نہ لگائیں۔ کسی بھی نئی طاقت سے بہتر تعلقات برابری Ú©ÛŒ سطØ+ پر اُستوار ہونے چاہئیں۔ وگرنہ ہمیں پھر خسارے سے دوچار ہونا Ù¾Ú‘Û’ گا۔ ایسا نہ ہو کہ ہم پھر کسی Ú©ÛŒ آرزو کریں اور بے قرار بھی رہیں۔ اگر کسی Ú©Û’ دامن سے وابستہ ہونا ہے تو اØ+ترام ملØ+وظِ خاطر رہے۔ کوئی ہمیں استعمال کرکے پھینکنے کا تصور نہ کرے۔ قومی تقاضوں سے ہم آہنگ پالیسیاں مرتب کرنا تنے ہوئے رسے پر چلنے جیسا عمل ہے اور اب ہمیں اس مرØ+Ù„Û’ سے گزرنا ہے۔



    2gvsho3 - کی اُن کی آرزو بھی‘ رہے بے قرار بھی ۔۔۔۔ ایم ابراہیم خان

  2. #2
    Join Date
    Nov 2014
    Location
    Lahore,Pakistan
    Posts
    25,276
    Mentioned
    1562 Post(s)
    Tagged
    20 Thread(s)
    Rep Power
    214784

    Default Re: کی اُن کی آرزو بھی‘ رہے بے قرار بھی ۔۔۔۔ ایم ابراہیم خان

    2gvsho3 - کی اُن کی آرزو بھی‘ رہے بے قرار بھی ۔۔۔۔ ایم ابراہیم خان

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •