شخصیت کی تعمیر کا مکمل پروگرام ۔۔۔۔۔۔۔ تحریر : انتھونی رابنز
Shakhasiyat ki Tameer ka mukamal program.jpg
جب آپ بہترین شے کے علاوہ کوئی بھی شے لینے سے انکار کرتے ہیں تو آپ کو بہترین شے ہی ملتی ہے۔( سمرسٹ ماہم)
چیزیں نہیں بدلتی، ہم بدل جاتے ہیں۔( ہنری ڈیوڈ تھورائو )
این ایل پی(NLP) کے مفروضوں میں سے ایک مفروضہ یہ ہے کہ ہم سب کی بنیادی فزیالوجی، جسمانیات یا فعلیات ایک ہی ہوتی ہے۔ چنانچہ اگر دنیا میں کوئی بھی انسان کوئی کام کرسکتا ہے تو دوسرے بھی کرسکتے ہیں لیکن اس کیلئے اسے اپنے اعصابی نظام یعنی نروس سسٹم کو انہی کی طرح چلانا ہوگا اور اس کیلئے وقت اور کوشش کی صورت میں قیمت ادا کرنا ہو گی۔ درحقیقت ہم ہروقت دوسروں کو اپنے لیے مثال بناتے ہیں ۔ بچہ کس طرح بولنا سیکھتا ہے؟ ایک شہر میں کامیاب ہونے والا کاروبار ایک خاص مدت کے بعد اس قسم کے دوسرے شہر میں بھی کامیاب ہوسکتا ہے۔
جو لوگ کامیاب ہوتے ہیں ان کیلئے مشکلات ان لوگوں سے کم نہیں ہوتیں جو ناکام ہوتے ہیں۔ ہمارے ساتھ جو کچھ ہوتا ہے وہ ہماری ناکامی کی وجہ سے نہیں ہوتا۔ اصل میں ہمارے ساتھ جو کچھ ہوتا ہے ہم اس کو کس طرح سمجھتے ہیں اور کس طرح نہیں سمجھتے یہی اصل میں وہ چیز ہے جو فرق پیدا کرتی ہے ۔
طویل عرصہ قبل میں نے جان لیا تھا کہ کامیابی سراغ چھوڑ جاتی ہے اور جو لوگ غیر معمولی نتائج پیدا کرتے ہیں ، وہ اصل میں ان نتائج کو پیدا کرنے کیلئے مخصوص کام کرتے ہیں۔ میرا یقین ہے کہ اگر میں دوسرے لوگوں کے افعال کی ٹھیک ٹھیک پیروی کروں یا نقل اتاروں تو میں اسی معیار کے نتائج پیدا کرسکتا ہوں جو انہوں نے پیدا کیے تھے۔ اس کو 'ماڈلنگ‘ کہتے ہیں۔ اگر دنیا میں دوسرے لوگوں کیلئے یہ کام ممکن ہے تو آپ کیلئے بھی ممکن ہے۔
رچرڈ بینڈلر اور جان گرنڈر جو کہ این ایل پی (نیورولنگوسٹک پروگرامنگ) کے شریک بانی ہیں انہوںنے دریافت کیا کہ ان ذہنی اور جسمانی افعال کی تین صورتیں ہیں جو ان نتائج سے براہ راست رابطہ کرتے ہیں جو کہ ہم پیدا کرتے ہیں۔ دوسروں کواپنے لیے مؤثر طریقے سے مثال یا ماڈل بنانے کے لیے درج ذیل بنیادی اجزاء کو نقل کرنا ہوگا:
1۔نظام ایقان(Belief System): چاہے آپ یہ سمجھتے ہیں کہ آپ فلاں کام کرسکتے ہیں اور چاہے آپ سمجھتے ہیں کہ آپ فلاں کام نہیں کرسکتے۔ آپ ٹھیک سمجھتے ہیں۔
2۔ذہنی قاعدہ (Mental Syntax):وہ طریقہ جس سے لوگ اپنی سوچوں کو منظم کرتے ہیں۔ ذہنی قاعدہ کوڈ انگریڈینٹس (Code- ingredients) اور آرڈر کی طرح ہے۔
3۔ جسمانیات (Physiology): ذہن اور جسم مکمل طو رپر ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں۔ آپ جس طرح اپنے جسم کو استعمال کرتے ہیں۔ جس طرح سانس لیتے اوراپنے جسم کو قابو میں رکھتے ہیں ۔ آپ کی نشست وبرخاست، چہرے کے تأثرات، آپ کی حرکات کی صورت اور معیار وغیرہ۔ یہ سب چیزیں اس بات کا تعین کرتی ہیں کہ آپ کس حالت میں ہیں۔ اس کے بعد آپ جس حالت میں ہوں گے ،وہ ان رویوں کی رینج اور کوالٹی کا تعین کرے گی جو آپ پیدا کرنے کے قابل ہیں۔درحقیقت ہم ہر وقت دوسروں کو اپنے لیے ایک مثال بنانے یعنی ماڈلنگ میں مصروف ہیں۔ بچہ کس طرح بولنا سیکھتا ہے؟ ہم ایک ایسے کلچر یا ماحول میں رہتے ہیں جو اس قدر تسلسل کا حامل ہوتا ہے کہ جو چیز ایک جگہ کام کرتی ہے، وہ اکثر دوسری جگہ بھی کام کر سکتی ہے۔ مشکلات سے آزاد لوگ صرف قبرستانوں میں ملتے ہیں ۔
ماڈلنگ کی مشقیں:اپنے آس پاس دیکھیں اور کسی ایسے فرد کو تلاش کریں جو زندگی کے کسی بھی شعبے چاہے یہ ذاتی شعبہ ہے یا کوئی پیشہ وارانہ شعبہ، میں بھرپور مہارت اورکمال حاصل کرچکا ہے۔ آپ کو اس فرد کی زندگی کے تمام پہلوئوں سے متاثر ہونے کی ضرورت نہیں۔ کوئی انسان کاروبار کے حوالے سے تیر طراز اور ہوشیار ہوسکتا ہے لیکن ہوسکتا ہے کہ ایک شادی شدہ انسان(میاں یا بیوی) ہونے کے حوالے سے اس کی کارکردگی اس قدر قابل رشک نہ ہو۔ یا رکھیں کہ آپ اس میں شاندار خصوصیات کوتلاش کررہے ہیں۔ اگر آپ قریب سے جائزہ لیں تو ہر انسان کی پوری زندگی اس قدر قابل رشک نہیں ہوسکتی کہ آپ کے لیے نمونہ بن سکے۔ اگر آپ کو کسی انسان میں کوئی ایسی خوبی دکھائی دے جس کو آپ اپنے اندر لانا چاہتے ہیں تو ایسے سولات پوچھنا شروع کردیں جو کہ اس انسان کے نظام ایقان (Belief system)سے متعلقہ ہوں۔ ماڈلنگ کی بنیاد کسی انسان کے نظام ایقان میں ہوتی ہے۔ اس انسان سے پوچھیں کہ وہ اپنی کامیابی کے اس شعبے جس کو آپ نقل کرنا چاہتے ہیں، کے بارے میں کیا یقین رکھتا ہے۔
مثال کے طورپر آپ کسی انسان کی شادی شدہ زندگی سے متأثر ہیں اور آپ یہ سوال پوچھنا چاہتے ہیں کہ خاوند کے طور پر وہ ایسا کیا کرتا ہے کہ اسے اپنی بیوی کا اس قدر پیار اور احترام حاصل ہوتا ہے۔ چنانچہ آپ پوچھیں گے: 'سام، تمہارا ایسا کیا یقین ہے کہ تم نے خود کو اتنا اچھا خاوند بنایا ہے؟‘
اس کے جواب میں سام شاید کہے: 'مجھے نہیں پتہ‘ لیکن میرا خیال ہے کہ میں خوش قسمت ہوں‘۔
چنانچہ آپ کو مزید سوال پوچھنا ہوگا: ' اچھا‘ اگر تمہیں پتہ ہوتا کہ تم اپنی شادی کے بارے میں اور اپنی بیوی کے بارے میں ان باتوں کو جانتے ہو جن کی وجہ سے تمہاری شادی اس قدر کامیاب ہے تو وہ کیا باتیں ہونگی؟‘ اب سوال کہ ' اگر تمہیں پتہ ہوتا کہ... کے جواب میں سام سوچنے لگ جاتا ہے اور اپنی شعوری آگاہی سے بھی آگے بڑھ کرسوچتا ہے اور ان باتوں کو سامنے لانے میں کامیاب ہوجاتا ہے جن کا کچھ دیر تک اسے علم نہیں تھا۔ اگر وہ بار بار 'مجھے نہیں پتہ‘ کہتا ہے تو آپ کو یہی سوال ایک سے زائد مرتبہ پوچھنے کی ضرورت ہو گی۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ آپ مسلسل اپنی دلچسپی اور تجسس کا اظہار کرتے ہوئے اس کی کامیاب ازدواجی زندگی کی تعریف بھی کرتے جارہے ہیں حتیٰ کہ وہ اپنے اس یقین یا بات کے بارے میں آپ کو بتانے پر مجبور ہوجائے گا جس نے اس کی شادی کو کامیاب بنایا ہے۔'وہ کہے گا:
'اچھا‘ میرا خیال ہے کہ میں سوچتا ہوں کہ میری بیوی کتنی زبردست انسان ہے‘۔ یا میں سوچتا ہوں، 'اگر وہ نہ ہوتی تو میں کہاں ہوتا‘۔ وہ زندگی کے ہر معاملے میں میرا ساتھ دیتی ہے۔ میں اس کے لیے سب کچھ کرسکتا ہوں‘۔
لوگ اتفاقیہ طو رپر کامیاب نہیں ہوجاتے۔ یہ طاقتور ایقان ان کی کامیابی کی بنیاد بنتے ہیں۔ ان ایقان کو دریافت کریں۔ اب اپنے ماڈل کیلئے ایک اور فرد کو تلاش کریں ۔جس نے کسی مختلف پہلو میں کامیابی حاصل کی ہو۔ اس کے اعتقادات اور ایقان کو کاپی کریں۔
ان افراد کے ایسے اعتقادات اور ایقان کو جانیں جوان کی زندگی میں بہتری اور فرق لانے کا سبب بنے ہوں۔ ان کو لکھ لیں یا کمپیوٹر پرنٹ نکال لیں اور ان کو اپنے گھر یا گاڑی میں کسی نمایاں جگہ پر آویزاں کردیں تاکہ آپ کو ان ایقان کے بارے میں یاد دہانی رہے جن کو آپ اپنے اندر لانا چاہتے ہیں ۔ مبارک ہو:آپ اس آگہی کی طرف پہلا قدم بڑھا چکے ہیں (مترجم:محمد اختر)