Results 1 to 2 of 2

Thread: کون سوچے‘ کون کرے؟ ۔۔۔۔ رسول بخش رئیس

  1. #1
    Join Date
    Nov 2014
    Location
    Lahore,Pakistan
    Posts
    25,276
    Mentioned
    1562 Post(s)
    Tagged
    20 Thread(s)
    Rep Power
    214784

    Thumbs up کون سوچے‘ کون کرے؟ ۔۔۔۔ رسول بخش رئیس

    کون سوچے‘ کون کرے؟ ۔۔۔۔ رسول بخش رئیس

    اس بے چاری قوم Ù†Û’ خود سوچنے‘ پرکھنے‘ سمجھنے اور کرنے Ú©ÛŒ آزادی اور صلاØ+یت Ú©Ú¾Ùˆ دی ہے۔ بے چاری اور بے چارے وہ ہوتے ہیں‘ جو اپنا راستہ Ú©Ú¾Ùˆ بیٹھیں‘ آگے دیکھنے Ú©ÛŒ اہلیت اور ادراک Ú©ÛŒ نعمت سے Ù…Ø+روم ہو جائیں‘ اپنی عقل پر خود ہی بھاری پتھر ڈالے رکھیں یا اوروں Ù†Û’ جن Ú©ÛŒ عقل پر بھاری پتھر ڈال دیے ہوں۔ یہ بالکل واضØ+ ہے کہ اگر عام آدمی اپنی ذاتی زندگی Ú©Û’ لئے دوسروں Ú©ÛŒ راہبری کا Ù…Ø+تاج ہو تو اجتماعی نوعیت Ú©Û’ مسائل Ú©ÛŒ جانکاری اور ان Ú©Û’ Ø+Ù„ Ú©Û’ لئے کیسے اور کس Ø+د تک اس Ú©ÛŒ قابلیت پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے۔ ہر شہر‘ قصبے اور دیہات Ú©Û’ Ú¯Ù„ÛŒ Ù…Ø+لوں میں نام نہاد مولوی‘ پیر فقیر اور وڈیرے دربار لگائے بیٹھے ہیں‘ جہاں سائلوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ اخباروں‘سوشل میڈیا اور ٹیلی ÙˆÚ˜Ù† میں غریب عوام Ú©Û’ روØ+انی‘ جسمانی‘ ذہنی‘ نفسیاتی بلکہ ہر قسم Ú©Û’ امراض کا علاج ''مفید مشوروں‘‘ Ú©Û’ ذریعے کیا جاتا ہے۔ Ù…Ø+سوس یہ ہوتا ہے کہ سارا معاشرہ ہی بنگالی بابائوں Ú©Û’ جادو Ú©Û’ زیرِ اثر بیمار بھی Ù¾Ú‘ رہا ہے اور انہی Ú©Û’ زیرِ علاج بھی رہتا ہے۔ عقل جواب دے جائے‘ خود پر بھروسہ نہ رہے اور اعتماد برقرار نہ رہے تو دوسروں کا سہارا اور ہاتھ تلاش کرنا پسماندہ معاشروں کا شیوہ بن جاتا ہے۔ یہ رویے فطری نہیں‘ اس لئے کہ ہر انسان Ú©Ùˆ قدرت Ù†Û’ فہم Ùˆ فراست‘ عقلِ سلیم اور شعور Ú©ÛŒ دولت سے نوازا ہے۔ یہ صلاØ+یتیں ماند Ù¾Ú‘ جاتی ہیں یا سرے سے ارتقائی منزلیں Ø·Û’ ہی نہیں ہو پاتیں‘ نہ ہی کسی قسم Ú©ÛŒ ترقی ممکن ہوتی ہے اگر انسان Ú©Û’ سینے Ú©Ùˆ علم Ú©Û’ نور سے منور نہ کیا جائے۔ روشنی ہوتی ہے تو ارد گرد کا ماØ+ول Ú†Ù…Ú© اٹھتا ہے۔ تعلیم ہو Ú¯ÛŒ تو عقل Ùˆ شعور کا انسانی سرمایہ اپنا جوہر دکھا سکے گا۔
    ہمارے اعلیٰ طبقات میں غریب اور ان Ù¾Ú‘Ú¾ عوام سے دکھاوے Ú©ÛŒ Ù…Ø+بت اور اپنائیت Ù…Ø+ض سیاسی جلسوں تک ہی Ù…Ø+دود رہتی ہے۔ پچاس اور تیس سال تک اور چار سے Ú†Ú¾ بار تک Ø+کومت کرنے والوں سے یہ سوال کرنا جمہوریت Ú©ÛŒ توہین ہے کہ آپ Ù†Û’ اقتدار میں رہ کر غریب Ú©Û’ بچوں Ú©Ùˆ تعلیم سے کیوں Ù…Ø+روم رکھا؟ ایسا ہرگز نہیں‘ اور ایک طبقے میں تو غریب اور ان Ù¾Ú‘Ú¾ Ú©Û’ خلاف کسی Ø+د تک سینوں میں Ú†Ú¾Ù¾ÛŒ ناگواریت بھی ہے۔ ہمارے ''جدید‘‘ کھاتے پیتے‘ خوش پوش اور مخصوص علاقوں میں مقیم لوگوں Ú©ÛŒ کوشش ہوتی ہے کہ غریب کہیں قریب بھی نہ آئے‘ آئے تو صرف گاڑیاں دھونے‘ گھر صاف کرنے‘ کھانا پکانے اور کوڑا کرکٹ اٹھانے۔ یہ سب آقا اور غلام کا پرانا کھیل ہے جو نئے زمانوں میں نئے طریقوں سے کھیلا جا رہا ہے۔ چونکہ مدرس اور استاد ہوں؛ چنانچہ یہ جانتا ہوں کہ انسان Ú©ÛŒ آزادی صرف قانون میں Ù„Ú©Ú¾ دینے سے نہیں‘ تعلیم سے ہی ممکن ہو سکے گی۔ معاشی طور پر Ù…Ø+تاج ہونا اور فکری راہنمائی Ú©Û’ لئے کسی اور کا سہارا تلاش کرنا کیسے انسان Ú©Ùˆ آزاد رکھ سکتا ہے؟ یہ کہنا تو Ú©Ú†Ú¾ مبالغہ ہو گا کہ ہمارے Ø+کمران طبقوں Ù†Û’ منصوبہ بندی کر Ú©Û’ ہمارے زیادہ تر عوام Ú©Ùˆ ان Ù¾Ú‘Ú¾ رکھا ہے؛ تاہم یہ بات تو وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ ان Ú©Û’ دل میں غریب Ú©Û’ لئے کوئی درد‘ اØ+ساس اور Ù…Ø+بت Ú©ÛŒ کوئی رمق ہوتی تو تہتر سال بعد ہماری خواندگی Ú©ÛŒ شرØ+ سو فیصد کیوں نہیں ہو سکتی تھی؟ Ú©Ú†Ú¾ نہ کر سکیں تو بے تکے عذر اور بہانے Ú¯Ú¾Ú‘Û’ جاتے ہیں‘ جو Ú©Ú†Ú¾ نہ کرنے سے بھی بد تر فعل ہے۔ باریاں لینے والے فرماتے ہیں: اقتدار کبھی مکمل طور پر منتقل نہیں ہوا‘ تو پھر سوال یہ ہے کہ آخر جانتے بوجھتے ہوئے ایسا اقتدار کیوں لیا‘ جو آپ Ú©Ùˆ صاف پانی فراہم کرنے‘ سکول کھولنے‘ تعلیم کا معیار بہتر کرنے اور لوگوں Ú©Ùˆ صØ+ت Ú©ÛŒ سہولت فراہم کرنے میں بھی رکاوٹ بنا رہا۔
    جمہوریت اور آمریت میں فرق یہ ہے کہ جمہوریت میں سوال اٹھانا جائز بلکہ ضروری ہے۔ آمریت میں اس Ú©ÛŒ اجازت نہیں ہوتی۔ سوال تو ہم اٹھاتے رہیں Ú¯Û’ کہ اب یہ ذمہ داری ہم سب Ú©ÛŒ ہے۔ سیاست Ú©Û’ کھیل Ú©Û’ میدان میں اترے کھلاڑیوں Ú©Û’ کرداروں Ú©Ùˆ ان Ú©Û’ اصلی رنگوں میں کسی خوف اور لالچ Ú©Û’ بغیر پیش کر دینے کا مقصد اØ+تساب اور جواب دہی ہے۔ جب عوام تعلیم اور ترقی Ú©ÛŒ بدولت کبھی کثرت سے اور ہر گائوں‘ Ù…Ø+Ù„Û’ اور جلسے میں سوال اٹھائیں Ú¯Û’ تو میں یقین سے کہتا ہوں کہ نسلوں سے ہمارے اوپر اترنے والے موروثی سیاسی کھلاڑی وطن عزیز میں کہیں کونوں میں یا باہر Ú©Û’ ملکوں Ú©ÛŒ سیر گاہوں میں شاید آپ Ú©Ùˆ نظر آئیں۔ آزادی Ú©Û’ اولین اور ارتقائی ادوار میں ہم Ù†Û’ دیکھا ہے کہ سوال کرنے والوں کا Ø+شر برا ہوا۔ ان پر الزام لگے‘ قید Ùˆ بند Ú©ÛŒ صعوبتیں انہیں برداشت کرنا پڑیں‘ Ú©Ú†Ú¾ Ù†Û’ Ú©ÙˆÚ‘Û’ بھی اپنی پیٹھ پر برداشت کئے‘ مگر وہ سب ہمارے لئے چراغِ راہ اور ایک روشن مثال ہیں۔ آج Ø+الات قدرے بہتر ہیں‘ مگر فرق یہ ہے کہ آپ سوال پہ سوال کرتے رہیں‘ تبصرے کریں یا تبرے پڑھیں‘ کسی Ú©Û’ کانوں پر جوں نہیں رینگتی‘ کوئی ٹس سے مس نہیں ہوتا۔ ہر Ø+کومت Ù†Û’ عوامی نمائندگی کا سہارا Ù„Û’ کر سب سوال کرنے والوں Ú©Ùˆ خاموش کرنے Ú©ÛŒ ٹھان لی۔ کیا پُر فریب نعرے بازی کا ہم شکار رہے ہیں ''عوام ہمارے ساتھ ہیں‘‘۔ اگر ایسا ہی ہے تو پھر نہایت عجیب عوام ہیں جو ہر سیاسی جماعت Ú©Û’ ساتھ رہے ہیں اور رہتے ہیں۔
    یقین جانیں یہ سب فریب کاریاں ہیں‘ دولت اور طاقت Ú©Û’ ارتکاز Ú©ÛŒ سرمستیاں ہیں۔ سیاست میں خصوصاً مگر ہر میدانِ Ø+یات میں کردار سے لوگ جانے اور پرکھے جاتے ہیں۔ کردار نہ ہو تو سب سرمایہ‘ سب طاقت اور سب اقتدار Ú©Û’ قلعے فقط بے سود مٹی کا ڈھیر ہیں۔ چنائو اور انتخاب کا فلسفہ تو Ú©Ú†Ú¾ اور ہے کہ ہم ان لوگوں Ú©Ùˆ مسندِ اقتدار پر بٹھائیں‘ جو ہماری نمائندگی Ú©Û’ قابل ہوں‘ مخلص ہوں‘ امانت دار ہوں اور خدمتِ خلق Ú©Û’ جذبے سے ان Ú©Û’ دل معمور ہوں۔ عمل اس فلسفے Ú©Û’ مطابق ہو تو اقوام Ú©ÛŒ تقدیریں بدل جاتی ہیں۔ مغربی معاشرے اس لئے بہترین ہیں کہ وہاں عوام Ù†Û’ ارتقائی شعور Ú©ÛŒ کئی منزلیں Ø·Û’ کر Ù„ÛŒ ہیں۔ وہ تجربے‘ تجزیے اور مشاہدے سے کام لیتے ہیں۔ امریکہ Ú©ÛŒ تاریخ میں غالباً یہ تیسری یا چوتھی بار ہوا ہے کہ صدر اقتدار میں رہتے ہوئے دوبارہ منتخب نہیں ہو سکا۔ ان Ú©Û’ Ø+ریف Ù†Û’ پینتالیس لاکھ ووٹ زیادہ لئے ہیں۔ صدر ٹرمپ Ù†Û’ بھی چار سال پہلے Ú©ÛŒ نسبت اس بار زیادہ لوگوں Ú©ÛŒ Ø+مایت Ø+اصل Ú©ÛŒ ہے۔ جب بے چینی‘ تضادات اور فکرمندی معاشرے میں بڑھتی ہے تو لوگ ''لانگ‘‘ مارچ نہیں کرتے بلکہ بارش اور سردی میں گھنٹوں قطاروں میں Ú©Ú¾Ú‘Û’ رہ کر اپنا Ø+قِ رائے دہی استعمال کرتے ہیں۔ امریکہ Ú©ÛŒ دو سو چالیس سالہ تاریخ میں یہ دوسری مرتبہ ہے کہ ابھی تک صدر Ù†Û’ اپنی ہار ماننے سے انکار کیا ہے‘ عدالتوں کا رخ کیا ہے‘ مگر نوشتۂ دیوار بالکل جلی Ø+روف میں تØ+ریر ہے‘ اندھے بھی Ù¾Ú‘Ú¾ سکتے ہیں۔
    مقیم صدر Ú©Û’ ہارنے Ú©ÛŒ کئی وجوہات ہیں‘ مگر ان Ú©ÛŒ بد کلامی‘ دروغ گوئی‘ وہ بھی ہمیشہ سینی تان کر‘ دوغلا پن اور بد کرداری امریکہ اور دنیا Ú©Û’ کونے کونے میں جو زبان زدِ عام Ùˆ خاص رہی‘ Ù†Û’ بالآخر انہیں مسندِ اقتدار سے اچک کر باہر پھینک دیا۔ اپنے Ø+کمرانوں Ú©Û’ کرداروں Ú©ÛŒ بات کریں۔ نہ وہ جھوٹ بولتے ہیں‘ نہ وہ کرپٹ اور اول درجے Ú©Û’ Ù†Ú©Ù…Û’ ہیں‘ نہ ان Ú©Û’ باہر Ú©Û’ بینکوں میں بھاری کھاتے ہیں اور نہ ہی پانامہ Ú©ÛŒ گمنام کمپنیوں میں سرمایہ ہے‘ نہ انہوں Ù†Û’ غیر قانونی ترسیلِ زر Ú©ÛŒ ہے اور نہ اربوں کھربوں Ú©ÛŒ لوٹ مار کبھی Ú©ÛŒ ہے۔ دودھ Ú©Û’ دھلے‘ پاک صاف‘ معصوم۔ یہ سب موجودہ Ø+کومت Ú©ÛŒ الزام تراشیاں ہیں۔ سب Ú©Ú†Ú¾ ٹھیک ہے۔ بقول منیر نیازی ''آسیب کا سایہ ہے‘‘۔



    2gvsho3 - کون سوچے‘ کون کرے؟ ۔۔۔۔ رسول بخش رئیس

  2. #2
    Join Date
    Nov 2014
    Location
    Lahore,Pakistan
    Posts
    25,276
    Mentioned
    1562 Post(s)
    Tagged
    20 Thread(s)
    Rep Power
    214784

    Default Re: کون سوچے‘ کون کرے؟ ۔۔۔۔ رسول بخش رئیس

    2gvsho3 - کون سوچے‘ کون کرے؟ ۔۔۔۔ رسول بخش رئیس

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •