شکایات سے پاک زندگی .... ایم ابراہیم خان
کون ہے جو کسی نہ کسی حوالے سے شکوہ سنج نہیں رہتا؟ ماحول پر نظر ڈالنے سے پہلے اپنے وجود کا جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ کسی نہ کسی معاملے میں شکایت کرنا آپ کے مزاج کا بھی حصہ ہے! ہم سب زندگی بھر مختلف معاملات میں محروم رہتے ہیں اور پھر اس کا شکوہ بھی کرتے ہیں۔ یہ بہت حد تک فطری ہے؛ تاہم اس سے گریز لازم ہے۔ اپنی بھلائی کیلئے کبھی کبھی فطرت یا مزاج کے خلاف بھی جانا پڑتا ہے۔ شکایت کرنے کی عادت اگر پختہ ہو جائے تو مزاج کا حصہ نہیں بلکہ مزاج بن جاتی ہے۔ پھر انسان مرتے دم تک ہر معاملے میں روتا ہی رہتا ہے۔ بہتر زندگی بسر کرنے کی تحریک دینے والے معروف مصنف ول بوون نے ''اے کمپلینٹ فری ورلڈ‘‘ میں شکایتی مزاج پر خاصی وقیع بحث کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم سب زندگی بھر مختلف امور پر شکوہ سنج رہتے ہیں۔ ایسے میں ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا کبھی ہم ایک ایسی دنیا تشکیل دینے میں کامیاب ہو پائیں گے جو شکایات سے پاک ہو۔ اس سوال پر غور کرنے سے اندازہ ہوگا کہ ہم بہت سی شکایات بلا سبب کرتے ہیں۔ بلا سبب یا بلا جواز اس لیے کہ ہم بہت سے معاملات میں یکسر بے بس ہوتے ہیں۔ کتنی ہی کوشش کرلیجیے، ایسے معاملات میں اپنے آپ کو منوانا ممکن نہیں ہو پاتا، مثلاً موسم کے حوالے سے گلے شکوے کی عادت انسان کو خواہ مخواہ الجھن میں مبتلا رکھتی ہے۔ سردی یا گرمی پر ہمارا بس نہیں چلتا مگر پھر بھی ہم موسم کا رونا روتے ہوئے اپنی توانائی ضائع کرتے ہیں۔ بلا جواز شکایات کے ذریعے ہم منفی توانائی پیدا کرتے رہتے ہیں۔ ایسے میں ہم اپنی سکت ہی نہیں کھوتے بلکہ صلاحیت کو بھی زنگ آلود کر لیتے ہیں۔ خوب غور کیجیے اور پھر فیصلہ کیجیے کہ آپ کو زندگی بھر فضول معاملات پر کوئی شکوہ یا شکایت نہیں کرنی۔
ہم سب کو اپنے معاملات کی اصلاح ضرور کرنی چاہیے مگر ٹھوس جواز کے بغیر شکایت کی کوئی گنجائش نہیں۔ بہت سے لوگ اپنی اصلاح پر کم اور شکایت کرتے رہنے پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ ایسی صورت میں معاملات میں درست کرنے کی راہ کبھی ہموار نہیں ہوسکتی۔ اپنی اصلاح کا عمل اسی وقت کامیابی سے مکمل ہوسکتا ہے جب ہم خواہ مخواہ شکایت کرنے کی عادت ترک کریں اور کام کی باتوں پر زیادہ توجہ دیں۔ ہم جو الفاظ منتخب کرتے ہیں ان سے خیالات بنتے ہیں اور خیالات سے زندگی کی سَمت کا تعین ہوتا ہے۔ الفاظ کا انتخاب اگر بے دھیانی میں کیا جائے تو صرف خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ گفتگو میں ایسے الفاظ شامل نہیں ہونا چاہئیں جن سے اپنا ذہن بھی الجھے اور دوسروں کو بھی غلط پیغام ملے۔ شکایتی لہجے میں پائے جانے والے الفاظ عزتِ نفس کو مجروح کرتے ہیں اور یوں انسان کسی بھی مسئلے کو حل کرنے کے بجائے محض صلاحیت و سکت ضائع کرنے میں مصروف رہتا ہے۔ اس سے بڑا نقصان یہ ہے کہ لوگ آپ کے بارے میں غلط رائے قائم کرتے ہیں۔ محض شکایت کرتے رہنے سے ذہن منتشر رہتا ہے، اس کی توانائی ضائع ہوتی رہتی ہے۔ ایسے میں غصہ اور تناؤ پیدا ہوتا ہے اور فشارِ خون بلند ہوتا ہے۔ اگر ہم توجہ نہ دیں تو شکایت کرتے رہنا عادت بن جاتی ہے اور ہمیں ہر معاملہ ہی خراب دکھائی دینے لگتا ہے۔ شکایت کرنے کی عادت غیر معمولی پختگی اختیار کرے تو صحت کا بیڑا غرق کرنے لگتی ہے۔ بہت سے لوگ اپنی بیماری کا ذکر بھی شکایت کے روپ میں کرتے ہیں۔ خواہش صرف یہ ہوتی ہے کہ کسی طور دوسروں کی تھوڑی ہمدردی مل جائے۔ یہ روش ترک کرکے انسان کو صبر و شکر کی راہ پر گامزن رہنا چاہیے تاکہ شکایت کے سمندر میں غرق رہنے کے بجائے مسائل کے حل کے ساحل تک پہنچنے کو ترجیحات میں نمایاں رکھا جاسکے۔ صحت کی خرابی کے بارے میں زیادہ سوچنے والے عام طور پر یہ نکتہ نظر انداز کردیتے ہیں کہ صحت کی خرابی کے بارے میں زیادہ سوچنے سے صحت کا گراف مزید گرتا ہے۔ خراب صحت کا رونا روتے رہنے پر صحت کی بحالی یقینی بنانے کو ترجیح دی جانی چاہیے۔ شکایت کرتے رہنا بہت آسان ہے اس لیے شکایتی مزاج رکھنے والے کو بہت جلد ہم مزاج مل جاتے ہیں۔ ایسے لوگ جہاں بھی مل بیٹھتے ہیں وہاں ؎
آ عندلیب! مل کے کریں آہ و زاریاں
تو ہائے گل پکار، میں چلّاؤں ہائے دل
والی کیفیت پیدا کرکے دم لیتے ہیں۔ شکایت کرنے میں چونکہ کچھ لگتا نہیں اس لیے لوگ مزے سے طرح طرح کی شکایتیں کرتے رہتے ہیں۔ جب یہ عادت پختہ ہو جائے تو زندگی کو حقیقی مسرت سے محروم کردیتی ہے۔ دوسروں کے بارے میں شکایت کرنے والے خود کو برتر اور درست ثابت کرنے کے لیے بے جا تنقید بھی کرتے رہتے ہیں۔ گاڑی ٹریفک میں پھنس جائے تو ہارن بجاتے رہنا شکایت پسند مزاج ہی کا عکاس ہے۔ لوگ تحت الشعوری طور پر ایسا کرتے ہیں اس لیے انہیں اپنی غلطی یا مزاج کی خرابی کا احساس تک نہیں ہوتا۔
ایک بنیادی سوال یہ بھی ہے کہ انسان شکایت کرتا ہی کیوں ہے۔ کوئی بھی انسان شکایت اسی وقت کرتا ہے جب وہ چاہتا ہے کہ کوئی اس کی خواہش کے مطابق تبدیل ہو۔ یہ خواہش بہت سے معاملات میں بے جا بھی نہیں ہوتی مگر یہ نکتہ ذہن نشین رہے کہ دوسروں کو بدلنے کے مقابلے میں اپنے آپ کو تبدیل کرنا زیادہ آسان ہے۔ مزاج کا بدلنا بچوں کا کھیل نہیں۔ آپ دوسروں کو بدلنے کی راہ پر گامزن ہونے سے پہلے خود کو بدلنے کا سفر شروع کریں تو اندازہ ہوگا کہ یہ عمل کس قدر مشکل ہے۔ بلا جواز شکایت کرتے رہنے کی عادت ترک کرنا مشکل سہی‘ ناممکن بہرحال نہیں۔ شکایت نہ کرنے سے مثبت توانائی پیدا ہوتی ہے یعنی انسان کچھ کرنے پر مائل ہوتا ہے اور اس حوالے سے اس میں سکت بھی پائی جاتی ہے۔ لوگ احساسِ کمتری کے باعث بھی شکایت کناں رہتے ہیں۔ زندگی جیسی نعمت اس لیے نہیں ملی کہ مسائل کا رونا رویا جائے۔ زندگی کا حق ادا کرنے کی ایک معقول صورت یہ ہے کہ کسی بھی مشکل صورتحال کو آسان بنانے پر توجہ مرکوز کی جائے۔
امریکا میں سیاہ باشندوں کے رہنما مارٹن لوتھر کنگ جونیئر نے نسل پرستی کا رونا روتے رہنے کے بجائے ''میں نے ایک خواب دیکھا ہے‘‘ جیسی توانائی سے بھرپور اور مثبت تقریر کے ذریعے مثبت سوچ اپنائی اور کامیابی پائی۔ الفاظ اور لہجے کے بدلنے سے بھی صورتحال بدل جاتی ہے۔ کسی بھی چیلنج کا سامنا ہونے پر حواس قابو میں رکھنے اور صورتحال کے تقاضوں سے مطابقت رکھنے والا لہجہ اختیار کرنے پر توجہ دیجیے۔ جن معاملات پر ہمارا ذرا بھی اختیار نہیں‘ ان کے بارے میں سوچ سوچ کر ہلکان ہونا اور شکایت بھرے لہجے میں ان کا تذکرہ لاحاصل مشق ہے۔ یہ توانائی کا صریح ضیاع ہے۔ سوچنا سیکھئے، اس کی مشق کیجیے تاکہ مسائل کے حل کی راہ ہموار ہو۔ کسی بھی صورتحال کو اپنے حق میں کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ متعلقہ حقائق ذہن نشین رکھتے ہوئے سوچا جائے۔
دوسروں کے بارے میں طرح طرح کے اندازے قائم کرنا فضول مشق ہے کیونکہ ہم انہیں بدل نہیں سکتے۔ ہر انسان اپنے مخصوص حالات کے پنجرے میں زندگی بسر کرتا ہے۔ اس پنجرے کو کھولنا اس کی اپنی مرضی پر منحصر ہے۔ شکایت سے متعلق معروضات کو سمجھنے کے لیے یہ بنیادی نکتہ سمجھنا لازم ہے کہ اگر کسی خرابی کو دور کرنے کی گنجائش موجود ہو تو ٹھیک‘ ورنہ اس کے بارے میں شکایت کرتے رہنے سے کچھ بھی حاصل نہیں ہو پاتا۔ جو خود کو بدلنے پر آمادہ نہ ہوں ان کے آگے کسی بھی بات کا رونا روتے رہنا دیوار سے سر ٹکرانے جیسا معاملہ ہے۔ یہ کائنات توانائی کا مظہر ہے۔ ہمیں بھی توانائی کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے۔ قدرت کا انتظام ایسا ہے کہ ہماری توانائی روزانہ بحال ہوتی ہے۔ ہم فضول سرگرمیوں میں الجھ کر توانائی ضائع کرتے رہتے ہیں۔ بلا جواز شکایت کرنے کی عادت ترک کرنے سے توانائی کو ضائع ہونے سے بچانے میں مدد ملتی ہے۔ ایسی صورت میں ہم ڈھنگ سے کچھ کرنے کے قابل ہو پاتے ہیں۔