پیپلز پارٹی بھی ایک پیج پر ؟ ۔۔۔۔۔ عمران یعقوب خان
۔18 اکتوبر کو کراچی میں پیپلز پارٹی کی جانب سے پی ڈی ایم کے جلسے کی میزبانی کی گئی۔ سندھ میں برسراقتدار پیپلز پارٹی کی جانب سے جلسے سے قبل اہتمام کیا گیا کہ کراچی آنے والی سیاسی قیادت کو پورا پروٹوکول فراہم کیا جائے۔ یہی اہتمام مسلم لیگ (ن )کے لیے بھی تھا۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت کراچی پہنچی تو ان کے کارکنوں اور پیپلز پارٹی کی جانب سے ان کا گرم جوش استقبال کیا گیا۔ کراچی میں منقسم سیاسی مینڈیٹ کی وجہ سے پیپلز پارٹی کو صورتحال کا اندازہ تھا‘ لہٰذا معاملات کو پوری احتیاط سے ہینڈل کیا جا رہا تھا۔ مسلم لیگ (ن) کا سیاسی اعتبار سے سندھ میں وہی حال ہو چکا ہے جو اس وقت پیپلزپارٹی کا پنجاب میں ہے۔ مریم نواز بطور سیاسی لیڈر پہلی بار کراچی پہنچی تھیں‘وہ اپنے شوہر اور مقامی لیگی قیادت اور کارکنوں کے ہمراہ پہلے مزار قائد پہنچیں جہاں انہوں نے فاتحہ خوانی کی‘ تاہم فاتحہ خوانی کے بعد کیپٹن (ر) صفدر مزار کے احاطے میں داخل ہو گئے جہاں انہوں نے ووٹ کو عزت دو کے نعرے بلند کرنا زشروع کر دیا اور باقی لوگ بھی ان کے ساتھ مل گئے۔ لیکن اس ساری صورتحال پر ایک اور جماعت کی گہری نظر تھی‘ جو کسی چھوٹے سے واقعے کے انتظار میں تھی ۔
اتنے میں میڈیا پر بھی مزار قائد کی بے حرمتی کی بریکنگ نیوز چلنا شروع ہو گئیں‘ ساتھ ہی تجزیہ کاروں نے مزارِ قائد پر نعرے بازی کے اس ناپسندیدہ عمل پر اپنے خیالات کا اظہار کرنا شروع کر دیا۔ تاک میں بیٹھی تحریک انصاف کی سندھ قیادت کو موقع مل گیا اور انہوں نے بھی میڈیا پر رد عمل دینا شروع کر دیا۔ قانونی اعتبار سے بھی یہ عمل قابلِ گرفت تھا‘ بانیٔ پاکستان سے متعلق پاکستانیوں کی جذبات سے سبھی واقف ہیں‘ اس معاملے کو لے کر پورے ملک میں خاصی کشیدہ فضا پیدا ہو گئی۔ اس پر مستزاد یہ کہ پولیس پر تحریک انصاف لائرز ونگ اورصوبائی عہدیداران کی جانب سے کیپٹن(ر) صفدر اور دیگر لیگی قیادت پر مقدمے کے اندراج کا دباو ڈالا گیا۔ یہ دباو ٔبراہ راست آئی جی سندھ پر تھا جو کہ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کو لمحہ بہ لمحہ حالات سے آگاہ رکھے ہوئے تھے۔ وزیر اعلیٰ سندھ اور بلاول ہاؤس کے واضح احکامات تھے کہ مہمانوں کے خلاف کسی قسم کی کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی‘ایسے کسی بھی اقدام سے پی ڈی ایم اتحاد کو نقصان پہنچنے کا احتمال تھا۔ پیپلز پارٹی کسی بھی صورت میں سانحہ کارساز کی برسی اور پی ڈی ایم جلسے کو متاثر نہیں ہونے دینا چاہتی تھی۔ ایک طرف تو یہ پیپلزپارٹی کی عزت کا مسئلہ تھا تو دوسری طرف ایسا ہونا تحریک انصاف کی کامیابی تھی جو کسی بھی صورت قابل قبول نہیں تھا‘ لہٰذا جلسے کے اختتام تک کسی بھی کارروائی سے گریز کیا گیا۔ تحریک انصاف اس دوران میڈیا پر اس مدعے کو اچھالتی رہی۔ سوشل میڈیا پر بھی ٹرینڈ بن چکے تھے اور عوامی ردعمل کا ایک طوفان برپا ہو چکا تھا۔ ان حالات کو سکیورٹی ادارے بڑی قریب سے مانیٹر کر رہے تھے۔ اس بات پر پوری طرح نظر تھی کہ اس کے نتیجے میں کسی قسم کی امن و امان کی خرابی پیدا نہ ہو۔
کراچی کے امن کی بڑی ذمہ داری رینجرز کے ذمے ہے۔ کراچی کے موجودہ امن و امان کا سہرا بھی رینجرز ہی کے سر بندھتا ہے۔ ڈی جی رینجرز وزیر اعلیٰ سندھ سے نہایت مربوط رابطے میں رہتے ہیں۔ سندھ پولیس پر پی ڈی ایم کے جلسے اور مہمانوں کی سکیورٹی کو لے کر پہلے ہی خاصا دباؤ تھا۔ یہ تمام ادارے پوری طرح سے صورتحال سے آگاہ تھے بلکہ سیاسی قیادت کو بھی آگاہ رکھے ہوئے تھے۔ اس دوران تحریک انصاف کی جانب سے ایک مدعی تلاش کیا گیا جس نے مزارِ قائد پر نعرے بازی کے کیس میں مزید جان ڈالنے کے لیے موقع پر کیپٹن صفدر کی جانب سے قتل کی دھمکیوں کا مقدمہ درج کروا دیا۔ تحریک انصاف کی صوبائی قیادت اور مبینہ طور پر ایک وفاقی وزیر کی جانب سے پولیس پر بہت زیادہ دباو ڈالا گیا۔سخت دباؤ کے بعد یہ مقدمہ رات گئے جا کر درج ہوا۔ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ سکیورٹی اور خفیہ اداروں کے سیاسی قیادت سے رابطے ہوتے ہیں کیونکہ دونوں ایک ہی سسٹم سے جڑے ہوئے ہیں‘ لہٰذا بہت سے معاملات میں قریبی رابطے رکھے جاتے ہیں۔ مزارِ قائد کی بے حرمتی کے واقعے پر پولیس کے عدم تعاون کے بعد تحریک انصاف قیادت نے بھی مقامی لیول پر اپنے رابطوں کو ایکٹویٹ کیا اور عوامی ردعمل پر صورتحال کی خرابی کا اندیشہ ظاہر کیا۔ پولیس کے عدم تعاون کی شکایت بھی کی گئی۔ 19 اکتوبر کی صبح سویرے ایک بار پھر ٹی وی سکرینز پر بریکنگ نیوز آنے لگی کہ ہوٹل سے کیپٹن صفدر کو مبینہ طور پر کمرے کا دروازہ توڑ کر گرفتار کر لیا گیا۔ گو شام تک ان کی ضمانت ہو گئی لیکن یہ صورتحال پیپلزپارٹی کے لیے نہایت خفت کا باعث تھی۔ پی ڈی ایم اتحاد پر سوالات اٹھنے لگے۔ پیپلز پارٹی کی پراسرار خاموشی پر چہ مگوئیوں کا بازار گرم تھا۔
واقعے کے 48 گھنٹے بعد وزیر اعلیٰ سندھ نے خاصی کنفیوز پریس کانفرنس کی۔ آئی جی سندھ کے'' اغوا‘‘ اور رینجرز سے متعلق سوال پر پریس کانفرنس چھوڑ کر چلے گئے جس نے صورتحال کو مزید گمبھیر بنا دیا۔ اس کے بعد بلاول بھٹو نے پریس کانفرنس کی اور آرمی چیف سے انکوائری کا مطالبہ کیا۔ جی ایچ کیو بھی صورتحال کو مانیٹر کر رہا تھا۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کو ٹیلی فون کیا اور معاملے کی انکوائری اور ملوث افراد کے خلاف کارروائی کی یقین دہانی کروائی۔ مسلم لیگ (ن)‘ پی ڈی ایم میں موجود جماعتوں (ماسوائے پیپلزپارٹی) اور تجزیہ کاروں نے کیپٹن (ر)صفدر کی گرفتاری کو نواز شریف کے بیانیے سے جوڑنے کی کوشش کی۔ یہ قیاس آرائیاں بھی کی گئیں کہ شاید بلاول کو محض تسلی دی گئی ہے‘ بھلا ایسی رپورٹس کہاں سامنے لائی جاتی ہیں یا سکیورٹی ادارے اپنے لوگوں کے خلاف کیوں کارروائی کرنے لگے۔ اس دوران مسلم لیگ (ن) کا سکیورٹی اداروں کے خلاف منفی بیانیہ بھی شدت سے جاری رہا ۔ دوسری جانب بلاول بھٹو گلگت بلتستان کے انتخابی میدان میں مصروف عمل ہوگئے۔ بی بی سی کو اپنے حالیہ انٹرویو میں بلاول نے جہاں میاں نواز شریف کے بیانیے سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے اسے ان کی ذاتی رائے قرار دیا‘وہیں یہ بھی کہا کہ وہ کراچی واقعے کی رپورٹ کے منتظر ہیں۔ آرمی چیف کی جانب سے قائم کردہ کورٹ آف انکوائری کی رپورٹ اور سفارشات کے مطابق رینجرز اور آئی ایس آئی کی مقامی قیادت کی جانب سے صورتحال کا غلط اور جذباتی اندازہ لگا کر معاملے کو مس ہینڈل کیا گیا‘ اس لئے متعلقہ ذمہ دار افسروں کو ان کی موجودہ ذمہ داریوں سے ہٹا کر جی ایچ کیو میں مزید کارروائی کی جائے گی۔پاکستان میں سول معاملات پر حاضر سروس افسروں کے خلاف ایسی کارروائی کی مثالیں کم ملتی ہیں۔ پیپلز پارٹی نے رپورٹ کا خیر مقدم کیا ہے۔ اب اس رپورٹ پر فوج اور پیپلز پارٹی ایک پیج پر ہیں جبکہ مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف نے رپورٹ مسترد کر دی ہے۔ پیپلز پارٹی نے اسے ان کی ذاتی رائے قرار دیا ہے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے 10 اکتوبر کو کاکول اکیڈمی میں کیڈٹس سے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ ہماری قوت ہمارے عوام‘ ہمارا آئین‘ جمہوریت اور وہ جمہوری اقدار ہیں جن کی پیروی ہمارے عوام کرتے ہیں‘ اس لیے ہمیں ان اقدار کا تحفظ کرنا ہے‘ ہمارے اقدامات آئین اور عوام کے اعتماد کے مطابق ہیں۔ آئین اور قانون کی رہنمائی میں منتخب حکومت کی مدد جاری رکھیں گے‘ آرمی چیف نے جو کہا‘ سچ کر دکھایا ہے۔