Results 1 to 2 of 2

Thread: دین کا ماخذ نبی کریمﷺ Ú©ÛŒ ذات .... جاوید اØ+مد غامدی

Hybrid View

Previous Post Previous Post   Next Post Next Post
  1. #1
    Join Date
    Nov 2014
    Location
    Lahore,Pakistan
    Posts
    25,276
    Mentioned
    1562 Post(s)
    Tagged
    20 Thread(s)
    Rep Power
    214784

    Islam دین کا ماخذ نبی کریمﷺ Ú©ÛŒ ذات .... جاوید اØ+مد غامدی

    دین کا ماخذ نبی کریمﷺ Ú©ÛŒ ذات .... جاوید اØ+مد غامدی

    Deen ka Makhiz.jpg
    ’’پس ہم Ù†Û’ اس(قرآن) Ú©Ùˆ تمہاری زبان میں نہایت سہل اور موزوں بنا دیا ہے کہ تم اس Ú©Û’ ذریعے سے اہل تقویٰ Ú©Ùˆ بشارت دو اور ہٹ دھرم لوگوں Ú©Ùˆ اس Ú©Û’ ذریعے سے اچھی طرØ+ خبردار کردو‘‘(مریم97,19)
    دین اللہ تعالیٰ Ú©ÛŒ ہدایت ہے جو اس Ù†Û’ پہلے انسان Ú©ÛŒ فطرت میں الہام فرمائی اور اس Ú©Û’ بعد اس Ú©ÛŒ تمام ضروری تفصیلات Ú©Û’ ساتھ اپنے پیغمبروں Ú©ÛŒ وساطت سے انسان Ú©Ùˆ دی ہے۔اس سلسلے Ú©Û’ آخری پیغمبر Ø+ضرت Ù…Ø+مدﷺ ہیں۔چنانچہ دین کا تنہا ماخذ اس زمین پر اب Ø+ضرت Ù…Ø+مدﷺ ہی Ú©ÛŒ ذات والا صفات ہے۔یہ صرف انہی Ú©ÛŒ ہستی ہے کہ جس سے قیامت تک بنی آدم Ú©Ùˆ ان Ú©Û’ پروردگار Ú©ÛŒ ہدایت میسر ہو سکتی ہے اور یہ صرف انہی کا مقام ہے کہ اپنے قول Ùˆ فعل اور تقریر Ùˆ تصویب سے وہ جس چیز Ú©Ùˆ دین قرار دیں‘وہی اب رہتی دنیا تک دین Ø+Ù‚ قرار پائے:ترجمہ ’’وہی ذات ہے جس Ù†Û’ ان امیوں میں ایک رسول انہی میں سے اٹھایا ہے جو اس Ú©ÛŒ آیتیں ان پر تلاوت کرتا ہے اوران کا تزکیہ کرتا ہے اور (اس Ú©Û’ لیے) انہیں قانون اور Ø+کمت Ú©ÛŒ تعلیم دیتا ہے۔‘‘ (الجمعہ 2,26)یہی قانون Ùˆ Ø+کمت وہ دین Ø+Ù‚ ہے جسے ’’اسلام‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔اس Ú©Û’ ماخذ Ú©ÛŒ تفصیل ہم اس طرØ+ کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے یہ دین آپ ï·ºÚ©Û’ صØ+ابہؓ Ú©Û’ اجماع اور قولی Ùˆ عملی تواتر سے منتقل ہو ااور دو صورتوں میں ہم تک پہنچا ہے:

    -1قرآن مجید

    -2سنت

    قرآن مجید Ú©Û’ بارے میں ہر مسلمان اس Ø+قیقت سے واقف ہے کہ یہ وہ کتاب ہے جو اللہ تعالیٰ Ù†Û’ اپنے آخری پیغمبرØ+ضرت Ù…Ø+مدﷺ پر نازل Ú©ÛŒ ہے‘ اور اپنے نزول Ú©Û’ بعد سے آج تک مسلمانوں Ú©Û’ پاس ان Ú©ÛŒ طرف سے اس صراØ+ت Ú©Û’ ساتھ موجود ہے کہ یہی وہ کتاب ہے جوØ+ضرت Ù…Ø+مد ï·º پر نازل ہوئی تھی اور جسے آپ ï·ºÚ©Û’ صØ+ابہؓ Ù†Û’ اپنے اجماع اورقوالی تواتر Ú©Û’ ذریعے سے پوری Ø+فاظت Ú©Û’ ساتھ بغیر کسی ادنیٰ تغیر Ú©Û’ دنیا Ú©Ùˆ منتقل کیا ہے۔

    سنت سے ہماری مراد دینِ ابراہیمیؑ Ú©ÛŒ وہ روایت ہے جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم Ù†Û’ اس Ú©ÛŒ تجدید Ùˆ اصلاØ+ Ú©Û’ بعد اور اس میں بعض اضافوں Ú©Û’ ساتھ اپنے ماننے والوں میں دین Ú©ÛŒ Ø+یثیت سے جاری فرمایا ہے۔قرآن میں آپﷺ Ú©Ùˆ ملت ابراہیمی Ú©ÛŒ اتباع کا Ø+Ú©Ù… دیاگیاہے۔یہ روایت بھی اسی کا Ø+صہ ہے۔ ارشاد فرمایا ہے: ترجمہ۔ ’’پھر ہم Ù†Û’ تمہیں ÙˆØ+ÛŒ Ú©ÛŒ کہ ملت ابراہیم Ú©ÛŒ پیروی کرو جو بالکل یک سو تھا اور مشرکوں میں سے نہیں تھا۔‘‘ (النØ+Ù„ 123, 16)

    اس ذریعے سے جو دین ہمیں ملا ہے ‘ وہ یہ ہے:

    عبادات:-1نماز۔-2زکوٰۃ اور صدقۂ فطر۔3Û” روزہ Ùˆ اعتکاف۔4 Û” Ø+ج Ùˆ عمرہ۔-5 قربانی اور ایام تشریق Ú©ÛŒ تکبیریں۔

    معاشرت:-1نکاØ+ Ùˆ طلاق اور ان Ú©Û’ متعلقات۔-2 Ø+یض Ùˆ نفاس میں زن Ùˆ شو Ú©Û’ تعلق سے اجتناب۔

    خورونوش:-1 Ø³ÙˆÙ”Ø±â€˜Ø®ÙˆÙ†â€˜Ù…Ø±Ø¯Ø Ø± اور خدا Ú©ÛŒ سوا کسی اور Ú©Û’ نام پر ذبØ+ کیے گئے جانور Ú©ÛŒ Ø+رمت۔-2 اللہ کا نام Ù„Û’ کر جانوروں کا تزکیہ۔

    رسوم Ùˆ آداب:-1 اللہ کا نام Ù„Û’ کر اور دائیں ہاتھ سے کھانا پینا۔-2 ملاقات Ú©Û’ موقع پر ’’السلام علیکم‘‘ اور اس کاجواب۔-3 چھینک آنے پر’’الØ+مد للہ ‘‘ اور اس Ú©Û’ جواب میں ’’یرØ+Ù…Ú© اللہ‘‘۔-4 مونچھیں پست رکھنا۔-5 زیرناف Ú©Û’ بال کاٹنا۔ -6 بغل Ú©Û’ بال صاف کرنا۔-7 بڑھے ہوئے ناخن کاٹنا۔-8 Ù„Ú‘Ú©ÙˆÚº کا ختنہ کرنا۔ -10 استنجا۔ -11 Ø+یض Ùˆ نفاس Ú©Û’ بعد غسل۔ -12 غسل جنابت۔-13 میت کا غسل۔-14 تجہیز Ùˆ تکفین۔-15 تدفین۔ -16 عیدالفطر Û” -17 عیدالاضØ+ی۔

    سنت یہی ہے اور اس Ú©Û’ بارے میں یہ بالکل قطعی ہے کہ ثبوت Ú©Û’ اعتبار سے اس میں اور قرآن مجید میں کوئی فرق نہیں ہے۔وہ جس طرØ+ صØ+ابہؓ Ú©Û’ اجماع اور قولی تواتر سے ملا ہے‘ یہ اسی طرØ+ ان Ú©Û’ اجماع اور عملی تواتر سے ملی ہے اور قرآن ہی Ú©ÛŒ طرØ+ ہر دور میں مسلمانوں Ú©Û’ اجماع سے ثابت ہوتی ہے۔لہٰذا اس Ú©Û’ بارے میں اب کسی بØ+Ø« Ùˆ نزاع Ú©Û’ لیے کوئی گنجائش نہیں ہے۔

    دین لاریب‘انہی دو صورتوں میں ہے۔ان Ú©Û’ علاوہ کوئی چیز دین ہے‘ نہ اسے دین قرار دیا جا سکتا ہے۔رسول اللہ ï·º Ú©Û’ قول Ùˆ فعل اور تقریر Ùˆ تصویب Ú©Û’ اخبار Ø¢Ø+اد جنہیں بالعموم’’ Ø+دیث‘‘ کہا جاتا ہے‘ ان Ú©Û’ بارے میں یہ Ø+قیقت ناقابل تردید ہے کہ ان Ú©ÛŒ تبلیغ Ùˆ Ø+فاظت Ú©Û’ لیے آپؐ Ù†Û’ کبھی کوئی اہتمام نہیں کیا‘ بلکہ سننے اور دیکھنے والوں Ú©Û’ لیے Ú†Ú¾ÙˆÚ‘ دیا ہے کہ چاہیں تو انہیں Ø¢Ú¯Û’ پہنچائیں اور چاہیں تو نہ پہنچائیں‘اس لیے دین میں ان سے کسی عقیدہ Ùˆ عمل کا اضافہ بھی نہیں ہوتا۔دین سے متعلق جو چیزیں ان میں آتی ہیں‘ وہ درØ+قیقت قرآن Ùˆ سنت میں Ù…Ø+صور اسی دین Ú©ÛŒ تفہیم Ùˆ تبیین اور اس پر عمل کیلئے نبی ï·º Ú©Û’ اسوۂ Ø+سنہ کا بیان ہیں Û” Ø+دیث کا دائرہ یہی ہے چنانچہ دین Ú©ÛŒ Ø+یثیت سے اس دائرے سے باہر Ú©ÛŒ کوئی چیز نہ Ø+دیث ہو سکتی ہے اور نہ Ù…Ø+ض Ø+دیث Ú©ÛŒ بنیاد پر اسے قبول کیا جا سکتا ہے۔

    اس دائرے Ú©Û’ اندر‘ البتہ اس Ú©ÛŒ Ø+جت ہر اس شخص پر قائم ہو جاتی ہے جو اس Ú©ÛŒ صØ+ت پر مطمئن ہو جانے Ú©Û’ بعد رسول اللہ ï·º Ú©Û’ قول Ùˆ فعل یا تقریر Ùˆ تصویب Ú©ÛŒ Ø+یثیت سے اسے قبول کر لیتا ہے۔ اس سے انØ+راف پھر اس کیلئے جائز نہیں رہتا بلکہ ضروری ہو جاتا ہے کہ آپﷺ کا کوئی Ø+Ú©Ù… یا فیصلہ اگر اس میں بیان کیا گیاہے تو اس Ú©Û’ سامنے سرتسلیم خم کر دے۔

    قرآن مجید‘ سنت اور Ø+دیث… یہ تینوں Ù…Ø+Ù„ تدبر ہیں‘ لہٰذا ان Ú©Û’ بارے میں صØ+ÛŒØ+ نقطۂ نظر پر قائم رہنے کیلیے جو چیزیں ہمارے نزدیک ہر صاØ+ب علم Ú©Û’ پیش نظر رہنی چاہئیں‘ وہ ایک ترتیب Ú©Û’ ساتھ ہم یہاں بیان کریں Ú¯Û’Û”

    مبادی تدبر قرآن

    پہلے ان مبادی Ú©Ùˆ لیجئے جو قرآن مجید پر تدبر میں ملØ+وظ رہنے چاہئیں۔

    عربی معلی:پہلی چیز یہ ہے کہ قرآن جس زبان میں نازل ہوا ہے‘ وہ ام القریٰ Ú©ÛŒ عربی معلی ہے جو اس Ú©Û’ دور جاہلیت میں قبیلۂ قریش Ú©Û’ لوگ اس میں بولتے تھے۔اس میں شبہ نہیں کہ اس Ú©Ùˆ اللہ تعالیٰ Ù†Û’ اپنی اس کتاب میں فصاØ+ت Ùˆ بلاغت کا ایک لافانی معجزہ بنا دیا ہے‘ لیکن اپنی اصل Ú©Û’ اعتبار سے یہی وہی زبان ہے جو خدا کا پیغمبر بولتا تھا اور جو اس زمانے میں اہل مکہ Ú©ÛŒ زبان تھی: ترجمہ۔ ’’پس ہم Ù†Û’ اس(قرآن) Ú©Ùˆ تمہاری زبان میں نہایت سہل اور موزوں بنا دیا ہے کہ تم اس Ú©Û’ ذریعے سے اہل تقویٰ Ú©Ùˆ بشارت دو اور ہٹ دھرم لوگوں Ú©Ùˆ اس Ú©Û’ ذریعے سے اچھی طرØ+ خبردار کردو‘‘۔(مریم97,19)

    اس لیے اس کتاب کا فہم اب اس زبان Ú©Û’ صØ+ÛŒØ+ علم اور اس Ú©Û’ صØ+ÛŒØ+ ذوق پر منØ+صر ہے‘ اور اس میں تدبراور اس Ú©ÛŒ شرØ+ Ùˆ تفسیر Ú©Û’ لیے یہ ضروری ہے کہ آدمی اس زبان کا جید عالم اور اس Ú©Û’ اسالیب کا ایسا ذوق آشنا ہو کہ قرآن Ú©Û’ مدعا تک پہنچنے میں Ú©Ù… سے Ú©Ù… اس Ú©ÛŒ زبان اس Ú©ÛŒ راہ میں Ø+ائل نہ ہو سکے۔

    یہ Ø+قیقت تو اس سے زیادہ وضاØ+ت Ú©ÛŒ Ù…Ø+تاج نہیں لیکن اس زبان Ú©Û’ بارے میں یہ بات‘ البتہ اس Ú©Û’ ہر طالب علم Ú©Ùˆ پوری وضاØ+ت Ú©Û’ ساتھ سمجھ لینی چاہئے کہ یہ وہ عربی نہیں ہے جو Ø+ریری Ùˆ متنبی اور زرمخشری Ùˆ رازی Ù†Û’ Ù„Ú©Ú¾ÛŒ ہے یا اس زمانے میں مصر Ùˆ شام Ú©Û’ اخبارات میں شائع ہوتی اور ان Ú©Û’ ادیبوں اور شاعروں Ú©Û’ قلم سے نکلتی ہے۔یہ بھی ایک قسم Ú©ÛŒ عربی ہی ہے‘ لیکن وہ عربی جس میں قرآن نازل ہوا ہے اور جسے بجاطور پرعربی معلی کہنا چاہئے‘ اس میں اور اس زبان Ú©Û’ لب Ùˆ لہجہ‘ اسلوب Ùˆ انداز اور الفاظ Ùˆ Ù…Ø+اورات میں Ú©Ù… Ùˆ بیش وہی فرق ہے جو مثال Ú©Û’ طور پر ‘ میر وغالب اور سعدی Ùˆ خیام Ú©ÛŒ زبان اور ہمارے اس زمانے میں ہندو ایران Ú©Û’ اخبارات Ùˆ جرائد Ú©ÛŒ اردو اور فارسی میں ہے۔لہٰذا یہ Ø+قیقت ہے کہ اس سے قرآن Ú©ÛŒ زبان کا کوئی ذوق نہ صرف یہ کہ پیدا نہیں ہوتا‘ بلکہ الٹا یہ اس سے بے گانہ کر دیتی ہے اور اگر اسی Ú©Ùˆ اوڑھنا بچھونا بنا لیا جائے تو قرآن مجید Ú©Û’ فہم سے بسا اوقات آدمی بالکل Ù…Ø+روم ہو جاتا ہے۔

    چنانچہ قرآن Ú©ÛŒ زبان Ú©Û’ لیے سب سے پہلے جس چیز Ú©ÛŒ طرف رجوع کرنا چاہئے‘ وہ خود قرآن مجید ہی ہے۔اس Ú©Û’ بارے میں کوئی شخص اس Ø+قیقت کا انکار نہیں کر سکتا کہ یہ جب ام القریٰ میں نازل ہوا تو اس Ú©ÛŒ الہامی Ø+یثیت تو بے شک‘ ایک عرصے تک معرض بØ+Ø« میں رہی‘ لیکن اس Ú©ÛŒ عربیت Ú©Ùˆ کوئی شخص کبھی چیلنج نہیں کر سکا۔اس Ù†Û’ کہا کہ وہ کسی عجمی کا کلام نہیں ہو سکتا اور اس Ú©ÛŒ دلیل یہ دی کہ وہ عربی مبین میں نازل ہوا ہے۔اس Ù†Û’ اپنے آپ Ú©Ùˆ زبان Ùˆ ادب اور فصاØ+ت Ùˆ بلاغت کا ایک معجزہ قرار دیا اور قریش Ú©Ùˆ چیلنج کیا کہ وہ اس Ú©Û’ مانند کوئی ایک سورہ ہی پیش کریں۔یہاں تک کہ اس Ù†Û’ اعلان کیا کہ وہ اس کیلئے اپنے ادیبوں‘خطیبوں†˜Ø´Ø§Ø¹Ø±ÙˆÚºâ€˜ کاہنوں اور صرف انسانوں ہی Ú©Ùˆ نہیں‘ جنات‘ شیاطین اور دیوی دیوتائوں میں سے بھی جن Ú©Ùˆ چاہیں بلا لیں‘ لیکن یہ ایک ناقابل انکار تاریخی Ø+قیقت ہے کہ اہل عرب میں سے کوئی شخص نہ اس Ú©ÛŒ عربیت کا انکار کر سکا اور نہ اس Ú©Û’ چیلنج کا جواب ہی کسی شخص Ú©Û’ لیے دینا کبھی ممکن ہوا : ترجمہ:’’اور اگر تم اس چیز Ú©ÛŒ طرف سے Ø´Ú© میں ہو جو ہم Ù†Û’ اپنے بندے پر اتاری ہے تو اس Ú©Û’ مانند ایک سورہ ہی بنا لائو اور اس کیلئے اللہ Ú©Û’ سوا اپنے سب ہم نوائوں Ú©Ùˆ بلا لو‘ اگر تم سچے ہو‘‘۔(البقرہ: 2,23)

    ترجمہ:’’کہہ دو کہ اگر سب جن و انس اس بات پر اکٹھے ہو جائیں کہ اس جیسا کوئی قرآن لے آئیں تو نہ لاسکیں گے‘ اگرچہ وہ ایک دوسرے کے مددگار بن جائیں‘‘۔(بنی اسرائیل: 88,17)

    بلکہ یہی نہیں‘ ام القریٰ میں ولید بن مغیرہ جیسے نقاد ادب Ù†Û’ اس Ú©Ùˆ سنا تو بے اختیار کہہ اٹھا: ترجمہ:’’بخدا ‘ تم میں سے کوئی شخص مجھ سے بڑھ کر نہ شعر سے واقف ہے نہ رجز اور قصیدہ سے اور نہ جنوں Ú©Û’ الہام سے۔خدا Ú©ÛŒ قسم‘ یہ کلام جو اس شخص Ú©ÛŒ زبان پرجاری ہے‘ ان میں سے کسی چیز سے مشابہ نہیں ہے۔بخدا‘ اس کلام میں بڑی Ø+لاوت اور اس پر بڑی رونق ہے۔ اس Ú©ÛŒ شاخیں ثمربار ہیں‘ اس Ú©ÛŒ جڑیں شاداب ہیں‘ یہ لازماً غالب ہو گا‘ اس پر کوئی چیز غلبہ نہ پا سکے Ú¯ÛŒ اور یہ اپنے نیچے ہرچیز Ú©Ùˆ توڑ ڈالے گا‘‘۔(السیرۃ النبویہ‘ ابن کثیر:499/1)شعرائے سبعہ معلقہ میں سے لبید اس وقت زندہ تھے۔یہ وہی شاعر ہیں جن Ú©Û’ ایک شعر پر فزدق جیسا شاعر سجدہ ریز ہو گیا‘ لیکن وہ بھی اس Ú©Û’ سامنے اس طرØ+ Ú¯Ù†Ú¯ ہوئے کہ جب Ø+ضرت عمرفاروقؓ Ù†Û’ شعر سنانے Ú©ÛŒ فرمائش Ú©ÛŒ تو فرمایا:بقرہ Ùˆ آل عمران Ú©Û’ بعد اب شعر کہاں۔

    ’’ما کنت لا قول شعراء بعد از علمنی اللہ البقرو آل عمران‘‘۔

    یہ Ù…Ø+ض ایک شخص کا اعتراف نہ تھا۔اس Ú©Û’ معنی یہ تھے کہ عرب Ú©ÛŒ ساری فصاØ+ت Ùˆ بلاغت اس Ú©Û’ سامنے سرافگندہ ہو گئی ہے۔

    پھر یہ بھی Ø+قیقت ہے کہ زبان Ùˆ ادب کا یہ معجزہ بغیر کسی ادنیٰ تغیر اور بغیر کسی Ø+رف Ú©ÛŒ تبدیلی Ú©Û’ باللفظ ہم تک منتقل ہوا ہے Û” چنانچہ یہ Ø+قیقت اب بالکل مسلم ہے کہ خدا Ú©ÛŒ اس زمین پر یہ صرف دین ہی Ú©ÛŒ Ø+تمی Ø+جت نہیں ہے‘ اپنے دور Ú©ÛŒ زبان Ú©Û’ لیے بھی ایک قول فیصل اور ایک برہان قاطع ہے۔



  2. #2
    Join Date
    Nov 2014
    Location
    Lahore,Pakistan
    Posts
    25,276
    Mentioned
    1562 Post(s)
    Tagged
    20 Thread(s)
    Rep Power
    214784

    Default Re: دین کا ماخذ نبی کریمﷺ Ú©ÛŒ ذات .... جاوید اØ+مد غامدی


Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •