مہنگائی سے متاثر کون؟
ملک میں مہنگائی ہے مگر کہاں ہے‘ یہ سمجھ میں نہیں آتا۔ جب ہر شخص اپنے اپنے شعبے کو لُوٹ مار کے لیے استعمال کر رہا ہے تو پھر مہنگائی کا رونا رونے کی ضرورت کیا ہے؟ جب بھی‘ کسی بھی سبب اشیائے صرف کی قیمتیں بڑھتی ہیں تو ہر شعبے کے کاریگر اپنی اجرت بڑھادیتے ہیں۔ پلمبر، الیکٹریشن، مستری، مزدور، دھوبی، رنگ ساز، بڑھئی، ویلڈر، لوہار، مکینک، درزی، بھٹیارے اور دوسرے بہت سے کاریگر اپنے معاوضے میں من چاہا اضافہ کرکے لُوٹ مار شروع کردیتے ہیں۔ حالات کی تبدیلی کا اِن سے زیادہ فائدہ کوئی نہیں اٹھاتا۔ جب سبھی اپنے اپنے مقام پر وصولی میں لگے ہوئے ہیں تو پھر مہنگائی کا رونا کیوں؟ اور لطف کی بات یہ ہے کہ حالات کتنے ہی خراب ہوں اور گاہک چاہے کتنے ہی کم ہوں‘ کوئی اپنے نرخ یا چارجز گھٹانے کو تیار نہیں۔ خاصے بُرے حالات میں بھی لوگوں کو اس معاملے میں انتہائی غیر لچکدار ہی دیکھا گیا ہے۔ کوئی بھی اپنا مفاد معمولی سی حد تک بھی ترک کرنے پر آمادہ دکھائی نہیں دیتا۔ مہنگائی بڑھنے کے ساتھ ساتھ سب اپنا اپنا معاوضہ بڑھاتے چلے جاتے ہیں۔ دکاندار گاہکوں کی جیب خالی کرنے کے لیے نئے ہتھکنڈے اختیار کرتے جاتے ہیں۔ ایسے میں اگر کوئی طبقہ واقعی ستم رسیدہ ہے تو وہ ہے تنخواہ دار طبقہ۔ جن لوگوں کی تنخواہ معیّن ہے وہ مہنگائی کی چکّی میں بُری طرح پس رہے ہیں۔ اگر تنخواہ میں باقاعدگی سے اضافہ نہ ہو تو تنخواہ دار طبقے کے معاملات بگڑتے چلے جاتے ہیں۔ ڈھنگ سے جینا عذاب کی شکل اختیار کرتا جاتا ہے۔ مہنگائی پر قابو پانا حکومت سے زیادہ اہلِ وطن کا اپنا فرض ہے۔ معاشی سرگرمیوں میں اخلاقیات کا متعارف کرایا جانا لازم ہوچکا ہے۔ اس حوالے سے علمائے کرام اور سیاسی و سماجی قائدین مل کر کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اگر ایک دوسرے کو لُوٹنے سے مہنگائی ختم ہوسکتی تو پھر مہنگائی کہیں پائی ہی نہ جاتی۔