خود کو قبول کریں ۔۔۔۔۔ سمیرا احمد
Khud ko qabool karen.jpg
مائیکل جیکسن، بے انتہاء قابل اور حیران کن صلاحیتوں کا مالک تھا۔وہ دنیا کے چند مشہور ترین افراد میں شمار ہوتا تھا۔اسے دیکھتے ہی اس کے مداح بے ہو ش ہو جایا کرتے تھے۔اس کے کنسٹرٹ میں فرسٹ ایڈ کی ٹیم بہت ایکٹیو رہتی تھی کیونکہ اسے اسٹیج پر ایک جھلک دیکھ کرلوگ دیوانے ہوجاتے تھے۔اس جیسا ڈانس کرنے میں لوگ آج بھی ناکام رہے ہیں، کیونکہ اس کے جسم میں بے مثال انرجی اور لچک تھی۔ اس کی طرح''مون واک‘‘ آج تک کوئی نہیں کر سکا۔ دنیا میں بہت لوگ مشہور ہوئے لیکن آج تک کوئی''مائیکل‘‘کی طر ح مشہور نہیں ہوا۔یہ تفصیل میں نے کس لیے بتائی ہے؟
توسنیں!کہ میں جب جب مائیکل کی زندگی پر غور کرتی ہوں، میرا دل افسوس سے بھر جاتا ہے کہ اتنا ٹیلنٹ، اتنی شہرت، اتنا پیسہ، اور اتنی محبت ملنے پربھی وہ خوش اورمطمئن نہیں تھا۔ اور کیوں نہیں تھا؟کیونکہ اس نے کبھی خود کو''قبول‘‘ ہی نہیں کیا تھا۔ وہ اپنے ٹیلنٹ کو پہچانتا تھا لیکن''خود‘‘کو نہیں۔ وہ اپنے ٹیلنٹ سے محبت کرتا تھا لیکن ''اپنی شناخت‘‘سے نفرت کرتا تھا۔اسے اپنے سیاہ فام ہونے سے صرف مسئلہ نہیں تھا بلکہ نفرت تھی۔پیسہ آتے ہی اس نے سب سے پہلے اپنی شناخت بدلی...... اپنا رنگ بدل لیا۔ اس نے سرجری کروا کر خود کو''سفید‘‘بنوا لیا۔اسے اپنے ماضی سے نفرت تھی، وہ بہت غریب رہا تھا۔ اس نے اپنا خاندان چھوڑ دیا۔اپنے ایڈریس بدل لیے کہ کسی کو خبر ہی نہ ہو کہ اس کا تعلق کہاں سے رہاہے۔حتیٰ کہ اس نے کرایے پر گورے ماں باپ بھی حاصل کر لئے۔ اپنے سب دوستوں سے جان چھڑوا لی۔اسے غربت، بچپن کے مصائب، خاندان، اور ''سیاہ رنگ‘‘ نے کبھی سکون نہیں لینے دیا۔
اس نے سے اپنا''رنگ‘‘بدل لیا، خود کو ''سفید‘‘بنا لیا۔اس نے اس زمانے میں اس طرح کی سرجریاں کروائی تھیں، جب لوگ دل وغیرہ کی سرجری کروانے کو بڑی چیز سمجھتے تھے۔اس نے ڈاکٹرز کی ٹیم بنائی، اور خود کو باقاعدہ''تباہ‘‘کر لیا۔انجام کار!اس کا نارمل جسم، ابنارمل ہو گیا۔اس کے لیے اسپیشل انجکشن بنتے تھے، جو صرف اسی کے لیے بنتے تھے۔اس کے جسم میں کئی طرح کی پیچیدگیاں پیدا ہو گئیں۔ ذہنی مسئلے کھڑنے ہونے لگے کہ و ہ خوفزدہ رہنے لگا۔ اسے طرح طرح کے وہم ستانے لگے کہ اس نے رات کو آکسیجن ٹینٹ میں سونا شروع کر دیا۔جراثیم اور بیماریوں سے بچنے کیلئے دستانے پہن کر لوگوں سے ہاتھ ملانے لگا۔ منہ پر مستقل ماسک پہننے لگا۔اس کے گھر میں ڈاکٹرز کی پوری ٹیم موجود رہتی، جو روزانہ اس کے جسم کے ایک ایک حصے کا معائنہ کرتی تھی۔اس کے کھانے کا روزانہ لیبارٹری ٹیسٹ ہوتا تھا، پھر وہ کھاتا تھا۔ اس نے اپنے لئے فالتو دل، پھیپھڑوں،گردوں،آنکھوں، جگر وغیرہ کا پہلے سے ہی بندوبست کر لیا تھا۔یہ ڈونر تھے جن کے تمام اخراجات وہ اٹھا رہا تھا، وقت پڑنے پر ڈونرز کو اپنا دل، جگر سب نکال کر مائیکل کو دینا تھا۔ لیکن اس کی نوبت ہی نہیں آئی اور وہ میڈیسن کی زیادتی سے ہی مر گیا۔مائیکل جیکسن کا پوسٹ مارٹم ہوا تو پتہ چلا کہ اندر سے اس کا جسم ڈھانچہ بن چکا تھا۔ اس کی پسلیاں ٹوٹی ہوئی تھیں۔ انجکشن کی سوئیوں کے بے تحاشا نشانات تھے۔ وہ پلاسٹک سرجری کی وجہ سے ''پین کلرز‘‘ کا محتاج ہو چکا تھا چنانچہ روزانہ درجنوں انجیکشن لگواتا، کئی طرح کی میڈیسن کھاتا تھا۔ و ہ میڈیسن کے بغیر سو ہی نہیں سکتا تھا۔ جب کئی دن تک اسے ''نیند‘‘ نہیں آئی تو میڈیسن کی مقدار بڑھا دی، جس سے وہ مر گیا۔
اور یہ ساری کہانی کہاں سے شرو ع ہوئی؟غور کریں ......اس میں ہمارے لیے بہت اہم سبق ہیں۔ کہانی یہاں سے شروع ہوئی کہ اسے ''خود‘‘سے نفرت تھی، وہ اپنی شناخت بدلنا چاہتا تھا۔ اس نے خود کو قبول نہیں کیا۔وہ کبھی مطمئن نہیں ہوا،جبکہ اس کے پاس جو ٹیلنٹ تھا وہ آج تک کم ہی لوگوں کو نصیب ہوا ہے۔ جتنی دولت کا مالک وہ تھا، اتنی دولت تو بادشاہوں کے پاس بھی نہیں ہوتی، پھر بھی وہ ''ناخوش‘‘تھا۔
کیونکہ جو اس کے پاس تھا اس نے اس کی قدر نہیں کی۔جو اس کے پاس نہیں تھا وہ اس کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا اور خود کو تباہ کر لیا۔یہ سب باتیں میں آپ کو کیوں بتا رہی ہوں؟ صرف اس لیے کہ سب ''بیوٹی اسٹینڈرز‘‘پھاڑ کر پھینک دیں۔ پرسکون ہو جائیں، اطمینان پا لیں، خود کو قبول کریں۔ آپ لمبے ہیں، پتلے ہیں، چھوٹے ہیں،گورے ہیں، کالے ہیں، جیسے بھی ہیں، خود کو قبول کریں۔خود سے محبت کریں۔ خود سے بھاگنے کی کوشش نہ کریں،ورنہ ساری عمر بھاگتے ہی رہیں گے۔ آپ گاؤں سے ہیں، شہر سے ہیں، آپ کے والدین غریب ہیں، آپ کا بچپن مصیبت زدہ ہے، یا آپ بروکن فیملی سے ہیں ......اسے قبول کر لیں ......اس پر اطمینان حاصل کر لیں۔آپ کی شادی ٹوٹ گئی، رشتے داروں نے اچھا سلوک نہیں کیا، فرینڈز نے دھوکا دیا، محبت میں بے وفائی ملی، وعدہ کر کے مکر گئے، آپ وہ نہیں پا سکے جس کے خواب دیکھتے تھے، وہاں شادی نہیں ہو سکی جہاں کرنی تھی......قبول کر لیں ......بس قبول کر لیں ......بے چینی سے نکل آئیں۔
آج ساری دنیا کے کام پس پشت ڈالیں!آج اپنے لیے فرصت نکالیں!کہیں بیٹھ جائیں ......گہرا سانس کھینچیں......اور آج سے سب کچھ قبول کرنا شروع کر دیں، اور پھر اطمینان پا نے کی طرف نکل کھڑے ہوں۔ اپنی مرمت ابھی سے کرنا شروع کر دیں کہ دیر نہ ہو جائے۔ آپ ٹوٹے ہوئے ہیں، ابھی سے خود کو جوڑ لیں ورنہ''ملبہ‘‘بن جائیں گے۔اور ملبہ کسی کام کا نہیں ہوتا۔ آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر، خود کو بڑی محبت سے دیکھیں اور کہیں ''تم بہت خوبصورت ہو!کیونکہ اللہ کی تخلیق میں نقص نہیں ہو سکتا‘‘۔اپنی شناخت کو قبول کریں۔کبھی بھی اپنی شناخت،اپنے ماضی، اپنے مصائب پر شرمندہ نہ ہوں۔ آج سے ہی اطمینان حاصل کرنے کا سفر شروع کریں۔ آج سے ہی خود کو تھپکی اور تسلی دینے کا نیک کام شروع کر دیں۔آپ کو خود ہی اپنا معمار بننا ہے۔