پی ڈی ایم کے جلسے۔۔۔الزامات کی سیاست؟ ۔۔۔۔۔۔ عبدالکریم
پی ڈی ایم کے جلسوں میں عوام کا جوش اتنا زیادہ نہیں تھا جتنا ہونا چاہیے تھا. تحریک کی شروعات گوجرانوالا سے ہوئی جو کہ بہت اچھی تھی لیکن اختتام بہت برا ہوا۔ شروع میں سٹیڈیم فل بھرا ہوا تھا، لوگوں میں جوش عروج پر تھا، سب لیڈروں نے پرجوش تقاریر کیں لیکن یہ حقیقت بھی مدنظر رکھنی چاہئے کہ جلسے کو ٹھیک طرح سے پلان نہیں کیا گیا، عوام بہت جلد آگئے تھے لیکن لیڈران بہت دیر سے پہنچے۔ اس وجہ سے جلسے کو خود پی ڈی ایم رہنماوں نے خراب کیا۔
رہنما ریلیوں کی شکل میں جلسہ گاہ پہنچے جس کی وجہ سے کافی وقت لگا، لوگ کافی دیر جلسہ گاہ میں انتظار کرتے رہے۔ پھر وہی ہوا جو ہونا تھا کہ لوگ جلسہ ختم ہونے سے پہلے ہی چلے گئے۔ آخر میں مولانا فضل الرحمان کو خالی کرسیوں سے خطاب کرنا پڑا۔
گوجرانوالا کے جلسے میں بہت سخت زبان استعمال کی گئی، سب سے پہلے خواجہ آصف نے عمران خان کو گالی دی حالاں کہ ہمارے ملک میں گالی کی سیاست کا ایک عجیب کلچر بن چکا ہے۔ جو بھی اپوزیشن آتی ہے وہ حکومت کو گالیاں دینا شروع ہو جاتی ہے۔ خواجہ صاحب عوام کو کہتے ہیں کہ آپ کی آواز اسلام آباد تک پہنچ رہی ہے، اس بے غیرت تک پہنچ رہی ہے لیکن نہ اس کے پاس شرم ہے نہ اس کے پاس حیا ہے نہ اس کے پاس غیرت ہے وہ استعفٰی نہیں دے گا۔ وہ وقت آئے گا آپ کا یہ سیلاب اسلام آباد جائے گا، ہم اس کو اقتدار سے نکالیں گے۔
اس کے بعد بلاول بھٹو نے بھی بہت سخت زبان استعمال کی، بلاول بھٹو نے عمران خان صاحب کی موجودہ اہلیہ کو جادوگرنی کہہ دیا۔ مجھے بلاول بھٹو صاحب اور ان کی پارٹی سے اس طرح کی باتوں کی توقع نہیں تھی، میں تو پیپلز پارٹی کو ایک سلجھی ہوئی گالم گلوچ سے پاک پارٹی سمجھتا تھا، اس طرح کی گالم گلوچ کی روایت پیپلز پارٹی کاخاصا نہیں تھا، بی بی شہید نے تو کبھی اس طرح کی زبان نہیں استعمال کی، پتہ نہیں بلاول بھٹو صاحب کو کون ایسی سیاست سکھا رہا ہے۔ یہ سب باتیں کر کے آپ کس طرح حکومت کے ساتھ اچھے تعلقات کا سوچ سکتے ہیں۔ خواجہ آصف اور بلاول بھٹو صاحب عمران خان کے حوالے سے جو زبان استعمال کر رہے ہیں، آج مجھے اس لیے عجیب نہیں لگ رہی کیونکہ عمران خان بھی پچھلی حکومت کے دوران سخت زبان استعمال کرتے رہے ہیں۔
سب سے پہلے یہ کلچر نواز شریف نے شروع کیا، جب بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت آئی تو نوازشریف خود توسخت زبان استعمال کرتے تھے۔ شیح رشید اس میں سب سے آگے آگے ہوا کرتے تھے، ایک دفعہ نواز شریف نے اخیر ہی کردی، بے نظیر بھٹو کی تصویریں تک ہیلی کاپٹر کے ذریعے پھینکوائیں گئیں، بے نظیر بھٹو کے لیے جتنی گندی زبان استعمال کر سکتے تھے، کی، یہ سب باتیں تاریخ کا حصہ ہیں۔
اب جب 2013 سے 2018 کی ن لیگ کی حکومت کو بھی اپوزیشن نے بہت گالیاں دیں، یہ کہنا کہ گالیوں کی سیاست کا آغاز عمران خان نے کیا یہ بالکل غلط ہے۔ یہ آغاز 80 کی دہائی کے آخر سے شروع ہوا جو ابھی تک ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ پہلے گالی چھپ کے دیتے تھے اب سامنے دیتے ہیں بلکہ اس وقت زیادہ جوش کے ساتھ گالی دیتے ہیں، جب ان کو پتہ چلے کہ ان کو ٹی وی پر دکھایا جارہا ہے، پتہ نہیں یہ کس قسم کے لیڈر ہمارے اوپر مسلط ہوگئے ہیں جو قوم کا اخلاق خراب کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ جن کو نہ اپنی اولاد کا احساس ہے نہ ہی دوسروں کی اولاد کا۔ یہ ہم کس قسم کی نسل کو پروان چڑھا رہے ہیں، عوام ہمیشہ اپنے لیڈر کو فالو کرتی ہے۔ جس طرح کی لیڈر کی زبان ہوگی ویسے ہی اس کے کارکن کی زبان ہوگی۔
نواز شریف نے جو اداروں کی تذلیل کی ہے، جو موجودہ اداروں کے سربراہان پر الزامات لگائے ہیں، شاید ہی ملکی تاریخ میں اس کی مثال ملے۔ یہ پہلی دفعہ ہوا کہ نواز شریف نے حاضر سروس اداروں کے سربراہان پر الزام لگائے، جس سربراہ پر آپ الزام لگا رہے ہیں جب اس کی مدت ملازمت میں توسیع کا وقت آیا تو آپ نے مدت ملازمت میں توسیع کے لیے ووٹ دیا، اب آپ کس منہ سے اس کو غلط کہہ رہے ہیں اور جو آپ ا لزامات لگا رہےہیں وہ سب الزامات توسیع سے پہلے کے ہیں، اگر فرض کریں آپ کے الزامات درست ہیں تو پھر آپ نےملازمت میں توسیع کے لیے ووٹ کیوں دیا؟ آپ کی ایسی کیا مجوری تھی؟ آپ نے اپنے ووٹر کو دھوکے میں کیوں رکھا؟ یہ الزامات نواز شریف کے اپنے اوپر سوالات ہیں۔ نواز شریف کو عوام کو ان سوالات کا جواب دینا ہوگا۔ آپ بیماری کا بہانہ بنا کر علاج کی غرض سے باہر گئے ہیں مگر بیماری کو چھوڑ کر سیاست شروع کردی۔
گوجرانوالا جلسے کے اگلے ہی دن وزیراعظم عمران نے ٹائیگر فورس سے اپنے خطاب کے دوران نواز شریف کو خوب لتاڑا۔ عمران خان نے نواز شریف کو کہا یہ جو اداروں پر بات کر رہا ہے، ہندوستان کی زبان بول رہا ہے، جس ادارے کو نواز شریف غلط کہہ رہا ہے، انہی اداروں کے ماضی کے سربراہان نے اس کی سیاسی پرورش کی۔ عمران خان نے نواز شریف کو گیدڑ کہہ دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف اداروں کو دھوکہ دے کر ملک سے باہر گیا ہے، عمران خان نے نواز شریف کی ملک سے باہر جانے اور جلسے میں تقریر والی فوٹو چلائی اور عوام کو بتایا کہ نواز شریف کس طرح سے دھوکہ دے کر ملک سے باہر علاج کے لیے گیا ہے۔ اب باہر بیٹھ کر اداروں پر انگلیاں اٹھا رہا ہے عمران خان نے مریم نواز اور بلاول بھٹو کو بھی آڑے ہاتھوں لیا، کہا یہ دونوں بچے اپنے والدین کی حرام کی کمائی سے بڑے ہوئے ہیں، ان کو کیا پتہ حلال کی کمائی کیا ہوتی ہے، ایک تو نانی بھی بن گئی ہے لیکن وہ بھی میرے نزدیک بچی ہی ہے۔
مولا نا فضل الرحمان کے بارے میں عمران خان نے کہا یہ 12 واں کھلاڑی ہے، اس پر تو میں بات ہی نہیں کرتا کیونکہ 12 واں کھلاڑی کھیل کے میدان میں نہیں ہوتا، اس لیے مولانا فضل الرحمان تو سیاست کے میدان میں بھی نہیں ہیں۔ عمران خان نے اپنے خطاب میں اپوزیشن کے گوجرانوالا کے جلسے کا حساب خود ہی برابر کر دیا۔
پی ڈی ایم کا کراچی کا جلسہ بھی ناکام رہا، عوام کا جوش بھی اتنا زیادہ نہیں تھا۔ عوام کو اندرون سندھ سے لایا گیا یہ جلسہ شروع ہی بہت برا ہوا۔ مریم نواز جب کراچی پہنچیں تو وہ مزار قائدؒ پر حاضری کے لیے گئیں۔ وہاں پر جو ہوا، وہ بہت ہی برا تھا۔ قائدؒ کے مقبرے پر کیپٹن صفدر نے نعرے لگائے، ووٹ کو عزت دو، جمہوریت کو عزت دو۔ کیونکہ یہ نعرے مزار کے احاطے کے اندر لگائے گئے، اس لیے لوگ سمجھتے ہیں کہ مزار کی بے حرمتی کی گئی ہے۔ اس کے بعد شام میں جلسہ ہوا جو رات دیر تک چلتا رہا۔ مریم نوار ،بلاول بھٹو ،مولانا فضل الرحمان نے اپنے اپنے خطاب کیے۔ سب نے حکومت کو خوب لتاڑا اور جب جلسہ ختم ہوا سب لوگ چلے گئے، تو تحریک انصاف کے لوگوں نے قائدؒ کے مزارکی بے حرمتی پرکیپٹن (ر) صفدر کے خلاف کراچی کے تھانے میں درخواست دی۔
احتجاج کے بعد ایف آئی آر کٹی، عملدرآمد کیا گیا اور کیپٹن صفدر کو کراچی پولیس نے گرفتار کیا۔ پھر سیاست شروع ہوگئی کہ پولیس نے تالا توڑ کر کیپٹن صفدر کو ہوٹل کے کمرے سے باہر نکالا اور ساتھ لے گئے۔ خیر پھر عدالت نے ضمانت پر کیپٹن صفدر کو رہا کر دیا۔ سیاست کو سیاست دان خود خراب کرنےمیں لگے ہوئے ہیں، ہر حکومت اپوزیشن کو گالی سمجھتی ہے۔ اسی طرح ہر اپوزیشن حکومت کو گالی سمجھتی ہے۔ پتہ نہیں یہ سلسلہ کب ختم ہوگا۔ سیاست دانوں نے سیاست کو بازار بنا دیا ہے۔ عوام کا کوئی نہیں سوچتا۔
دوسری جانب مہنگائی نے عوام کا جینا حرام کیا ہوا ہے۔ نہ آٹا ملتا ہے نہ چینی ملتی ہے نہ سستی سبزیاں، پھل، کچھ بھی عوام کو آسانی سے میسر نہیں۔ عوام دہائیاں دینے پر مجبور ہے۔ حکمران ہیں کہ ان کی آنکھوں پر پٹیاں بندھی ہوئی ہیں، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے چکر میں عوام پس رہی ہے لیکن ہمارے سیاست دانوں کو اپنی پڑی ہوئی ہے۔ کرپشن اور لوٹ مار ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ ہر طرف مافیاز کا راج ہے۔ قوم حقیقی حکمران کی تلاش میں ہے۔ پتہ نہیں کب عوام کا درد رکھنے والا حکمران نصیب ہوگا اور کب ملک کے حالات بدلیں گے؟ سیاستدان ہیں کہ الزامات کی سیاست سے باہر نہیں نکلتے، عوام کا دکھ، درد اور فریاد کوئی سننے والا نہیں۔ اللہ اس مملکت خداداد کا حامی و ناصر ہو! آمین۔۔۔