دقیانوسی سوچ
Ûماری نسل Ù†Û’ اپنے بچپن Ú©Û’ ایام جس سماج میں گزارے، آج اس Ú©Û’ تانے بانے مکمل طور بکھر Ú†Ú©Û’ Ûیں، بڑوں کا اØ+ترام اور چھوٹوں پر Ø´Ùقت Ûمارے سماج Ú©ÛŒ ایک بڑی خوبی تھی، چھوٹے چھوٹے بچے کھیل میں مصرو٠ÛÙˆ تے،لیکن جب کسی بزرگ کوگزرتے دیکھتے تو ان سب Ú©Û’ Ù…Ù†Û Ø³Û’ بے Ø³Ø§Ø®ØªÛ Ø§ÛŒÚ© ساتھ ’’السلام علیکم ‘‘کی صدائیں بلند Ûوتیں۔ نوجوان کسی اجتماعی کام سے قبل اپنے بڑوں Ú©ÛŒ اجازت Ø+اصل کرنا ضروری سمجھتے، خاندان Ú©Û’ بڑے سرپرست سمجھے جاتے، کسی بھی کام سے Ù¾ÛÙ„Û’ ان سے مشاورت لازم Ûوتی، ان Ú©ÛŒ رضا مندی Ú©Û’ بغیر کوئی بھی کام مشکل Ûوتا،سماج Ú©Û’ Ûر Ùرد Ú©Û’ دل میں سماجی اصول وقوانین کا خو٠ÛÙˆ تا،کسی بھی غیر اخلاقی کام سے Ù¾ÛÙ„Û’ انÛیں سماجی دباؤ کا ضرور خیال آتا، بزرگ مل بیٹھ کر بڑے سے بڑا Ù…Ø³Ù„Û Ø+Ù„ کر لیتے، بڑی بڑی نا چاقیاں گاؤں Ú©ÛŒ میٹنگوں میں ختم کر Ù„ÛŒ جاتیں، خاندانی جھگڑے بھی ÛŒÛیں نمٹا لیے جاتے، لین دین Ú©Û’ قضیے بھی ÛŒÛیں Ø+Ù„ کر لیے جاتے، ØªÚ¾Ø§Ù†Û Ù¾ÙˆÙ„ÛŒØ³ تک Ù…Ø¹Ø§Ù…Ù„Û Ù¾Ûنچنا پورے گاؤں Ú©Û’ لیے باعث عار سمجھا جاتا،اور اگر کوئی Ø+ماقت کر Ú©Û’ تھا Ù†Û Ù¾ÛÙ†Ú† بھی جاتا تو تھانے سے اسے سماج میں بھیج دیاجاتا، سماج میں Ù…Ø³Ø¦Ù„Û Ø+Ù„ Ù†Û Ûوپانے Ú©ÛŒ صورت میں Ù…Ù‚Ø¯Ù…Û Ø¯Ø±Ø¬ ÛÙˆ تا،یعنی سماج Ø+اوی تھا اورسماجی بائیکاٹ کا قانون پوری طرØ+ موثر !۔اب ÛŒÛÛŒ لوگ دقیانوسی سوچ Ú©Û’ مالک Ú©Ûلاتے Ûیں۔