دہشت کے احساس نے میری زندگی سنوار دی ۔۔۔۔ تحریر : نجف زہرا تقوی

Dehshat ka ehsas.jpg
گھبراہٹ و دہشت ایک خاص عارضہ جسے غیر ملکی خاتون ’’کرسٹین‘‘ نے اپنی طاقت بنایا
امریکی خاتون کرسٹین کہتی ہیں کہ بیس سال کی عمر میں دل کی دھڑکن بڑھ جانے اور شدید بے چینی محسوس ہونے پرمیں نے ڈاکٹر سے معائنہ کروایا جس کے بعدمجھے ایک ایسی بیماری تشخیص کی گئی جس کا پہلے میں نے نا م تک نہیں سن رکھا تھا۔مجھے بتایا گیا کہ میں ’’دہشت زدہ ‘‘ہونے کے عارضے میں مبتلا ہوں۔تب تو میں ٹھیک سے نہیں سمجھ پائی کہ یہ کیسی بیماری ہے اور اس کا علاج کس طرح ممکن ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ اور ڈاکٹروں کے تعاون سے جلد ہی میں نے جان لیا کہ مختلف وجوہات کی بناء پر لوگ اچانک کسی موقعے پر گھبراہٹ اور دہشت کا شکار ہونے لگتے ہیں۔بے شمار لوگوں کی نظر میں شاید یہ اعتماد کی کمی ہے،لیکن طب کے مطابق ٹھیک ٹھاک کام کرتاہوا انسان اگر کسی خاص موقعے پر گھبراہٹ یا بے چینی محسوس کرنے لگے تو یہ ایک خاص قسم کی بیماری ہے جس کا علاج بلا شبہ ممکن ہے۔

مجھے ٹھیک سے یاد بھی نہیں کہ پہلی بار جب میں گھبراہٹ کا شکار ہوئی تو اس کی کیا وجہ تھی۔بس اتنا بتا سکتی ہوں کہ اچانک مجھے سانس لینے میں دقت محسوس ہونے لگی تھی اور میں خود کو شدید بے بس محسوس کر رہی تھی۔شاید میں یہ نہیں جانتی کہ اس کی وجہ کیا تھی لیکن اتنا ضرور جان چکی ہوں کہ آئندہ زندگی میں اس قسم کی کیفیت کا شکار ہونے پر اپنے اعصاب پر قابو رکھنا کس طرح ممکن ہو گا۔

فطری طور پر میں ایک آزادی پسند،فطرت سے قریب رہنے والی خوش مزاج لڑکی ہوں۔اسی لیے چاہتی تھی کہ اپنی بیماری کو دور کرنے کے لیے خود کو دوائوں کا عادی نہ بنائوں۔میرے لیے غنودگی میں رہنا یا گھنٹوں سونا ایسا ہی تھا جیسے میں اپنی ہی بیماری سے خوف کھا رہی ہوں یا مسئلے کا حل ڈھونڈنے کی بجائے اس سے آنکھیں چُرا رہی ہوں،لہٰذا اپنی دائمی بے چینی اور گھبراہٹ پر میں کسی ایسے طریقے سے قابو پانا چاہتی تھی جس کے بعد بھی میں بھر پور زندگی گزار سکوں۔شاید سننے میں یہ ایک انوکھی یا عجیب بات لگے لیکن یہی حقیقت ہے،میں اپنی گھبراہٹ کا علاج کرنے سے ہر گز نہیں گھبرا رہی تھی،بلکہ اسی کو اپنی طاقت بنا کر جینا چاہتی تھی کیونکہ میں جانتی تھی کہ آنے والے کل میں مجھے مزید بہادر بنانے اور حوصلہ دینے کے لیے یہی سوچ کافی ہو گی کہ میں نے اپنی قوتِ ارادی سے ایک بیماری پر قابو پا لیا۔

’’اینزائٹی اینڈ ڈپریشن ایسو سی ایشن آف امریکہ‘‘ کے مطابق گھبراہٹ یا بے چینی کا شکار ہونا اس وقت دنیا میں پائی جانے والی سب سے زیادہ اور عام بیماری ہے۔خاص طور پر اس کی شرح بیرونی ممالک میں کہیں زیادہ ہے جہاں ہر سال چھوٹی یا بڑی عمر کے چالیس لاکھ افراد اس بیماری کا شکار ہوتے ہیں۔ایک اور مشاہدے کے مطابق مردوں کی نسبت خواتین زیادہ جلدی بے چینی اور گھبراہٹ کا شکار ہو جاتی ہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سی وجوہات ہیں جن کے باعث انسان دہشت یا گھبراہٹ کا شکار ہوتا ہے تو جان لیں کہ طبی تحقیق کے مطابق خطرے کے عوامل،جینیاتی وجوہات،دماغی کیمسٹری،انسان کی اپنی ذات یا زندگی میں پیش آنے والی مختلف واقعات یا حادثات اس کی بڑی وجوہات ہیں۔

ڈائریکٹر آف سائیکاٹرسٹ ایمرجنسی سروسز اوہیو ہیلتھ کلینک کولمبس’’میگن شیبنگ‘‘ کے مطابق ’’ہم چاہیں تو اس دماغی بیماری کو ہی اپنی طاقت بنا سکتے ہیں۔میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ ایسے لوگ جو وقت پر پہنچنے کی جلدی میں رہتے ہیں یا جلد گھبراہٹ کا شکار ہو جاتے ہیں یہ زندگی میں مختلف مقامات پر بڑی سبقت لے جاتے ہیں‘‘۔یہ مزید کہتی ہیں کہ ’’ ایسا مانا جاتا ہے کہ گھبراہٹ یا بے چینی کسی چیز کے بارے میں حد سے زیادہ سوچنے یا پریشان ہونے کی وجہ سے ہے لیکن در حقیقت یہی دونوں عوامل انسان کے اندر ہمت اور حوصلہ پیدا کرنے کا سبب بھی بنتے ہیں۔بس ہمیں ضرورت ہوتی ہے تو اسے سمجھ کر اپنے اعصاب پر قابو پا لینے کی‘‘۔ڈاکٹر شیبنگ کے مطابق’’لیکن ہمیں بے چینی کو اپنی ناکامی یا بُرے رویے کی وجہ نہیں بنانا چاہیے بلکہ کوشش کرنی چاہیے کہ جس طرح بھی ممکن ہو اس کا حل تلاش کیا جائے،کیونکہ میڈیکل کی دنیا میں تھیراپی ،قوتِ ارادی یا دوائوں کے ذریعے بھی اس کا علاج100فیصد ممکن ہے‘‘۔

بے چینی اور گھبراہٹ میں اعصاب پر قابو پانے کے چند بہترین طریقے:

کرسٹین کا کہنا ہے کہ بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح جب کبھی میں گھبراہٹ محسوس کرتی تو ایک جگہ سکون سے نہیں بیٹھ پاتی تھی،بلکہ ایسے میں مجھے اپنے اندر کئی گنا زیادہ توانائی محسوس ہوتی تھی اور میں مسلسل چلنے پھرنے لگتی تھی۔ڈاکٹر کے مشورے سے میں نے اپنے اس عمل کو مثبت شکل دینے کی کوشش کی۔اب جب کبھی میرا دماغ ضرورت سے زیادہ سوچنے لگتا اور میرے دل کی دھڑکن بے ترتیب ہونے لگتی تو بجائے بے وجہ چہل قدمی کرنے کے میں اپنی پانی کی بوتل پکڑ کر سیر کو نکل جاتی یا سائیکل چلانے لگتی تھی۔اگر کسی وجہ سے میرے لیے گھر سے باہر جانا ممکن نہ ہوتا تو اپنی توانائی کو میں ہلکی پھلکی جمپنگ کر کے استعمال کر لیتی تھی۔آپ یقین کریں کہ اس سے مجھے نہ صرف اپنی گھبراہٹ پر قابو پانے میں مدد ملنے لگی بلکہ میں جسمانی طور پر بھی بہتر ہونے لگی تھی۔ڈاکٹر شیبنگ کے مطابق بھی’’ورزش بے چینی دور کرنے کا بہترین طریقہ ہے۔چند منٹ کی جسمانی حر کت نہ صرف آپ کے دماغ کو پُر سکون کر دیتی ہے بلکہ اینڈورفنزکو بھی جسم سے خارج کرتی ہے جو جسم کے opiate receptors کو متحرک کر دیتے ہیں جو کہ جسمانی درد یا پریشانی دور کرنے کا سبب بنتے ہیں‘‘۔

کرسٹین کے مطابق اس بیماری پر قابو پانے کی کوشش نے میری جسمانی صحت کو بے حد فائدہ پہنچایا ہے۔علاج کے لیے میں لوگوں سے بات کرنے لگی،جسمانی ورزشوں کو وقت دینے لگی اور قدرتی ٹوٹکے بھی آزمائے جن کا اثر میری صحت پر بھی پڑا۔ایک تحقیق کے مطابق اومیگا تھری فیٹی ایسڈ گھبراہٹ دور کرنے میں بے حد معاون مانا جاتا ہے،میں نے اس کا استعمال اپنی خوراک میں شروع کر دیا۔مچھلی،خشک میوہ جات اورالسی کے بیچ اس کے حصول کا بہترین ذریعہ ہیں،اور بلاشبہ صحت کے لیے بھی بہترین مانے جاتے ہیں۔ دوسری اہم بات جو اپنے تجربے کے بار ے میں بات کرتے ہوئے کرسٹین نے کہی کہ’’بے چینی یا گھبراہٹ میں انسان کا دماغ مسلسل چلنے لگتا ہے اور بہت سی منفی سوچیں آپ کے دماغ میں آنے لگتی ہیں۔ایسے میں آپ خود کو شاید سوچنے سے تو باز نہیں رکھ پاتے لیکن اگر اپنی سوچوں کا رُخ منفی کی بجائے مثبت واقعات کی جانب موڑ دیا جائے تو یقین کریں آپ خود کو بے حد پُر سکون محسوس کرنے لگیں گے۔کرسٹین کے مطابق کوئی بھی پریشانی،مسئلہ یا بیماری تب تک حل نہیں ہو پاتی جب تک ہم اس سے نمٹنے کے لیے مثبت سوچ یا رویہ نہ اپنائیں،کیونکہ کسی کی نظر میں رات اندھیرا لے کے آئی ہے جبکہ وہی رات کسی دوسرے کے لیے پھر سے اُجالا ہونے کی نوید ہے‘‘۔