امراض سے نجات ۔۔۔۔۔۔ علامہ ابستام الہی ظہیر
لوگوں کی غالب اکثریت اپنی زندگی کے مختلف ادوار میں کسی نہ کسی بیماری کا سامنا کرتی ہے‘ یہ بیماریاں کئی مرتبہ مختصر مدت کے لیے آتی ہیں اور کئی مرتبہ طول بھی پکڑ لیتی ہیں۔ بیماری نہ صرف یہ کہ انسان کی بے چینی اور بے قراری کا سبب بنتی ہے بلکہ اس کے متعلقین بھی اس وجہ سے بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ بیماری کے دوران کئی مرتبہ انسان مایوسی کا بھی شکار ہو جاتا ہے۔ اس حوالے سے کتاب وسنت میں بہت ہی خوبصورت انداز میں رہنمائی کی گئی ہے جس پر عمل پیرا ہو کر مریض اور اس کے متعلقین بہتر انداز میں اس آزمائش کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ اس ضمن میں پہلی بات جو سمجھنے کی ضرورت ہے‘ وہ یہ کہ ہر بیماری اور پریشانی اللہ تبارک وتعالیٰ ہی کے حکم سے آتی ہے اور اُسی کے حکم سے دور ہوتی ہے۔ اس حوالے سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قول کا ذکر سورۃ الشعراء کی آیت نمبر 80میں کچھ یوں مذکور ہے ''اور جب میں بیمار ہو جاؤں تووہی مجھے شفا دیتا ہے‘‘۔ اسی طرح سورہ توبہ کی آیت نمبر 51میں اس حقیقت کا ذکر کیا گیا ہے کہ جملہ تکالیف اللہ تبارک وتعالیٰ ہی کے حکم سے آتی ہیں اور کوئی تکلیف بھی انسان کو اُس کے حکم کے بغیر نہیں چھو سکتی۔ارشاد ہوا: ''کہہ دیجئے ہر گز نہیں پہنچے گا ہمیں(کوئی نقصان)مگر جو لکھ دیا ہے اللہ نے ہمارے لیے، وہ ہمارا رب ہے ، اور اللہ پر (ہی) پس چاہیے کہ بھروسہ رکھیں ایمان والے‘‘۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ بقرہ کی آیت نمبر102 میں جادو کے اثر ات کے حوالے سے اس بات کا ذکر کیا کہ جادو بھی اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکم کے بغیر انسان کو نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ چنانچہ ارشاد ہوا: '' لیکن شیطانوں نے کفر کیا (کہ) وہ لوگوں کو جادو سکھاتے اور جو وہ فرشتوں پر نازل کیا گیا بابل (شہر) میں ہاروت اور ماروت پر اور وہ دونوں نہ سکھاتے کسی ایک کو یہاں تک کہ وہ دونوں کہہ دیتے بے شک ہم آزمائش ہیں تو تُو کفر مت کر پھر (بھی) وہ سیکھ لیتے تھے ان دونوں سے وہ جو جدائی ڈالتے اس کے ذریعے مرد کے درمیان اور اس کی بیوی کے ، حالانکہ نہیں وہ نقصان پہنچا سکنے والے اس (جادو) کے ذریعے کسی ایک کو (بھی ) مگر اللہ کے حکم سے اور (وہ کچھ ) سیکھتے ہیں جو اُنہیں نقصان دیتا ہے اور نہیں نفع دیتا اُنہیں‘‘۔
اس بات کو سمجھ لینے کے بعد کہ انسان کی زندگی میں آنے والی جملہ تکالیف اور بیماریاں اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے ہیں اور وہی ان کو دور کرنے پر قادر ہے‘ انسان کو اطمینان حاصل ہوتا ہے کہ اس کی زندگی میں آنے والی مصیبت ، پریشانی یا بیماری اچانک نہیں آ گئی بلکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکم سے آئی ہے۔ جہاں پر ہر پریشانی کے حل کے لیے مادی تدابیر اختیار کی جاتی ہیں اسی طرح بیماریوں کا علاج ومعالجہ کروانا بھی درست ہے اوراس حوالے سے طبی ماہرین، حکما اور ڈاکٹروں سے رجوع کرنے میں کسی قسم کی قباحت نہیں۔ علاج کروانا یقینا سنت نبوی شریف سے بھی ثابت ہے اور نبی کریمﷺ نے خود بھی علاج کے مفید طریقوں کی طرف انسانوں کی رہنمائی فرمائی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس بات کو بھی سمجھنا ضروری ہے کہ امراض سے نجات حاصل کرنے کے لیے جہاں پر مروجہ طبی نسخوں پر عمل پیرا ہونا مفید ہے‘ وہیں پر شریعت اسلامیہ میں بتلائی گئی روحانی اور مادی تدابیر کو اختیار کرنابھی امراض سے نجات کے لیے مفید ہیں۔ اس ضمن میں بعض اہم تدابیر درج ذیل ہیں:
۔1۔ دُعا : جب انسان اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں گڑ گڑا کر دُعا مانگتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ اس کی دعاؤں کو سنتے اور ان کو قبول ومنظور فرماتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ بقرہ کی آیت نمبر 186میں اس بات کو واضح کر دیا کہ وہ پکارنے والے کی پکار کاجواب دیتے ہیں۔ ارشادہوا: ''اور جب آپ سے پوچھیں میرے بندے میرے بارے میں تو (بتادیں) بے شک میں قریب ہوں میں قبول کرتا ہوں دعا کرنے والے کی پکار کو جب وہ مجھے پکارے ۔پس چاہیے کہ (سب لوگ) حکم مانیں میرا اور چاہیے کہ وہ ایمان لائیں مجھ پر تاکہ وہ راہ ِ راست پا لیں‘‘۔ اسی طرح سورہ نمل کی آیت نمبر 62میں بھی اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس بات کو واضح کیاکہ اللہ تبارک وتعالیٰ لاچار کی دعا کو سنتے اور اس کی تکالیف کو دور فرماتے ہیں۔ ارشاد ہوا: ''(کیا یہ بت بہتر ہیں) یا جو (دعا) قبول کرتا ہے لاچار کی‘ جب وہ پکارتا ہے اُسے اور وہ دور کرتا ہے تکلیف کو‘‘۔
قرآن مجید کے مختلف مقامات پر سیدنا ایوب علیہ السلام کی بیماری کا ذکرکیا گیا ہے کہ جب ایک طویل بیماری کے بعد آپ علیہ السلام نے اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں دعا مانگی تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کی دعا کو قبول ومنظور فرماتے ہوئے آپ کی بیماری کو دور کر دیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ انبیاء کی آیت نمبر 83تا 84میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور ایوب علیہ السلام کو (یادکیجئے) جب اس نے پکارا اپنے رب کو کہ بے شک پہنچی ہے مجھے تکلیف اور تو سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے رحم کرنے والوں میں۔ تو ہم نے دعا قبول کر لی اس کی‘ پس ہم نے دور کر دی جو اس کو تکلیف تھی‘‘۔
احادیث مبارکہ میں بھی دعاؤں کے نتیجے میں مسائل کے حل ہونے کے بہت سے خوبصورت واقعات موجود ہیں۔ جن میں غار کے پتھر کا ایک واقعہ بھی ہے۔ تین مسافر ایک طوفانی بارش کی زد آ گئے تو انہوں نے ایک غار میں پناہ لی جس کے دہانے پر ایک وزنی پتھر آگرا۔ ایسے میں انہوں نے اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں اپنے اپنے نیک اعمال کو پیش کر کے دعا مانگی تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کو غار کے پتھر سے نجات دے دی تھی۔
۔2۔ توکل : جب انسان اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات پر بھروسہ کرتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ اس کے لیے کافی ہو جاتے ہیں اور انسان کی پریشانیوں اور غموں کے دور ہونے کے امکانات پیدا ہو جاتے ہیں۔ سورہ طلاق کی آیت نمبر 3میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ''اور جو اللہ پر بھروسہ کرے تو وہ کافی ہے اُسے‘ بے شک اللہ پورا کرنے والاہے اپنے کام کو یقینا اللہ نے مقرر کر رکھا ہے ہر چیز کے لیے ایک اندازہ‘‘۔
۔3۔ تقویٰ: تقویٰ اللہ تبارک وتعالیٰ کی خشیت کو اختیار کرتے ہوئے گناہوں سے بچ جانے کا نام ہے۔ جو شخص تقویٰ کو اختیار کر لیتا ہے اللہ تبارک وتعالیٰ اس کی جملہ تنگیوں کو دور فرما دیتے ہیں۔ سورہ طلاق کی آیت نمبر 2میں ارشاد ہوا: ''اور جو اللہ سے ڈرتا ہے (تو) وہ بنا دیتا ہے اُس کے لیے (مشکلات سے) نکلنے کا کوئی راستہ‘‘۔
۔4۔ ذکرِ الٰہی: قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے جوشخص اللہ تبارک وتعالیٰ کا ذکر کرتا ہے اللہ تبارک وتعالیٰ اس کا ذکر کرتے ہیں۔ پورا قرآن مجید اللہ تبارک وتعالیٰ کا ذکر ہے‘ اسی طرح احادیث مبارکہ میں بھی بہت سے اذکار مذکور ہیں جن کو مسلسل پڑھنے سے انسان کی بیماریاں دور ہو جاتی ہیں۔ خصوصیت سے سورہ فاتحہ، آیۃ الکرسی اورمعوذتین ‘ اسی طرح احادیث مبارکہ میں مذکور دعائیہ کلمات کا تواتر سے ذکر کرنے سے اللہ تبارک وتعالیٰ انسانوں کی بیماریوں کو دور فرما دیتے ہیں۔
۔5۔دم: ازخود ذکر الٰہی کی تلاوت کے ساتھ ساتھ مریض پر ذکر الٰہی کو پڑھ کر پھونکنا مریض کے لیے شفا کا سبب بن جاتا ہے۔ دم کرنا سنت نبوی شریفﷺ سے ثابت ہے اور دم کی برکت سے انسان کی بہت سی پیچیدہ بیماریاں بھی دور ہوتی ہیں۔
۔6۔ انفاق فی سبیل: انفاق فی سبیل اللہ بھی انسان کی تکالیف اور غموں کو دور کرنے کا سبب ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 274میں ارشاد فرماتے ہیں: ''وہ لوگ جو خرچ کرتے ہیں اپنے مال رات اوردن کو ، چھپا کر اور عِلانیہ طور پر تو ان کے لیے ان کا اجر ہے ان کے رب کے پاس اور نہ ان پر کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے‘‘۔ اسی طرح احادیث مبارکہ سے بھی یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ صدقہ و خیرات میں انسانی بیماریوں کا علاج ہے۔
۔7۔حسی اشیا سے علاج: ان روحانی تدابیر کے ساتھ ساتھ قرآن وسنت میں بہت سی مادی تدابیر کا بھی ذکر کیا گیا جن میں خصوصیت سے شہد، کلونجی، زیتون اور آبِ زم زم شامل ہیں۔ اگر ان کو بھی بیماریوں کے دوران استعمال کر لیا جائے تو یقینا انسان بیماریوں سے شفا یاب ہو سکتا ہے۔
۔8۔ مریض کی عیادت اور حوصلہ افزائی :امراض کو دورکرنے والے عوامل میں مریض کی عیادت اور اس کی حوصلہ افزائی بھی شامل ہے۔ جب کوئی شخص مریض کی عیادت کرنے جاتا ہے اس کی حوصلہ افزائی کرتا اور اس کے لیے دعائے خیر کرتا ہے تو اس سے مریض کا حوصلہ بڑھ جاتا ہے اور نفسیاتی اعتبار سے وہ امراض کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ احادیث مبارکہ میں بھی مریض کی عیادت کی بڑی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔ اس حوالے سے صحیح بخاری کی دو اہم حدیث درج ذیل ہے:
۔1۔حضرت عبداللہؓ بن عباس سے روایت ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی کی عیادت کو تشریف لے جاتے تو مریض سے فرماتے: لا بأس طہور إن شاء اللہ ''کوئی فکر کی بات نہیں، ان شاء اللہ یہ مرض گناہوں سے پاک کرنے والا ہے‘‘
۔2۔حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بھوکے کو کھانا کھلاؤ اور مریض کی عیادت یعنی مزاج پرسُی کرو اور قیدی کو چھڑاؤ۔
اگر مذکورہ بالا تدابیر پر عمل کر لیاجائے تو انسان کی جسمانی، روحانی اور نفسیاتی بیماریاں دور ہو سکتی ہیں۔اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تمام مریضوں کو شفا یاب فرمائے اورا ن کی بیماریوں کو آسودگی اور عافیت میں تبدیل فرمائے۔ آمین !