عزت تو پیوستہ ہے نامِ ’محمدﷺ‘ کے ساتھ .... امیر حمزہ

''اللہ ہی کیلئے ہیں ساری عزتیں‘‘ (فاطر:10) اللہ رب العزت اپنی آخری کتاب میں مزید ارشاد فرماتے ہیں ''عزت اللہ کیلئے ہے، اس کے رسولؐ کیلئے اور مومنوں کیلئے ‘‘ (المنافقون:8) ثابت ہوا عزت کا منبع اللہ تعالیٰ کی ہستی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد کریمﷺ کو معزز فرمایا‘ رسالت ایسی عطا فرمائی کہ ختمِ نبوت کی مہر آپؐ کے شانے مبارک پر نمایاں فرما دی اور آخری کتاب میں ''خاتم النبیین‘‘ والی آیت نازل فرما کر رسالت و نبوت کی عزت و حرمت کو ''سدرۃ المنتہیٰ‘‘ کی رفعتوں کے ساتھ ہمکنار کردیا۔ آپﷺ کی تشریف آوری کے بعد مومن معزز قرار پائے ہیں حضورﷺ کی عزت و حرمت کامعززومکرم دامن تھام کر، لہٰذا جو اس مبارک دامن کو تھامے گا‘ عزت پائے گا۔ لوگو! یہ ایک میزان ہے‘ ترازو ہے اور یہ ترازو اللہ کا قائم کردہ ہے۔ قرآن میں اس کا اظہار ہوا ہے اور جب ہم اللہ کے رسولؐ کا فرمان ملاحظہ کرتے ہیں تو احادیث سے پتا چلتا ہے کہ حضور عالیشانﷺ کا میزان میں دو بار وزن کیا گیا۔ پہلی بار زمین پر اور دوسری بار آسمان پر۔ فرمایا! دو فرشتوں (جبرائیل اور میکائیل) نے میرا سینہ کھولا‘ قلب دھویا اس پر سکینت (اطمینان اور وقار) کا چھڑکائو کیا۔ (دل) پر ختمِ نبوت کی مہر لگائی اورپھر دونوں میں سے ایک نے دوسرے سے کہا: ان (محمد کریمؐ) کو ترازو کے ایک پلڑے میں رکھو اور ان کی امت میں سے ایک ہزار (افراد) کو دوسرے پلڑے میں رکھو۔ اس لمحے میں اپنے اوپر ایک ہزار کو دیکھ رہا تھا۔ مجھے ڈر محسوس ہوا کہ ان میں سے بعض لوگ مجھ پر نہ گر پڑیں۔ پھر کہا: اگر محمدﷺ کو ایک پلڑے میں اور ان کی ساری امت کو دوسرے پلڑے میں رکھ دیا جائے تو تب بھی محمدﷺ کا پلڑا بھاری رہے گا۔ (مسند احمد: 17798، مستدرک حاکم: 4230 اسنادہ حسن لذاتہٖ) دوسری بار حضورﷺ کا وزن جنت کے دروازے پر ہوا۔ طبرانی میں جید سند کے ساتھ حضرت ابو امامہؓ روایت کرتے ہیں: حضورﷺ نے فرمایا ''جنت میں حضرت جبرائیل علیہ السلام میرے ساتھ تھے‘ جب ہم جنت کے آٹھ دروازوں میں سے ایک میں سے نکل کر باہر آئے تو ابھی میں دروازے پر ہی تھا کہ ایک ترازو لایا گیا جس کے ایک پلڑے میں مجھے اور دوسرے میں ساری امت کو رکھا گیا تو میرا پلڑا جھک گیا‘‘۔ (مسند احمد:22587) اللہ اللہ! حضورﷺ کا زمین و آسمان میں وزن کرکے آگاہ کردیا کہ دنیا و آخرت میں وزن اسی کا بنے گا‘ عزت اسی کو ملے گی جو حضورؐ کے حرمتوں بھرے دامن کو تھام کر زندگی گزارے گا۔ اس لئے کہ '' عزت اور مومنانہ وزن توپیوستہ ہے نام حضرت محمد کریمﷺ‘‘ کے ساتھ‘‘۔
مولانا حافظ خادم حسین رضوی وفات پا گئے‘ختم نبوت اور حرمت رسولﷺ کا تحفظ کرتے کرتے اس فانی جہان کوچھوڑ گئے۔ پاکستان کی سبھی مقتدر شخصیات نے تعزیت کا اظہارکیا۔ صدر پاکستان عارف علوی‘ وزیراعظم پاکستان عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے تعزیتی پیغامات نشرہوئے۔ حزب اختلاف کے رہنمائوں، دینی و سیاسی عمائدین نے تعزیت کی۔ وکلا، صحافیوں اورتمام مسالک کے رہنمائوں نے افسوس اور دکھ کا اظہارکیا۔ جنازے میں مینارِ پاکستان میں اہل پاکستان کا سمندر موجیں مارنے لگا۔ شاہی مسجد کے دروازے کھولنے پڑ گئے وہ بھی بھر گئی۔ نیازی چوک تک لوگ تھے۔ میری عمر 62 سال ہوگئی ہے‘ اتنے لوگ مینارِ پاکستان میں ہم نے آج تک نہ دیکھے‘ نہ سنے۔ بلاشبہ لاکھوں لوگ تھے۔ آخرت کے سفر میں روانگی پر اتنی عزت افزائی اوراس قدر پذیرائی دنیا کو یہ پیغام دے گئی ہے کہ جوکوئی حضور سرکار مدینہﷺ کی حرمت کے تحفظ کیلئے والہانہ کردار ادا کرے گا‘ اسے پاکستان کے 22 کروڑ عوام عزت دیں گے۔ یہ عزت نامِ ''محمد کریمﷺ‘‘ سے محبت کرنے کی عزت ہے۔ مسلکی اختلاف کے باوجود مینارِ پاکستان کے سائے تلے تمام مکاتب فکر کے لوگ موجود تھے۔ ایسے عظیم کردار پر میں اہلِ پاکستان کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ حضورؐ کے اسم گرامی پر فرقہ واریت دم توڑ جاتی ہے‘ سب مسلمان ایک جسم بن جاتے ہیں۔
مولانا خادم حسین رضوی کی آخری سانسوں تک انڈیا کے چینلز ان کے خلاف زہر اگلتے رہے۔ دشمنی کی وجہ حرمت رسولؐ کے تحفظ کیلئے رضوی صاحب کا دبنگ انداز تھا۔ میں نے چند ایک انڈین پروگرامز دیکھے‘ ان میں محترم رضوی صاحب کی وفات پر خوشی کا اظہارکیا گیا تھا، کہا گیا تھا کہ مولانا خادم حسین کی آواز اب باقی نہیں رہی۔ میں کہتا ہوں مولانا خادم حسین رضوی کی تحریک کے وارثوں اور ذمہ داروں کا اب امتحان ہے کہ وہ انڈیا کے ایسے اینکروں کوکتنا زوردار جواب دیتے ہیں۔ زوردار جواب دینے کا سرفہرست انداز یہ ہے کہ حرمت رسولؐ کے تحفظ کا راستہ سب اہلِ پاکستان کا راستہ ہے‘ سب اہل ایمان کا یہ اولین فرض اور تقاضا ہے لہٰذا سب کے ساتھ مل کر چلیں، سب کو ملاکر چلیں۔ سب مسلمانوں کی محبتوں کا آپ کواثاثہ ملا ہے، اس کی حفاظت کریں، یقین کریں یہ ایک شفاف شیشہ ہے اس پر خراش نہ آنے دیں۔حضرت مولانا شاہ احمد نورانی‘ جواہل سنت بریلوی کے موجودہ دور کے عظیم دینی اورسیاسی رہنما تھے‘ سب انہیں اپنا لیڈر کہتے تھے۔ مجھے اعلیٰ مجالس اور ان کے گھر میں ان کے ساتھ ملاقات اور گفتگو کے لمحات میسر آئے۔ ان کی راہ اپنائیے اور اتحادِ امت کی خاطر ان کا جو درد تھا‘ اسے اپنے دل پر نقش کیجئے۔ اس سے انڈیا کے چینلز اور ان کے اینکروں کوجواب ملے گا کہ حرمت رسولؐ کی دبنگ آواز خاموش نہیں ہوئی بلکہ نئے آہنگ کے ساتھ ہمالیہ سے بڑھ کر دبنگ بن گئی ہے۔ حرمت رسولؐ کے تحفظ کی جدوجہد میں مولانا خادم حسین رضوی کا اپنا ایک مخصوص انداز تھا‘ ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ اس میدان میں ایک صاحبِ طرز شاہسوار تھے۔ ہر انسان‘ ہر مسلمان ‘ ہرعالم‘ ہررہنما چاہے کس قدر بھی وہ نیک ہو‘ خطائوں کا پتلا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حضور دعا ہے کہ وہ اپنے بندے خادم حسین کی خطائوں سے درگزرفرمائے اور نیکیوں کوقبول فرمائے، حرمت رسولؐ کے تحفظ کے لیے ان کے کردار کو قبول فرما کر انہیں اعلیٰ درجات سے نوازے۔ انا للہ واناالیہ راجعون۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کا اگلا جہان عزتوں والا بنا دے۔
حضورﷺکا اسم گرامی وہ مبارک نام ہے کہ جس کی غیر مسلم صاحبانِ علم نے بھی اگر عزت کی تو وہ دنیا میں معزز ٹھہرے۔ میرے حافظے میں ایسے غیر مسلم صاحبانِ علم کے ناموں کی ایک طویل فہرست ہے مگر صرف ایک نام ہی کا تذکرہ کرتا ہوں یہ نام معروف مصنف مائیکل ہارٹ کا ہے۔وہ فزکس میں اپنے شعبے کا ڈین رہا ہے‘ ادیان میں پی ایچ ڈی کر رکھی ہے۔ چالیس سال قبل اس نے ایک کتاب لکھی، معلوم انسانی تاریخ میں 100 عظیم شخصیات۔ مسیحی ہونے کے باوجود اس نے ترازوتھاما تو انسانی تاریخ کے مشاہیر میں حضرت محمد کریمؐ کی سیرت کوسب سے زیادہ وزنی اور بھاری پایا چنانچہ اس نے اولین ہستی حضرت محمد کریمؐ کو مانتے ہوئے کہ کتاب کا آغازحضرت محمد کریمؐ سے کیا۔ چالیس سال بیت گئے‘ آج سے کوئی پانچ سال قبل میں نے ایکسپو سنٹر لاہورکے عالمی کتب میلے سے مائیکل ہارٹ کی کتاب کا تازہ نظرثانی شدہ (انگریزی) ایڈیشن خریدا۔ اس نے چند شخصیات کی درجہ بندی (grading) کو تبدیل کیا تھا۔ اس کے ہم مذہب لوگوں نے کہا: تم مسیحی ہو‘پہلے نمبر پر حضرت مسیحؑ کو لائو۔ ملحدوں نے کہا تم سائنسدان ہو‘ پہلے نمبر پر آئن سٹائن کو لائو۔ وہ سنتا رہا اور نئے ایڈیشن کیلئے سوچتا رہا۔ ڈنڈی مارنے کو دل بھی کبھی کبھار ڈنواں ڈول ہو جاتا مگر آخرکار جب اس نے عدل وانصاف کے ترازوکوتھاما اور چالیس سال بعد بھی اس نے پہلے نمبر پر حضرت محمد کریمﷺ کا ہی نام نامی لکھا۔ لوگو! اس واقعے کو بھی کوئی پانچ‘ سات سال ہو چکے ہیں مگر غیر مسلم دانشور، مذاہب کے عالم اور مورخ کا میزان اورترازو آج بھی وہی ہے۔ حضرت محمد کریمﷺ کا نام نامی اور زندگی کے ہرشعبے میں آپؐ ہی کی سیرت غالب ہے، اعلیٰ و اولیٰ ہے‘ وزنی اوربھاری ہے‘ عظیم‘ جمیل اور جلیل ہے۔ مائیکل ہارٹ کو نامِ محمد کریمؐ سے عزت مل گئی اورمیں صحیح بخاری کی ایک روایت کی روشنی میں برملا کہتا ہوں کہ ایسے غیر مسلم دانشوروں کو نام ِ''محمد کریمؐ‘‘ کی عزت کے طفیل دنیا میں تو عزت ملی ہی ہے‘ آخرت میں بھی ریلیف ملے گا۔ پھر میں کیوں نہ اسی پُرمسرت حقیقت پرکالم کا اختتام کروں کہ ''عزت تو پیوستہ ہے نام محمدﷺ کے ساتھ‘‘۔