جس آئینے میں بھی جھانکا نظر اسی سے ملی
مجھے تو اپنی بھی یارو خبر اسی سے ملی
بدل بدل کے چلا سمت و رہ گزر بھی مگر
وہ اک مقام کہ ہر رہ گزر اسی سے ملی
ہم ایسے کوئی ہنر مند بھی نہ تھے پھر بھی
وہ قدرداں تھا کہ داد ہنر اسی سے ملی
وہ کون ہیں جو بناتے ہیں اپنی دنیا خود
ہمیں تو رونے کو بھی چشم تر اسی سے ملی
عجب تھا شخص جو پھرتا تھا خود بنا تلوار
چلی جو تیغ تو مجھ کو سپر اسی سے ملی
قدم قدم پہ تھے رستے میں مہ وشوں کے ہجوم
ملی کسی سے تو جا کر نظر اسی سے ملی
نہ کشت زاروں میں دیکھا جسے نہ باغوں میں
ہر ایک فصل مگر فصل پر اسی سے ملی
تمام عمر گریزاں رہا تھا جس سے میں
قدم لحد میں جو رکھے کمر اسی سے ملی
بصیرت نگہ و دل پڑی نہیں ملتی
ملی جسے بھی یہ دولت عمرؔ اسی سے ملی
عمر انصاری