اجتماعی خود Ú©Ø´ÛŒ Û”Û”Û”Û” طارق Ø+بیب

''اللہ Ú©Û’ عذاب Ú©ÛŒ مختلف شکلیں ہیں، خدارا! اس سے پناہ مانگیں اور جتنی اØ+تیاط کر سکتے ہیں‘ کریں۔ مجھے اپنی دعائوں میں خصوصی طور پر یاد رکھیں‘‘۔ یہ الفاظ ایک بہن Ú©Û’ ہیں جو سوشل میڈیا پر مذہبی تبلیغ Ú©Û’ Ø+والے سے خاصی سرگرم تھیں۔ آیات Ùˆ اØ+ادیث مبارکہ پر مبنی ان Ú©ÛŒ پوسٹیں اکثر نظر سے گزرتی رہتی تھیں۔ اکثر اوقات وہ مختلف شہروں Ú©ÛŒ خوبصورتی، ان شہروں Ú©ÛŒ خصوصیات Ú©Û’ ساتھ ساتھ کھانوں Ú©ÛŒ مختلف ڈشز تیار کرنے اور سماجی مسائل Ú©Û’ Ø+والے سے لکھتی تھیں، یہی وجہ ہے کہ ایک بڑی تعداد ان Ú©ÛŒ باقاعدہ قاری بن گئی تھی۔ 2 نومبر Ú©Ùˆ ان دردناک الفاظ پر مشتمل ان کا دو سطری پیغام نظر سے گزرا تو مجھ سمیت ان Ú©Û’ قارئین Ú©ÛŒ بڑی تعداد Ù†Û’ ان Ú©Û’ اس پیغام Ú©Û’ جواب میں صØ+ت یابی Ú©ÛŒ دعائیں شروع کر دیں۔ اس Ú©Û’ بعد کئی دن گزر گئے‘ ان Ú©ÛŒ جانب سے سوشل میڈیا پر کوئی سٹیٹس شیئر نہیں کیا گیا۔ پھر Ú©Ú†Ú¾ دن بعد سوشل میڈیا سے ہی اطلاع ملی کہ وہ کورونا سے شدید متاثر ہوئی تھیں اور اب وینٹی لیٹر پر Ú†Ù„ÛŒ گئی ہیں۔ آخری اطلاعات آنے تک وہ وینٹی لیٹر پر ہیں اور ان Ú©Û’ قارئین Ú©ÛŒ جانب سے مسلسل دعائوں Ú©ÛŒ اپیل Ú©ÛŒ جا رہی ہے۔
اسی طرØ+ کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک قریبی دوست‘ جو اس وائرس Ú©Û’ باعث وینٹی لیٹر پر جانے Ú©Û’ بعد اب اللہ تعالیٰ Ú©ÛŒ رØ+مت سے زندگی Ú©ÛŒ جانب پلٹ آئے ہیں‘ اور برملا یہ کہتے ہیں کہ اللہ Ù†Û’ انہیں دوسری زندگی دی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کورونا Ú©ÛŒ مہلک وبا سے اللہ رب العزت دشمن Ú©Ùˆ بھی Ù…Ø+فوظ رکھے۔ یہ اس قدر دردناک اور تکلیف دہ بیماری ہے کہ جس کا تصور بھی Ù…Ø+ال ہے۔ آج بھی جب میں اپنی اُس کیفیت کا سوچتا ہوں تو رونگٹے Ú©Ú¾Ú‘Û’ ہو جاتے ہیں۔ کورونا سے متاثرہ مریضوں Ú©Û’ ایسے ہزاروں واقعات دیکھنے، سننے، Ù¾Ú‘Ú¾Ù†Û’ اور جاننے Ú©Ùˆ مل رہے ہیں کہ انسان کانپ کر رہ جاتا ہے۔ جن ممالک میں اس وبا Ù†Û’ تباہی پھیلائی ہے‘ وہاں تو مرنے والوں Ú©Ùˆ اپنے پیاروں Ú©Û’ ہاتھوں تدفین بھی نصیب نہیں ہوئی۔
اب اس وبا Ú©ÛŒ دوسری لہر Ù†Û’ دنیا Ú©Ùˆ اپنی لپیٹ میں Ù„Û’ رکھا ہے۔ ماہرین بتا رہے ہیں‘ چیخ رہے ہیں‘ متنبہ کر رہے ہیں کہ کورونا Ú©ÛŒ دوسری لہر پہلی سے زیادہ مہلک اور خطرناک ہے۔ ہر ملک اپنے شہریوں Ú©Ùˆ بچانے Ú©Û’ لیے متØ+رک نظر آتا ہے، اقدامات کئے جا رہے ہیں، لوگوں Ú©Ùˆ سہولتیں فراہم Ú©ÛŒ جا رہی ہیں تاکہ اس وبا Ú©Û’ دوران انہیں کسی قسم Ú©ÛŒ پریشانی یا تکلیف دہ صورتØ+ال کا سامنا نہ کرنا Ù¾Ú‘Û’Û” یورپی ممالک Ù†Û’ اØ+تیاطی تدابیر اختیار Ú©ÛŒ ہیں تو ایسے ممالک‘ جہاں معیشت کا انØ+صار سیاØ+ت پر ہے‘ Ù†Û’ تمام سیاØ+تی مقامات بند کر دیے ہیں، ہوٹل، ریسٹورنٹس، پارکس اور ایسے مقامات‘ جہاں عوام کا رش ہو سکتا ہے‘ وہاں نقل Ùˆ Ø+رکت پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ اپنے عوام Ú©Ùˆ بچانے Ú©Û’ لیے دنیا Ú©Û’ بیشتر ممالک دوبارہ لاک ڈائون Ú©ÛŒ طرف جا Ú†Ú©Û’ ہیں۔ غرض ہر سو اØ+تیاط‘ اØ+تیاط اور بس اØ+تیاط کا شور ہے۔
دنیا میں مختلف ممالک Ú©Û’ Ø+کمران کیا کر رہے ہیں اور ہمارے سیاستدان کس جانب جا رہے ہیں؟ یقینی طور پر پاکستان میں سیاسی سرگرمیوں Ú©Û’ نام پر جاری ''کورونا پھیلائو مہم‘‘ Ú©Ùˆ دنیا Ø+یرت سے دیکھتے ہوئے ہمارے اجتماعی شعور پر ماتم کر رہی ہو گی۔ ہمارے رہنما دنیا Ú©Û’ وہ منفرد رہنما ہوں Ú¯Û’ جو اپنے عوام Ú©Ùˆ ہاتھ سے Ù¾Ú©Ú‘ کر اس وبا کا شکار بنا رہے ہوں Ú¯Û’Û” اس میں Ø+کومت Ùˆ اپوزیشن دونوں ہی شامل ہیں‘ ایسے Ø+الات میں جب دنیا بھر میں لوگوں Ú©Ùˆ بنا ضرورت گھر سے نکلنے سے منع کیا جا رہا ہے‘ Ø+کمران Ùˆ اپوزیشن‘ دونوں عوام Ú©Ùˆ جلسے‘ جلوسوں اور تقاریب میں بلاتے نظر آتے ہیں۔ دنیا جب کورونا Ú©ÛŒ دوسری لہر سے نبرد آزما ہے‘ ہمارے Ø+کومتی Ùˆ اپوزیشن رہنمائوں Ù†Û’ گلگت بلتستان میں عوامی جلسے کیے اور پھر فخر سے جلسے بڑے ہونے Ú©Û’ دعوے کرتے نظر آئے۔ پھر Ù¾ÛŒ ÚˆÛŒ ایم Ú©Ú¾Ù„Û’ میدانوں میں عوامی جلسے کرتی رہی تو Ø+کومت سے برداشت نہ ہوا اور اس Ù†Û’ کبھی ٹائیگر فورس Ú©Û’ نام پر چار دیواری میں مجمع لگایا تو کبھی بزنس فورمز Ú©Û’ نام پر پنڈال سجایا۔ یہی رہنما ایک دن کورونا سے ہونے والی اموات پر افسوس کرتے نظر آتے ہیں تو اگلے ہی روز کسی جلسے میں یا کسی آڈیٹوریم میں منعقدہ پروگرام میں عوام Ú©Û’ جم غفیر Ú©Û’ سامنے اپنے جوشِ خطابت Ú©Û’ جوہر دکھاتے نظر آتے ہیں۔ Ø+د تو یہ ہے کہ اعلان ہوتا ہے کہ ہمارے فلاں‘ فلاں اور فلاں رہنما کورونا رپورٹس مثبت آنے Ú©Û’ بعد قرنطینہ میں Ú†Ù„Û’ گئے ہیں، اس لیے وہ جلسے میں شرکت نہیں کر سکیں گے‘ ان Ú©Û’ لیے دعائوں Ú©ÛŒ درخواست ہے۔ ایسے موقع پر سمجھ نہیں آتی کہ بندہ دعا کرے بھی تو کیا کرے۔ کورونا کا شکار ہو جانے والوں Ú©ÛŒ صØ+ت یابی Ú©ÛŒ دعا یا ایسے ''رہنمائوں‘‘ Ú©Û’ لیے عقل Ùˆ شعور Ú©ÛŒ دعا۔ ایسا نظر آتا ہے کہ اپوزیشن کسی بھی قیمت پر فروری سے قبل Ø+کومت Ú©Ùˆ گھر بھیجنا چاہتی ہے، اگر سینیٹ Ú©Û’ انتخابات سے پہلے ایسا نہیں ہوتا تو اپوزیشن Ú©Ùˆ کھیل اپنے ہاتھ سے نکلتا نظر آ ئے گا۔ اس لیے بے Ø´Ú© ہزاروں افراد Ú©ÛŒ زندگی دائو پر Ù„Ú¯ جائے‘ اپوزیشن Ù†Û’ تہیہ کیا ہوا ہے کہ جلسے جلوسوں سے پریشر بڑھا کر Ø+کومت Ú©Ùˆ رخصت کرنا ہے۔ یہ صرف اپوزیشن کا ہی معاملہ نہیں ہے‘ Ø+کومت بھی عوامی جانوں سے کھیلنے Ú©Û’ اس مشن میں اپوزیشن Ú©Û’ ساتھ برابر Ú©ÛŒ شریک ہے۔ اب یہ صورتØ+ال ہے کہ Ø+کومتی اراکین کورونا سے بچائو کا درس دینے Ú©Û’ لیے بھی چار پانچ سو افراد کا مجمع ضرور جمع کرتے ہیں۔ رہے عوام تو انہیں مہنگائی Ú©Û’ شکنجے میں ایسا جکڑا گیا ہے کہ سوائے پیٹ Ú©ÛŒ آگ بجھانے کے‘ انہیں کسی اور چیز کا ہوش ہی نہیں ہے، کورونا کیا ہے اور کتنی یہ تباہی پھیلا سکتا ہے، ان Ú©ÛŒ بلا جانے۔
مجھے اچھی طرØ+ یاد ہے کہ جب کورونا Ú©ÛŒ وبا پاکستان پر Ø+ملہ آور ہوئی اور ابتدائی طور پر چند کیسز سامنے آئے تو خوف کا یہ عالم تھا کہ ہر دوسرے گھر Ú©ÛŒ چھت سے اس وبا سے چھٹکارے Ú©Û’ لیے اذان دی جا رہی تھی۔ اب یہ عالم ہے کہ پہلی لہر دنیا بھر میں اپنی تباہی پھیلا کر رخصت ہو Ú†Ú©ÛŒ اور دوسری Ø+ملہ آور ہے۔ اس Ú©Û’ بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ پہلے Ø+ملے سے زیادہ مہلک ہے۔ اس لہر سے اب تک پاکستان میں 3لاکھ 82ہزار سے زائد مصدقہ کیسز ہیں جبکہ 78سو سے زائد افراد جاں بØ+Ù‚ ہو Ú†Ú©Û’ ہیں مگر ہم ابھی تک اس بØ+Ø« میں الجھے ہوئے ہیں کہ یہ وائرس واقعی ایک Ø+قیقت ہے یا Ù…Ø+ض 'عالمی سازش‘ ہے۔ دنیا بھر میں اس Ú©Û’ Ø+والے سے اس قدر فکرمندی پائی جاتی ہے کہ مختلف ادارے اس وبا Ú©ÛŒ ویکسین تیار کرنے میں مصروف ہیں اور دنیا بھرکی نظریں ان Ú©ÛŒ جانب Ù„Ú¯ÛŒ ہوئی ہیں۔ اس Ø+والے سے آکسفورڈ یونیورسٹی Ù†Û’ کورونا ویکسین تیار کرکے اس کا برطانیہ اور برازیل Ú©Û’ 20 ہزار افراد پر تجربہ کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ امریکی اور جرمن کمپنیوں Ù†Û’ ویکسین تیار کرنے اور اس Ú©Û’ 90 فیصد موثر ہونے کا دعویٰ کیا ہے اور دسمبر Ú©Û’ وسط تک اس Ú©ÛŒ 64 لاکھ ڈوززعالمی مارکیٹ میں دستیاب ہوں گی، تقریباً 3000روپے میں اس Ú©ÛŒ ایک ڈوز مل سکے گی۔ امریکی کمپنی مڈرنا Ù†Û’ بھی 94 فیصد موثر ویکسین تیار کرنے کا دعویٰ کیا ہے مگر ابتدائی طور پر اس Ú©ÛŒ فراہمی صرف امریکا میں ممکن ہو گی۔ روسی کمپنی سپوٹنک بھی سستی اور مؤثر ترین ویکسین تیار کرنے کا دعویٰ کر رہی ہے جس Ú©ÛŒ ایک ڈوز تین ہزار پاکستانی روپے میں دستیاب ہو گی۔ پاکستان اور چین Ú©ÛŒ بھی ویکسین تیاری Ú©ÛŒ مشترکہ کاوش جاری ہے جو تیسرے آزمائشی مرØ+Ù„Û’ میں داخل ہوگئی ہے۔ ان خبروں سے اطمینان ہوتا ہے کہ کورونا Ú©Û’ خلاف بین الاقوامی سطØ+ پر لڑائی جاری ہے؛ تاہم پاکستانی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان Ú©ÛŒ مارکیٹ میں کورونا ویکسین Ú©ÛŒ دستیابی تقریباً 8 ماہ بعد ہی ممکن ہو سکے گی۔
اس لیے یہ 8 ماہ بہت اہم ہیں۔ اس عرصے Ú©Û’ دوران اگر ہمارے ملکی ''رہنمائوں‘‘ Ù†Û’ اپنی مفاداتی سیاست ختم کرکے عوام Ú©ÛŒ جانیں بچانے Ú©ÛŒ کوشش نہ Ú©ÛŒ تو اللہ نہ کرے‘ جب ویکسین مارکیٹ میں آئے گی‘ تب تک ہم بہت زیادہ نقصان اٹھا Ú†Ú©Û’ ہوں۔ مالی نقصان کا ازالہ تو ممکن ہے مگر جانی نقصان کا مداوا کس طرØ+ کیا جا سکتا ہے؟ یقینی طور پر یہ اجتماعی خود Ú©Ø´ÛŒ ہوگی جس Ú©Û’ ذمہ دار اربابِ اختیار ہی ہوں Ú¯Û’Û”