اسلام میں تعلیم کی اہمیت ۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر لیاقت علی خان نیازی
islam meim taleem ki ahamiyat.jpg
دانائیِ کُل، سید العالمین، سیدالمرسلین، بے نظیر و بے مثال رسولِ معلّم، تاجدارِ مدینہ، تاجدارِ ارم، حضورِ ختمی مرتبت اور اعلیٰ ترین معلّم انسانیت ﷺ کی سیرت انسانیت کے لیے ایک جامع اور عمدہ ترین سیرت ہے۔آپؐ بدرِ کامل ہیں جس کی ٹھنڈی روشنی تسکینِ جان بنی ہے۔ آپؐ کی ذاتِ بابرکات علم کا ایک بحرِ بیکراں ہے جو انسانیت کو گوہر ہائے مطلوب سے نوازتی ہے۔ آپؐ کی شخصیت جامع کمالات و صفات ہے۔ آپؐ کا کردار اور طرزِ عمل ایک بہترین نمونہ ہے اور ایک عمدہ مثال ہے، ان لوگوں کے لیے بھی جو معلّم ہیں یا معلّم بننا چاہتے ہیں۔ سورۃ احزاب کی آیت نمبر 21 میں ارشادِ ربانی ہے: {لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ} ’’تمہارے لیے رسول اللہؐ کی سیرت عمدہ نمونہ ہے۔‘‘
بقول ڈاکٹر نصیر احمد ناصر: ’’معلم انسانیت کی حیثیت سے آپؐ کی عظمت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ صحرا کے بدوی اور ان پڑھ شہری دیکھتے ہی دیکھتے عالم و فاضل اور مفکر و حکیم بن گئے۔ آپؐ نے مسجد نبویؐ سے جو شمعِ علم روشن کی تھی، اس کی روشنی آپؐ کے شاگردوں کے ذریعے اقصائے عالم میں پھیل گئی۔‘‘ (ڈاکٹر نصیر احمد ناصر، پیغمبر اعظم و آخر ﷺ)
آپؐ نے انسانیت آموزی اور انسان سازی کے مشن کی تکمیل کے لیے تعلیم و تدریس کا فریضہ منتخب فرمایا۔ غزوئہ بدر میں گرفتار لکھے پڑھے قیدیوں کو اس شرط پر رہا کرنا کہ وہ ہمارے دس دس بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھائیں، دنیا کی حربی تاریخ میں علم کی اشاعت کے لیے نبی کریمﷺکا یہ قدم انتہائی عظیم، انقلابی، حیرت انگیز اور نیا تھا۔ وہ لوگ بے حد خوش نصیب ہیں جنہیں معلمانہ عہدہ ملتا ہے کیونکہ یہ وہ عہدہ جلیلہ ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے انسانیت کی تعمیر و تربیت کے لیے معلمِ انسانیت حضرت محمدﷺکو مامور فرمایا۔ آج کے معلّمین پر حضورﷺکی تعلیمی تحریک کو آگے بڑھانے کی عظیم ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ آج کے ہر معلم کو معلمِ اعظمﷺکے اسوہ تعلیمی کو مشعلِ راہ بنانا پڑے گا۔
تعلیم کے لفظی معنی: ’’معلومات کا جمع کردینا‘‘اور ’’مخفی صلاحیتوں کو نکھارنا‘‘۔ اصلاً یہ لفظ معلومات فراہم کرنے اور متعلم کی مخفی صلاحیتوں کو نکھارنے کے مفہوم میں آتا ہے۔ بقول ڈاکٹر برہان احمد فاروقی: ’’تعلیم قوموں اور تہذیبوں کو دوام عطا کرنے کا علم ہے۔‘‘ (تعلیم کا مسئلہ اور اس کا حل، صفحہ 19) ۔ تعلیم بذات، خود منزل نہیں بلکہ منزل کے حصول کا ایک ذریعہ ہے۔ تعلیم کے ذریعے نظریہ حیات اور تمدن و ثقافت زیرِ تعلیم نسل تک پہنچتا ہے۔ علامہ محمد اقبالؒ کا یہی خیال تھا کہ اسلام ہماری زندگی اور تعلیم کا مقصد ہونا چاہیے۔ امام غزالیؒ کے مطابق اسلامی نظریہ تعلیم کا مقصد تعمیرِ کردار ہے۔
درسگاہِ صُفّہ: حضور اکرمﷺنے مسجد نبویؐ میں صُفّہ درسگاہ قائم فرمائی۔ اب درسگاہ صُفّہ کے بارے میں تفصیل ملاحظہ ہو:
نام مدرسہ:۔درس گاہ صُفّہ
مدرسہ قائم ہونے کی تاریخ:۔بعد از ہجرت مدینہ
بانی معلم:۔حضرت محمد ﷺ
مضامین جو پڑھائے جاتے یا دیگر تفصیل درج ذیل ہے:
نصابِ تعلیم:۔(i) حفظ قرآن (سورتیں زبانی یاد کرائی جاتی تھیں)۔ (ii) فنِ قرات و تجویدِ قرآن۔ (iii) غیر زبانوں کی تعلیم مثلاً عبرانی، سریانی، فارسی، رومی، قبطی، حبشی (حضرت زید بن ثابتؓ ماہر السنہ تھے)۔ حضرت عبداللہ ابی زبیرؓ بھی بہت سی زبانیں جانتے تھے۔ (iv) فنون سپہ گری (نشانہ بازی، تیر اندازی، پیراکی، گھوڑ دوڑ کے مقابلے، جنگی مشقیں)۔ (v)علم الطیور ، (vi) زرعی علوم مثلاً علم زراعت و فلاحت، (vii) علم ہیئت، علم انساب۔
تعداد طلباء:۔کل تعداد 400 تھی۔ بعض اوقات 70 یا 80 تک بھی رہی۔ تعلیم عام او رلازمی تھی۔
تعلیم بالغاں:۔کاروباری صحابہ کرامؓ فرصت کے وقت تعلیم حاصل کرتے تھے۔
مخصوص اساتذہ کرام:۔فن قراء ت: حضرت ابی بن کعبؓ، علم المیراث: حضرت زید بن ثابتؓ۔
تعلیمِ نسواں: ۔مجالس وعظ و تعلیم کے لیے معلّمہ حضرت عائشہؓ تھیں۔
مضامین برائے خواتین:۔دینی مضامین، چرخہ کاتنا، گھریلو صنعتیں۔
(مآخذ: ڈاکٹر محمد حمید اللہ، عہد نبویؐ میں نظامِ حکمرانی، صفحات 204-5)۔
نبی اکرمﷺنے درسگاہِ صُفّہ کے ذریعے جو نظامِ تعلیم دنیا کو عطا فرمایا اس میں حسب ذیل خصوصیات تھیں: امیر اور غریب کے درمیان کوئی امتیاز نہ تھا۔ اللہ کی اطاعت، رسول اللہؐ کی پیروی، احتسابِ آخرت، تکمیل اخلاق اور تبلیغِ اسلام جیسے مقاصد اس نظامِ تعلیم کا حصہ تھے۔ یکساں نصاب، مفت تعلیم، اساتذہ کی مکمل کفالت، دین و دنیا کی یکجائی اور پاکیزہ ترین تعلیمی ماحول درسگاہِ صُفّہ کے عناصر ترکیبی تھے۔
حضور اکرم ﷺ کے طریقہ تعلیم و تدریس کی خصوصیات: جب عہد نبویؐ میں مملکت اسلامیہ دس لاکھ مربع میل تک پھیل گئی تو ایک وسیع تعلیمی نظام قائم کرنا لازم ہوگیا۔ چنانچہ مدینہ منورہ سے بڑے بڑے مقامات پر تربیت یافتہ معلّمین روانہ کیے جاتے اور صوبائی گورنروں کو بھی حکم ہوتا کہ وہ اپنے صوبوں کی تعلیمی ضرورتوں کو پورا کریں۔ یمن کے گورنر حضرت عمروؓ ابن حزم کو آپؐ نے ہدایت نامہ جاری فرمایا کہ وہ قرآن، حدیث، فقہ اور اسلامی علوم کی تعلیم کا بندوبست کریں۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا: ’’لوگوں کو اس بات کی نرمی سے ترغیب دو کہ وہ دینیات کی تعلیم حاصل کریں۔‘‘ (بحوالہ: ابن حنبل)۔ گورنروں کو یہ بھی حکم تھا کہ وہ لوگوں کو وضو، جمعہ کا غسل، باجماعت نماز، روزہ اور حج بیت اللہ کے احکام بتائیں۔ نبی کریمﷺنے صوبہ یمن میں ایک صدر ناظرِ تعلیمات بھی مقرر فرمایا۔ اسے حکم تھا کہ وہ مختلف اضلاع کا دورہ کرے اور وہاں کی تعلیم اور تعلیمی اداروں کی نگرانی کرے۔ (بحوالہ: تاریخ طبری، صفحات 1982-3)۔ الغرض معلمِ اعظمؐ نے ہمیشہ علمِ نافع کے لیے دعا فرمائی: [اللّٰھم انی اسئلک علمًا نافعًا و رزقًا طیبًا و عملًا متقبلًا] (بحوالہ: ابن عبدالبر، کتاب العلم، صفحہ 84)۔
حضور ﷺ کا تمثیلی انداز: ایک مرتبہ حضور اکرمﷺنے صحابہ کرامؓ کی مجلس میں اپنے ساتھیوں سے پوچھا: ’’بھلا وہ کون سا درخت ہے جس کے پتے جھڑتے نہیں اور جو مسلمانوں سے مشابہت رکھتا ہے؟‘‘ مجلس میں جتنے لوگ بیٹھے تھے وہ مختلف جنگلی درختوں کے بارے میں سوچنے لگے۔ کسی نے کوئی درخت بتایا اور کسی نے دوسرا۔ مگر آپؐ نے ان سب کا انکار کیا۔ لوگوں نے عرض کیا کہ حضورؐ! آپؐ ہی بتادیں۔ آپؐ نے فرمایا: ’’وہ کھجور کا درخت ہے۔‘‘ اس تمثیلی سوال سے آپؐ یہ بتانا چاہتے تھے کہ کھجور کا درخت ایک ایسا درخت ہے جس میں سراسر بھلائی ہی بھلائی ہے۔ غرض اس بلیغ مثال میں حضورﷺ نے تعلیمی نصب العین، نصاب اور طریق تعلیم کی بڑے احسن اور لطیف انداز میں وضاحت فرمائی ہے۔ (بحوالہ: ڈاکٹر مشتاق الرحمن صدیق، تعلیم و تدریس، مباحث و مسائل، ’’(مقالہ) نبی اکرم ﷺ کی حکمت تدریس کا ایک منور گوشہ: تمثیلی و استعاراتی اسلوب، صفحات 181-182)۔
سزا : تاریخِ اسلام میں درس گاہِ صُفّہ کے بارے میں کچھ معلومات ملتی ہیں۔ تاریخ سے واضح ہوتا ہے کہ اس مدرسہ سے بچوں کو جسمانی سزا دینے کا طریقہ ناپسندیدگی سے دیکھا گیا اور اس طریقے کے استعمال پر بچوں کے سرپرستوں نے معلّمین پر سخت تنقید کی ہے۔(بحوالہ: مولانا خلیل حامدی، عہد نبویؐ اور عہد صحابہؓ کی تعلیمی سرگرمیاں، صفحات 137-138)۔
تعلیمِ نسواں: نبی اکرمﷺنے تعلیمِ نسواں کی طرف بھی خصوصی توجہ فرمائی۔ خواتین کی تعلیم و تربیت کے لیے آپؓ نے علیحدہ دن اور وقت مقرر فرمایا۔ عبدالحئی الکتانی فرماتے ہیں: ’’آنحضورﷺنے الشفاء اُم سلیمان بن ابی حتمہ سے فرمایا: ’’آپ حفصہؓ (اُمّ المومنینؓ) کو کشیدہ کاری سکھائیں جس طرح آپؓ نے ان کو کتابت (لکھنا) سکھایا ہے۔‘‘ (عبدالحئی الکتانی، نظام الحکومۃ النبویہ، صفحات 49-50)۔ عبدالحئی الکتانی فرماتے ہیں: ’’خواتین کو سینا ، پرونا اور دھونا سکھائیں۔ ان کے ہاتھ میں سوئی دھاگا اور کپڑا اچھا لگتا ہے۔‘‘ (عبدالحئی الکتانی، نظام الحکومۃ النبویہ، صفحہ 55)۔
حضور اکرم ﷺ کی تدریس کے رہنما اصول: آپؐ کے مؤثر تدریس کے لیے جو رہنما اصول ہمیں سیّر و احاد یث کی کتب سے ملے ہیں ان کا ایک اجمالی خاکہ پیش کیا جاتا ہے۔ دورِ جدید کے اساتذہ کرام حضور اکرم ﷺ کے طریقہ ِ تعلیم و تدریس سے فائدہ اٹھا کر تعلیمی عمل کو مؤثر اور بامقصد بنا سکتے ہیں۔ اب تفصیل ملاحظہ ہو:
آپؐ نے اپنی تعلیمی تحریک کا آغاز حمدِ ربّ جلیل سے کیا۔ خطابت یا دعوت دین حق کو ایک مذہبی فریضہ قرار دیا۔ یہ ادب و احترام قلبِ انسانی پر گہرے نقوش چھوڑتا ہے۔آپؐ نے ہمیشہ فصاحت و بلاغت، سلاست و روانی، شستگی و شائستگی سے کام لیا۔آپؐ کے طریقہِ تدریس کی ایک خوبی اختصار پسندی بھی تھی۔ خطبات مبارکہ مختصر اور جامع ہوتے۔ آپؐ طوالت کو ناپسند فرماتے۔
آپؐ کے خطبات مبارکہ میں رقت انگیزی اور اثر انگیزی ہوتی۔حضور اکرمؐ تعلیم کے دوران کوئی ہلکی پھلکی بات سے دلچسپی کو زندہ رکھتے۔آپؐ سامع اور مخاطب کے معیار کا خیال رکھتے۔ آپؐ بدوی، شہری، قاری، اُمّی وغیرہ سے ان کے معیار کے مطابق گفتگو فرماتے۔ اپنی گفتگو مبارک کو عمدہ مثالوں اور روز مرہ مشاہدات سے سجاتے۔آپؐ سامع کی سہولت کے لیے سادہ اور مانوس لہجہ استعمال فرماتے۔
جب آپؐ تلامذہ سے خطاب فرماتے تو انہیں آدابِ زندگی سے روشناس فرماتے۔ دورانِ تدریس لطیف ترین اور نرم ترین انداز اختیار فرماتے۔ آپؐ کے کلام میں عاجزی اور انکساری ہوتی۔ چنانچہ بطور معلم آپؐ کی بڑی خصوصیت آپؐ کی تواضع اور انکسار تھا۔آپؐ مخاطب کی بولی اور ان کے لہجے میں گفتگو فرماتے۔ آج نظامِ تعلیم میں یہ متنازع مسئلہ ہے کہ تعلیم کس زبان میں ہونی چاہیے؟ یہ درست ہے کہ دوسری اقوام کی زبانیں سیکھنا بہت مفید ہے اور بعض علوم کو ان زبانوں میں حاصل کرنا بھی مناسب ہے لیکن بنیادی تعلیم اس زبان میں ہونی چاہیے جس میں مخاطب زیادہ بہتر طریقے پر سمجھ سکتا ہو۔ آنحضورﷺسے علم حاصل کرنے کے لیے مختلف قبائل اور افراد آتے تو آپؐ ان سے ان کے لہجے میں گفتگو فرماتے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند سے عاصم الاشعری کا قول نقل کیا ہے کہ انہوں نے رسول کریمﷺکو مخصوص لہجے میں بات کرتے سنا۔ اس سے مخاطب میں اپنائیت پیدا ہوجاتی ہے۔ جب آپؐ گفتگو فرماتے تو آہستہ آہستہ اور ٹھہر ٹھہر کر بات کرتے تاکہ سامع پوری طرح مستفید ہو اور اگر ضرورت پڑتی تو آپؐ بات کو دہراتے تاکہ سمجھنے میں کمی نہ رہ جائے۔ رسول اکرمﷺجب گفتگو فرماتے تو تین مرتبہ دہراتے تاکہ اسے ٹھیک طرح سمجھ لیا جائے۔ ایک روایت میں ہے کہ آپؐ بات کرتے اور اگر کوئی گنتی والا گنتی کرے تو شمار کرسکے۔ حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺجب گفتگو فرماتے تو تین مرتبہ دہراتے۔
آپؐ نے بطور معلم صبر و قناعت کا دامن کبھی نہیں چھوڑا۔ بے لوث خدت کی اور بحیثیت معلم کفار کے ہر ظلم اور زیادتی کو برداشت کیا۔آپؐ کا خطبہ شریف نہایت سادہ ہوتا۔ خطبہ دیتے وقت آپؐ کے دست مبارک میں عصا ہوتا تھا۔ ارشاد نبوی ہے: [حَمْلُ الْعَصَا عَلَامَۃُ الْمُؤمِنِ وَ سُنَّۃُ الْاَنْبِیَائِ] (عصا رکھنا مومن کی علامت اور انبیاء کی سنت ہے)۔ (رواہ الدیلمی، مختار الاحادیث النبویہ والحکم المحمدیہ، (تالیف) السید احمد الہاشمی، صفحہ 69)۔
حضور اکرمﷺ کبھی کمان پر ٹیک لگا کر خطبہ دیتے۔ اکثر کھڑے ہوکر خطاب فرماتے۔ آپؐ کا ارشاد فی البدیہہ ہوتا۔ کلام کو مؤثر بنانے کے لیے سوالیہ انداز اختیار فرماتے۔ دورانِ خطابت و تدریس جوش کا یہ عالم ہوتا کہ آنکھیں سرخ ہوجاتیں۔ آواز میں جوش ہوتا۔ انگلیاں اٹھتی جاتی تھیں گویا کسی فوج کو جنگ کے لیے اُبھار رہے ہوں۔ جوشِ بیان میں جسدِ مبارک جھوم جھوم جاتا۔ لباس کی وضع قطع اور ہاتھوں کو حرکت دینے سے پٹھوں کے چٹخنے کی آواز آتی تھی۔ کبھی مٹھی بند کرلیتے، کبھی کھول دیتے تھے۔‘‘ (بحوالہ: ڈاکٹر محمد ابراہیم خالد، تربیت اساتذہ، صفحہ 192)۔