’’کتاب‘‘دنیا کا پہلا تحریری اسلامی دستور,۔۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر حمید اللہ
Kitab Dunya ka pehla dastor quran.jpg
آپ ﷺ نے اس میں تمام مذاہب کی آزادی اور مساویانہ سلوک کی شقیں شامل فرمائی تھیں
عہدِ نبویﷺ کی تحریر کردہ دستاویز پر عمل کر کے ہی دنیا میں امن قائم ہو سکتا ہے
متمدن اقوام ہی نہیں وحشی قومیں بھی حکمرانی اور عدل گستری کے لئے معینہ قاعدے بناتی رہی ہیں۔اور رعایا سے سردار بھی اپنے آپ کو پابند بناتا رہا ہے۔عموماََ جب کبھی ایسے قواعدضبط تحریر میں لائے گئے تو انہیں ’’کتاب‘‘ کا نام دیا گیا۔
۔1ھ میں مدینہ منورہ میں ہجرت کرکے آ نے کے پہلے ہی سال میں آپ ﷺ نے ایک نوشتہ مرتب فرمایا۔ آپ ﷺ نے اس میں تمام مذاہب کی آزادی اور مساویانہ سلوک کی شقیں شامل فرمائی تھیں یہ دستور اس قدر جامع ہے کہ یہ رہتی دنیا تک امن کا ضامن بن سکتا ہے بشرطیکہ اس پر عمل کیا جائے۔ رسول کریم ﷺ نے جب مکہ معظمہ میں اپنے تبلیغی اور اصلاحی کام کا آغاز کیا، اور صدیوں سے چلی آنے والی رسومات میں تبدیلی چاہی ، معتقدات اور رواجات کو بدلنا چاہا، تو اہل، ملک نے ابتداء حیرت، اس کے بعد مزاحمت اور پھر آخر میں معادنت کا برتائو کیا۔مکہ کی مقامی حالت ناقابل برداشت تھی ، اس لئے مسلمانان مکہ ہجرت کر کے مدینہ جانے لگے۔آپ ﷺ بخیر و عافیت مکہ سے نکل کر مدینہ تشریف لے گئے۔مدینہ کے مسلمانوں اور مکہ کے مہاجرین کی کل تعداد چند سو سے زیادہ نہ تھی۔اس وقت مدینہ کی آبادی پانچ ہزار تھی جن میں سے آدھے کے قریب یہودی تھے۔ البتہ اس وقت تک مکہ ایک منظم شہری حکومت کی صورت اختیار کر چکا تھا۔ وہاں عبادت ، فوج ، تعلقات خارجہ، محاصل اور عدل گستری وغیرہ کے کوئی 25سرکار ی عہدے بن چکے تھے (بحوالہ: مطبوعہ رسالہ اسلامک کلچر جولائی 1938 ء)۔
مدینے میں ابھی نراج کی کیفیت تھی،اور قبائلی دور دورہ تھا۔عرب ، اوس اور خزرج کے 12قبائل میں بٹے ہوئے تھے۔ تو یہودی بنو النصیر اور بنو قریظہ وغیرہ کے 10 قبائل میں منقسم تھے ۔ ان میں نسل در نسل جھگڑے اور قتل و غارت گری چلی آرہی تھی۔ان حالات میں آپ ﷺ مدینہ تشریف لاتے ہیں۔ جہاں اس وقت مندرجہ ذیل کام کرنے کی فوری ضرورت تھی۔
۔(1)اپنے اور مقامی باشندوں کے حقوق و فرائض کا تعین
۔(2)مہاجرین مکہ کے توطن اور بسربرد کا انتظام
۔(3)شہر کے غیر مسلم عربوں کے ساتھ سمجھوتہ
۔(4)شہر کی سیاسی تنظیم اور فوجی مدافعت کا انتظام
۔(5) قریش مکہ کی جانب سے مہاجرین کو پہنچنے والے جانی و مالی نقصان کا ازالہ
ان حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے حضور پاک ﷺنے ایک مہینے بعد دستاویز تحریر فرمائی (بحوالہ ابن سعد، کتاب الاموال مدینہ )۔ جسے اسی دستاویز میں ’’کتاب ‘‘ اور ’’صحیفہ‘‘ لکھا گیا ہے۔ ان کے معنی ’’دستور العمل‘‘ اور ’’فرائض نامے‘‘ کے ہیں۔ یہ دستاویز دیگر فریقین کی باہمی مشاورت سے مکمل کی گئی تھی۔ چونکہ اس زمانے میں قرآن پاک کا نزول جاری تھا اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ذاتی خیالات لکھنے سے منع فرما یاتھا۔اصل میں اس دستور کے تحت شہر مدینہ کو پہلی مرتبہ شہری مملکت قرار دیا گیا تھاجس کا نظام اسی دستور کے تحت چلایا جانا تھا۔ہابس اور روسو کے نزدیک معاہدہ عمرانی کا آغاز حاکم اور محکوم کے مابین معاہدے سے ہوا تھا۔ اس کی ایک مثال ہمیں بیعت عقبہ میں ملتی ہے جس کے تحت وہاں موجود تمام قبائل نے آپﷺ کو اپنا سردار مان لیا تھا۔ اپنے ملک میں آنے کی دعوت دی اور آپﷺ کے احکامات کی تعمیل کا اقرارکیا۔یہی وجہ ہے کہ یہ دستاویز کسی معاہدے کی شکل نہیں رکھتی بلکہ ایک فرض اور حکم کی صورت میں نافذ کی گئی ہے۔چنانچہ سب محقق جانتے ہیں کہ ’’کتاب‘‘ کے معنی فرض اور حکم کے بھی ہیں۔آپ ﷺ نے ’’ایک حکمران ایک قانون ‘‘ کا تصور پیش کیا۔ اس وقت تک زکوٰۃ اور حج کے فرائض جاری نہیں ہوئے تھے۔ انصاف تک رسائی کا بھی ادارہ قائم کیا گیا۔ مذکورہ دستور سے لوگوں کو اپنے حقوق کا بھی پتہ چلا اور فرائض کا بھی۔ اس لئے دستور میں ٹیکسوں کی وصولی کابھی انتظام کیا گیا تھا۔اس کی مختلف صورتیں تھیں۔ اس دستور سے عرب میں نہایت اہم اور مثبت تبدیلیوں نے جنم لیا۔ ترقی کی نئی راہیں کھل گئیں۔لوگوں نے آپﷺ کی اطاعت کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی عبادت کو بھی اپنا لیا۔اور سب نے مل جل کر ایک سمت میں نماز بھی پڑھنا شروع کر دی۔
اس دستور سے وہاں قبائلیت اور انفرادی سرداری کا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہو گیا۔ سب سے اہم بات یہ تھی کہ قبائلیت کے خاتمے سے افراتفری کا بھی خاتمہ ہوا، یوں ایک منظم اور وسیع تر مملکت کے قیام کی راہ ہموار ہوئی اور عبادات زندگی کا اہم حصہ بن گئیں اور مادہ پرستی کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا گیا۔
اس دستاویز کے دو نمایاں حصے تھے۔
حصہ اول میں 25جملے یا دفعات ہیں، لیکن انہیں دلما وزن نے انہیں 23 قرار دیا ہے۔ جملہ یورپی مفکر ین نے بھی 23 ہی لکھے ہیں۔ میں نے بھی مجبوراََ 23نمبر لکھے ۔حصہ دوم 47 جملوں یا دفعات پر مشتمل ہے۔ پہلی 23دفعات مہاجر ین اور بقیہ حصہ غیر مسلموں کے حقوق و فرائض کے متعلق ہے۔اسکے اہم نکات کچھ یوں ہیں،
۔(1) دستور میں سب سے پہلے اسلامی سیاسی وحدت کے قیام کا اعلان کیا گیا ہے،
۔(2) یہ سیاسی وحدت قرآن پاک کی تعلیمات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے احکامات پر عمل کرنے کی پابند ہو گی،
۔(3)لوگ اپنے تمام جھگڑوں اور اختلافات کے حل کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے ہی رجوع کریں گے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے فیصلوں کو آخری مانیں گے۔
۔(4)یہ سیاسی وحدت باوجود اندرونی بوقلموئی کے، امت واحدہ سمجھی جائے گی اور تمام دنیا کے مقابل ایک ممتاز حیثیت کی حامل ہو گی۔
۔(5)جملہ مسلم طبقات کو یکساں حقوق و فرائض حاصل ہوں گے۔
باوجود عددی کمزوری کے، تمام مسلمان اپنی خود داری کو قائم رکھتے ہوے صراط مستقیم پر کاربند رہیں گے ۔
۔6)) جنگ اور صلح مرکزی معاملہ ہے، ایسا نہیں ہو گا کہ کچھ لوگ جنگ کریں اورباقی لاتعلق رہیں۔شہری ریاست کے فیصلوں پر عمل درآمد کے سبھی پابند ہوں گے۔تاہم پناہ دہی کا حق سب کو حاصل ہو گا۔اور اگر کسی نے یہ فیصلہ کر لیا تو اس کے وعدے کا پوری امت احترام کرے گی۔
۔(7) اخوت و مساوات اور آزادی عمل اس سیاسی وحدت میں جاری کر دی گئی ہے۔سب برابر ہوں گے اور سب کو یکساں حقوق ملیں گے ۔ ہر شہری اپنے ذاتی فعل میں آزاد ہوگا لیکن کسی بھی غلط کام کرنے کی صورت میں جواب دہ بھی ہو گا۔
۔(8)عدل سب کے لئے ہو گا ، آپ ﷺ کا فیصلہ حتمی ہو گا۔دستور کے تحت خون بہا کے لئے الگ ادارہ قائم کیا گیا۔ اگر کسی کو خون بہا ادا کرنے کا حکم دیا گیا اور اس کے پاس رقم نہ ہوئی تو رشتے دار بھی مدد کر سکتے ہیں۔اسی طرح اگر کسی کو دشمن نے قید کر لیا تو آزادی کے لئے فدیہ بھی سب مل کر ادا کریں گے۔
۔(9)سب کے ساتھ انصاف ہوگا، کوئی اپنے عزیز کو بچانے کی کوشش نہیں کرے گا۔اس نظام میں مداخلت ممنوع ہو گی۔ اس دستور میں نچلی ترین سطح کا نظام بھی وضع کیا گیا۔
۔(10)ہر محلے میں ایک میر محلہ اور متعدد نائب میر محلہ ہوں گے۔یہ محلہ وار مجالس بڑی حد تک خودمختار ہوں گی۔اگرکسی ایک مجالس کے لئے کوئی کام کرنا مشکل ہوا تو دوسری مجالس بھی اس کی مدد کریں گی۔
اس دستور کے تحت اسلامی تعلیمات کے عین مطابق برابری کی بنیاد پر ایک شہری حکومت کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ جس کی آج دنیا بھر میں کمی محسوس کی جارہی ہے، ہر جگہ نسلی اور لسانی بنیادوں پر ایک دوسرے کے حقوق سلب کئے جا رہے ہیں۔دائمی امن و انصاف کے لئے آپ ﷺ کی مرتب کردہ یہ دستاویز کلیدی حیثیت کی حامل ہے۔