اسلام کا نظام محبت و اخوت, ۔۔۔۔۔۔۔ جسٹس (ر) قاضی محمد سلیمان منصور پوری

islam mein nizam akhuwat.jpg
اسلام ہر قسم کے تعصبات اور نفرتیں مٹا کر محبت کرنے کی ہدایت دیتا ہے

مسلمان کی ایک صفت یہ ہے کہ دوسروں پر رحم کرنے کے لئے بیتاب رہتا ہے، ’’جو کوئی خود رحم نہیں کرتا اس پر بھی رحم نہیں کیا جائے گا ‘‘ حدیث نبویﷺ
اسلام دین محبت و اخوت ہے، یہ انسان کو سراپاء محبت بننے کی تلقین کرتا ہے جس میں دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے لئے بھی محبت ،اخوت اور بھائی چارے کا درس ملتا ہے، یہ دنیا کا واحد مذہب ہے جو ہر قسم کے تعصبات اور نفرتیں مٹانے کی تلقین کرتا ہے۔ ذرا غور کیجئے، اسلام معرفت الہٰی کی تعلیم ان الفاظ میں دیتا ہے کہ وہ رب العالمین ہے ، ہر شے جو نمودار ہونے کی صلا حیت رکھتی ہے،جو نشو و نما قبول کر سکتی ہے، جو کسی حرکت سے متحرک ہے، اسے وجود بخشنے والا، اس کی ہستی کو قائم رکھنے والا، اس کے خواص کی حفاظت کرنے والا، اس کی ماہیت و کیفیت خاص سے اسے امتیاز بخشنے والا، اس کی ضروریات و حیات کو بہم پہنچانے والاوہی ہے ، وہی اللہ تعالیٰ ہے۔

وہ ’’رحمن ‘‘ ہے، یہ لفظ لغوی حیثیت سے لفظ رحمت سے مبالغہ کے لئے وضع ہوا ہے، اس کے معنی درجہ کمال کی رحمت کرنے والے کے ہیں۔سلسلہ وحی کا قیام، برکات سماوی کا نزول، انوار عرفان کا انعکاس اسی رحمت کا نتیجہ ہیں۔ارض و سما، اور خلاء و فضاء کا قیام اسی رحمن کے حکم سے ہے، چرند و پرند کی بقاء اسی رحمن کے عطیہ سے ہے۔ رحمن وہی ہے جو ہر ایک درماندہ کی توانائی ہے۔ہر ایک پسماندہ کی ہدایت ہے اسی کی استعانت ہمیں اس کی رحمت تک لے جاتی ہے۔ اسی کی رحمت قعر فرش سے انتہائے عرش تک قادر و متصرف ہے۔

وہ رحیم ہے، رحم سے رحیم، لغوی حیثیت سے یہ صفت مشبہ کا صیغہ ہے۔اس وزن کے الفاظ اپنے اپنے معانی کے لحاظ سے معنی دوام پر حاوی ہو جاتے ہیں۔لہٰذا اسم پاک ’’رحیم‘‘ ظاہر کرتا ہے کہ رحم ہمارے ابدی مالک کی صفات کاملہ میں سے ایک ہے۔ترمذی میں درج حدیث شریف میں آیا ہے کہ

ترجمہ:ایک عورت نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے دریافت کیا کہ کیا اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے اس سے زیادہ پیار کرتا ہے جتنا پیار ایک ماں اپنے بچے سے کرتی ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ یہ بات بالکل درست ہے۔ ایک حدیث پاک کا ترجمہ الطاف حسین حالی نے اس شعر میں سمو دیا ہے کہ

کرو مہربانی تم اہل زمیں پر

خدا مہرباں ہو گا عرش بریں پر

حدیث پاک میں ارشاد ہوا،

ترجمہ:جو کوئی خود رحم نہیں کرتا اس پر بھی رحم نہیں کیا جائے گا (متفق علیہ)

یعنی جو انسان اپنے ہاں رحم کو فروغ نہیں دیتا، دوسروں پر رحم نہیں کرتا وہ اللہ تعالیٰ سے اپنا تعلق توڑ لیتا ہے، اور جب کوئی اللہ سے تعلق توڑ لیتا ہے تو اس پر بھی رحمت کی بارش تھم سکتی ہے یا کم ہو سکتی ہے ۔ ہمارے مصائب کی ایک بڑی وجہ شائد یہ بھی ہو کہ ہم نے دوسروں پر رحم کھانا کم کر دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کلام پاک کے ایک ہی جملے میں صراحت کے ساتھ اللہ کی بندوں سے محبت اور بندوں کی اللہ سے محبت کو ثابت فرما دیا ہے۔

ترجمہ:سچے بندے اللہ سے محبت کرتے ہیں اور اللہ ان سے محبت کرتا ہے۔(سورہ مائدہ )

بعد ازاں صراحت مقصود کیلئے یہ بھی فرما دیا کہ محبت الہٰی کن بندوں کو حاصل ہوتی ہے، ارشاد ہوا،

ترجمہ: اللہ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔(سورہ بقرہ)

ترجمہ: عدل و انصاف کرنے والوں سے اللہ محبت کرتا ہے(سورہ مائدہ)

ترمذہی، رواہ مسلم و ابو دائود میں درج ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا،

ترجمہ:جب تک ایمان نہیں تب تک جنت میں داخلہ نہیں گا،جب تک آپس کی محبت نہیں تب تک ایمان نہیں۔

ایک اور حدیث پاک میں ارشاد ہوا کہ،

ترجمہ: آپس کی محبت، آپس کے پیار ،باہمی تعلقات میں مومنوں کی مثال ایک جسم کی سی ہے، جو چند اعضاء سے مرکب ہوتا ہے۔ پھر جب کسی ایک عضو کو تکلیف پہنچے تو جسم کے تمام اعضاء بے تابی کی کیفیت میں مبتلا ہو کر اس کا ساتھ دیتے ہیں(رواہ البخاری،و مسلم عن النعمان بن بشیر)

ان سے ظاہر ہواکہ دوسروں پر رحم کرنے ، ان کے مسائل کے حل کے لئے مومن کو بیتاب رہنا چاہئے۔ یہ مومن کی صفات میں سے ایک ہے۔دورسوں کی مصینبگت کا احساس دل میں جاگزیں رہنے سے ان کی مدد کرنے کو دل چاہتا ہے۔لہٰذا کسی مصیبت زدہ پر ہنسنے یاخوش ہونے کی بجائے اس کی دل جوئی کرنا مسلمان کی شناخت ہو چاہئے۔ ہمیں نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا یہ ارشاد ہر وقت اپنے دل میں رکھناچاہئے،

ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا، بندگان خدا میں کچھ لو گ ایسے ہیں جو نہ نبی ہیں نہ شہید لیکن ان کا اللہ کے ہاں بہت بڑادرجہ ہو گا۔لوگوں نے پاچھا، حضور (ﷺ)وہ کون لوگ ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا، یہ محبت کرنے والے لوگ ہیں۔جن کی باہمی محبت صرف للہیت پر ہے۔قرابت یا مال و زر کی داد و ستد پر نہیں ہے۔ وہ پر نور ہوں گے۔ان کو غم ہو گا نہ حزن۔(اخرجہ ابو دائود، عن عمر الفاروق)

اس حدیث پر غور کیجئے، کہ ولایت ربانی کو باہمی محبت ایمانی کا ثمر فرمایا گیا ہے، اس محبت کا ثمر وہ قرب الہٰی ہے جو روزمحشر ان کو حاصل ہو گا۔

محبت کی راہ میں کو ایک او رچیز رکاوٹ بنتی ہے جسے تعصب کہا جاتا ہے ۔لفظ ’’تعصب ‘‘کے معنی یہ ہیں کہ عطائے حق کے وقت کسی کو اس کے حق سے کم اور کسی کوحق سے زیادہ دیا جائے۔اس کے یہ معنی بھی ہیں کہ دوسروں کی آزادی عقل اور حریت مذہبی پر ناجائز بندشوں کا بار ڈالا جائے ۔اس کے یہ معنی بھی ہیں کہ اپنے مذہب کی برکات و انوار کا مستحق صرف اپنے آپ کو سمجھا جائے اور ان کی برکات و انوار سے بالکل دور رکھا جائے۔ بحمداللہ، اسلام کی تعلیمات ان جملہ نقائص سے یکسر پاک ہیں۔ قرآن حکیم اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ہمیشہ تعصب کی ان جملہ اقسام کو برا کہا، اور اپنے دامن کو ان خار زار سے ہمیشہ بلند رکھنے اور بچانے کی ہدایت دی۔

تعصب کے ہر چہار اقسام کی نفی کا یقین مندرجہ ذیل آیات قرآنی اور معاملات اسلامی سے بخوبی ہو جائے گا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے،

ترجمہ: اے ایمان والو! اپنے معاملات کو پورا کیا کرو۔(سورہ مائدہ)

ترجمہ:اس قوم کی نفرت تمہیں ادھر نہ کھینچ لے جائے کہ تم بھی ان پر زیادتی کرنے لگو(سورہ مائدہ)

ترجمہ:نیکی اور خدا ترسی کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ و سرکشی میں مدد نہ دیا کرو (سورہ مائدہ)

ترجمہ: اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ) کہہ دیجئے، اللہ نے جو کتاب میں اتار ا، میرا اس پر ایمان ہے، اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمہارے درمیان عدل کیا کروں ،ہمارا اور تمہارا رب ایک اللہ ہی ہے، ہم کو ہمارے اعمال ، تم کو تمہارے اعمال۔ ہمارے تمہارے درمیان کوئی جھگڑا نہیں، اللہ ہی ہم سب کو اکھٹا کرے گا اور اللہ ہی کی طرف ہم سب کو لوٹ جانا ہے (سورہ شوریٰ )

ان آیات کے بعد کیاکوئی شخص دنیا کسی بھی کتاب میں اس سے ا علیٰ تعلیم ..تعصب سے پاک محبت سے بھرپور احکامات پیش کر سکتا ہے تو کر کے دکھائے، ہر قوم کے قانونی ڈھانچے میں تعصب کی جھلک ملتی ہے ،ماسوائے اسلام کے۔ اسلام میں تعصب سے پاک انصاف کرنے کاحکم دیا گیا ہے۔اللہ کریم ہمیں اس کے احکامات پر عمل کرنک توفیق عطا فرمائے ۔