سیاسی بخار اور کورونا کے وار ۔۔۔۔۔ عابد حمید
siasi Bukhar Corona ke war.jpg
گیارہ اپوزیشن جماعتوں پر مشتمل اپوزیشن کا جلسہ اور حکومت کی بوکھلاہٹ کی وجہ سے خیبر پختونخوا کا سیاسی درجہ حرارت گزشتہ دنوں عروج پر رہا۔پی ڈی ایم کے جلسے سے قبل مولانا فضل الرحمان نے تن تنہا پشاور میں بلاشبہ ہزاروں لوگوں کو جمع کرکے سب کو حیران کردیاتھا ، 22 نومبر سے قبل مسلم لیگ (ن) کی مرکزی رہنمامریم نواز نے بھی سوات اور مانسہرہ میں بڑے مجمع سے خطاب کر کے صوبائی حکومت پر خوب چڑھائی کی
ان جلسوں کو مدنظر رکھتے ہوئے تجزیہ کاروں کا یہی خیال تھا کہ پی ڈی ایم 22نومبر کو انسانوں کا سمندر جمع کرکے لوگوں کو ششدر کردے گی ۔ حکومت بھی پریشان تھی۔ وہ کسی بھی طرح سے اس سیاسی بخار کو کم کرنے کے چکر میں تھی ۔لیکن وزیراعلیٰ نے ’’دنیا نیوز ‘‘سے بات چیت کرتے ہوئے طاقت کا استعمال بعید از قیاس قرار دیاتھا ۔صوبائی حکومت کو ملنے والی رپورٹس میں یہی کچھ بتایاگیا تھا کہ بائیس نومبر کو کوئی انہونی ہونے جارہی ہے ۔حکومتی وزراء اور مشیروں کی پریس کانفرنس پر پریس کانفرنسز ہورہی تھیں لیکن اے این پی اور جے یو آئی کی باہمی چپقلش کے باعث حکومت اور اپوزیشن اندازے غلط ثابت ہوئے۔ کیونکہ جلسے میں لوگوں کی شرکت توقع سے انتہائی کم رہی۔ دو کلومیٹر طویل پنڈال بھرنا بھی مشکل ہوگیا تھا۔ ایک طرف تو اپوزیشن کے دعوے کے مطابق تل دھرنے کی جگہ نہ تھی تو دوسری طرف حکومتی نمائندوں نے اسے جلسی قرار دیا ۔
جلسے کی میزبانی کیلئے ابتداء ہی سے جے یو آئی اور اے این پی میں کشمکش جاری تھی ، میزبان کا فیصلہ کرنا مشکل ہوگیا تھا جس کے بعد یہ فیصلہ ہوا کہ تمام جماعتیں مشترکہ طورپر جلسے کی میزبانی کریں گی لیکن یہ فیصلہ بھی غلط ثابت ہوا ۔جے یو آئی اور اے این پی کی اس کشمکش میں دونوں جماعتیں پنڈال بھرنے کی ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈالتی رہیں اور نتیجہ یہ نکلا کہ جلسے میں شرکاء کی تعداد کم رہی ۔کچھ اور اداروں نے جلسے کو بڑا قرار دیا تھا، لوگوں کی کم شرکت کے بعد ان کے لئے اپنی پرانی باتوں سے پھرنا مشکل ہو گیا تھا۔
اے این پی اور جے یو آئی کی کشمکش جلسے کے دوران بھی عیاں رہی۔ دونوں جماعتوں کے کارکن پنڈال بھرنے کی بجائے ایک دوسرے سے الجھتے رہے۔ ہر تھوڑی دیر بعد آپس میں تند و تیز باتیں کرتے نظر آئے ،اے این پی اور جے یو آئی کے مابین ہونے والی کشمکش کی وجہ سے 22 نومبر کو پی ڈی ایم کے رہنمائوں کیلئے باچاخان مرکز میں دیا جانے والا ظہرانہ بھی بلور ہاوس منتقل کرناپڑا تھااس سے قبل یہ ظہرانہ باچاخان مرکز میں کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ ذرائع کے مطابق مریم نواز اور مولانافضل الرحمان کے بھی تحفظات تھے ۔ ان کا کہناتھا کہ اے این پی اس طرح لوگوں کو یہ تاثر دینا چاہتی ہے کہ جلسے کی میزبانی اس کے ذمے ہے۔
پی ڈی ایم کی جماعتوں میں یہ نا اتفاقی اورعدم اعتماد اس جلسے پر بھی اثرانداز ہوا،اس معاملے کا ایک حساس پہلو کورونا ایس او پیز کو نظر انداز کرنا تھا۔دونوں جانب سے لڑے جانے والی اس چومکھی جنگ میں سب سے زیادہ متاثر عوام ہورہے ہیں۔نقصان صرف اور صرف عوام کا ہوا۔جلسے میں کورونا ایس او پیز کو پیروں تلے روندا گیا ،سیاسی قائدین سٹیج پر تو ماسک پہنے نظر آئے لیکن کارکنوں کو کسی نے ماسک پہننے کی ہدایت نہیں دی۔ جلسے میں ہزاروں لوگ شریک تھے ،لیکن یہ کورونا کے پھیلاو کا سبب ضرور بن گیا ہے۔ اس کے اثرات آئندہ چند دنوں میں ظاہر ہونا شروع ہوں گے ۔
پشاور میں اس وقت کورونا پھیلنے کی شرح دوسرے صوبوں کے مقابلے میں زیادہ ہے ۔ وزیر اعلیٰ کے معاون خصوصی کامران بنگش کے مطابق یہ شرح 12 فیصد تک پہنچ گئی ہے ۔ احتیاطی تدابیر اختیار نہ کرنے کی وجہ سے تیزی سے اضافہ ہورہا ہے ۔
خیبرپختونخوا میں کورونا کی دوسری لہر سے پانچ ہزار سے زائد افراد متاثر ہوچکے ہیں، عوام کی اس بے احتیاطی میں زیادہ تر ہاتھ ہمارے قائدین اور لیڈر صاحبان کا ہے جن کے بیانات سے عوام میں کورونا سے متعلق شکوک وشبہات کم ہونے کی بجائے مزید بڑھ رہے ہیں ۔مولانا فضل الرحمان کی جانب سے بھی اسی طرح کا ایک بیان سامنے آیا ہے جس کی حکومتی حلقوں کی جانب سے سخت مذمت کی گئی ۔ ایک طرف تعلیمی ادارے کورونا کے پھیلائو کو روکنے کیلئے بند ہورہے ہیں ، شادی ہالوں کو بنداوردفاتر میں سٹاف کم کردیاگیا ہے ،احتیاطی تدابیر نہ برتنے پر لوگوں کو جرمانے کئے جا رہے ہیں تو دوسری طرف حزب اختلاف کی جانب سے جلسے اور جلوس نکالنے جارہے ہیں ۔قائدین نے تو پھر بھی ماسک پہنے ہوتے ہیں لیکن ان کے پیروکار ایسی کسی بھی احتیاطی تدبیر پر عملدرآمد کرتے نظر نہیں آتے ، ہسپتال تیزی سے بھر رہے ہیں ،بیڈز مریضوں سے بھر رہے ہیں اور مرض اگر اسی طرح پھیلتا رہا تو کورونا کی دوسری لہر میں اگر شدت پیدا ہوئی تو شائد ہسپتالوں میں جگہ باقی نہیں رہے گی۔ فی الوقت حکومت نے کسی متبادل پلان کا اعلان نہیں کیا ہے۔ صوبائی حکومت شایدیہی آس لگائے بیٹھی ہے کہ ماضی کی طرح اس بار بھی کورونا کے مریض کم ہوں گے لیکن اگر اعدادوشمار پر نظر ڈالی جائے تو کیسز میں تیزی سے اضافہ ہورہاہے۔ حکومت اور اپوزیشن کو اب یہ مل کر طے کرنا ہوگا کہ انہیں عوام کی جان زیادہ عزیز ہے یا اپنے سیاسی مفادات ۔
پی ڈی ایم کے پشاور میں ہونے والے جلسے کو روکنے کیلئے طاقت استعمال نہ کرنے کا فیصلہ دانش مندانہ تھا، لیکن حکومت بات چیت کے دروازے کھلے رکھے ۔ جلسہ روکنے کیلئے صوبائی وزراء پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی گئی تھی جس نے اپوزیشن کے پارلیمانی رہنمائوں کو کورونا پر بریفنگ دینے کی دعوت دی تھی لیکن اپوزیشن رہنمائوں نے بریفنگ میں آنے سے انکار کر دیا تھا۔ جن رہنماؤں کو اس بریفنگ میں بلایاگیا تھا ان کے پاس جلسہ روکنے کا اختیار ہی نہیں تھا ۔اس کے برعکس اگر حکومت سنجیدہ ہوتی تو ایسی ہی کمیٹی وفاق کی سطح پر بن سکتی تھی جس میں اسد عمر ، شاہ محمود قریشی اور پرویزخٹک موثر کردار ادا کرسکتے تھے ۔یہ کمیٹی پی ڈی ایم کے مرکزی رہنمائوں سے ملاقات کرکے انہیں قائل کرسکتی تھی ۔ابھی بھی حزب اختلاف کی متحدہ جماعتوں کے ملتان اور لاہور میں جلسے شیڈول ہیں ۔حکومت اپوزیشن سے سنجیدگی سے مذاکرات کرکے ان جلسوں کو ملتوی کرواسکتی ہے۔