ووٹ کی آواز ۔۔۔۔ عندلیب عباس

دھاندلی ‘ چوری‘ دھوکہ ‘ سازش‘ انتخابات سے پہلے اور بعد میں ہارنے والے ایسے اسم ہائے صفت اکثر استعمال کرتے ہیں نتائج جو بھی ہوں۔ گلگت بلتستان Ú©Û’ برف پوش پہاڑوں سے Ù„Û’ کر کولوراڈوکے سنگلاخ پہاڑوں تک ووٹ Ú©Û’ سامنے وائرس Ú©ÛŒ یلغار دب گئی۔ کون سوچ سکتا تھا کہ گزشتہ سو برس Ú©Û’ دوران پھوٹنے والی بدترین وبااور موت Ú©Û’ خوف کوانتخابی جوش Ú©ÛŒ لہر بہا کر Ù„Û’ جائے گی۔ کسی Ú©Û’ وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ گلگت بلتستان Ú©ÛŒ منجمد کردینے والی سردی میں انتخابی معرکہ اس قدر گرم ہوجائے گا لیکن پھر جمہوری نظام کا یہی تو Ø+سن ہے Û” اس میں ایسا عوامی جوش دیکھنے میں آتا ہے Û” ہر ذہن ‘ ہر شخص ‘ جوان ہو یا بوڑھا‘ مردہویا عورت‘ اسی Ú©Û’ رنگ میں رنگا ہوتا ہے۔ جو چیز انسانوں Ú©Ùˆ اہم بناتی ہے ‘ وہ اُن Ú©ÛŒ پسند Ú©Ùˆ آواز کا روپ دینے Ú©ÛŒ صلاØ+یت ہے Û” کورونا وائرس Ú©Û’ دنوں میں انتخابات مزید تاریخی اور جوشیلے ہوگئے ‘اور یہ معمولی بات نہیں Û”
گلگت بلتستان پاکستان Ú©Û’ شمال میں واقع ایسا خود مختار علاقہ ہے جس Ú©ÛŒ اپنی Ø+کومت اور انتخابی نظام ہے Û” یہ علاقہ پہلے نوابی ریاست جموں اور کشمیر کا Ø+صہ تھا۔ اس پر پاکستان‘ بھارت اور مقامی آبادی Ú©Û’ درمیان Ù…Ø+اذ آرائی تھی۔ 1970 Ø¡ میں یہ واØ+د انتظامی یونٹ Ú©Û’ طور پر وزارت ِ امور ِکشمیر Ùˆ شمالی علاقہ جات Ú©Û’ ماتØ+ت آگیا جس میں گلگت ایجنسی‘ لداخ ‘ بلتستان ضلع اور ہنزہ اور نگر Ú©ÛŒ ریاستیں شامل تھیں۔ یہ علاقہ دو انتظامی یونٹس میں تقسیم ہے : گلگت اور بلتستان/ سکردو ‘اور اس Ú©ÛŒ آبادی Ú©Ù… Ùˆ بیش 13 لاکھ ہے۔ اسے چوبیس انتخابی Ø+لقوں میں تقسیم کیا گیا ہے Û”
اس برس Ú©Û’ گلگت بلتستان انتخابات پہلے سے کہیں زیادہ اہمیت اختیار کرگئے تھے Û” عام طور پر ایسے انتخابات پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (Ù†) Ú©Û’ درمیان ایک رسمی کارروائی ہوا کرتے تھے Û” سب جانتے تھے کہ جو پارٹی اسلام آباد میں Ø+کومت میں ہوگی‘ وہی جیتے Ú¯ÛŒ ‘ تاہم اس مرتبہ تینوں جماعتوں Ù†Û’ انتخابات Ú©Ùˆ سنجیدگی سے لیا ‘ جس Ú©ÛŒ مندرجہ ذیل وجوہات تھیں:
Û”1Û” ہر سیاسی جماعت کا سٹیج: یہ پہلی مرتبہ تھا کہ مرکزی دھارے Ú©ÛŒ تین سیاسی جماعتیں انتخابات میں Ø+صہ Ù„Û’ رہی تھیں۔ ہر پارٹی Ú©Û’ لیے ان انتخابات Ú©Û’ نتائج سیاسی اہمیت رکھتے تھے Û” پاکستان تØ+ریک انصاف Ú©Û’ لیے یہ انتخابات بہت اہم تھے Û” پیپلز پارٹی اورمسلم لیگ (Ù†) Ù†Û’ اسے Ú©Ú‘ÛŒ تنقید کا بنایا ہواتھا یہ مکمل طور پرناکام اور غیر مقبول ہوچکی ہے Û” تØ+ریک انصاف Ù†Û’ اس تاثر Ú©Ùˆ زائل کرتے ہوئے اپنی جماعت Ú©ÛŒ مقبولیت Ú©Ùˆ ثابت کرنا اور Ø+زب ِ مخالف Ú©Û’ منفی پراپیگنڈے Ú©Ùˆ بے نقاب کرنا تھا ۔پیپلز پارٹی نہ صرف یہاں پہلے اقتدار میں رہ Ú†Ú©ÛŒ تھی بلکہ گلگت بلتستان میں خاطر خواہ ووٹ بینک بھی رکھتی تھی کیونکہ ذوالفقار علی بھٹو Ù†Û’ اس علاقے Ú©Ùˆ قانون سازی کا Ø+Ù‚ دیا تھا Û” اُن کا خیال تھا کہ یہاں Ø+اصل کیے گئے اچھے نتائج ان Ú©Û’ اس دعوے Ú©Ùˆ ثابت کرنے میں معاون ثابت ہوں Ú¯Û’ کہ پیپلز پارٹی Ù…Ø+ض سندھ Ú©ÛŒ جماعت نہیں Û” مسلم لیگ (Ù†) Ú©ÛŒ اس سے پہلے یہاں Ø+کومت تھی۔ اُنہوں Ù†Û’ ثابت کرنا تھا کہ صوبے میں کارکردگی Ú©ÛŒ وجہ سے اُنہیں یہاں سے Ø+مایت ملی ہے Û” ا س سے اُن Ú©Û’ اس بیانیے Ú©Ùˆ تقویت ملنی تھی کہ اُن Ú©ÛŒ کارکردگی بہتر تھی Û”
Û”2Û” قیادت کا امتØ+ان: یہ انتخابات اس Ø+والے سے بھی اہم تھے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (Ù†) Ú©ÛŒ قیادتوں Ú©ÛŒ دوسری نسل پہلی مرتبہ باقاعدہ انتخابی اکھاڑے میں اُتری تھی Û” بلاول بھٹو Ù†Û’ ان انتخابات میں بہت زیادہ وقت صرف کیا Û” مریم نواز Ù†Û’ بھی گلگت بلتستان Ú©ÛŒ انتخابی مہم Ú©Û’ آخری دس دن وہاں گزارے Û” تØ+ریک انصاف Ú©Û’ علی امین گنڈاپوراور مرادسعید بھی وہاں فعال تھے Û” بلاول اور مریم ‘ دونوں Ù†Û’ رائے دہندگان Ú©Ùˆ جلسوں میں شرکت Ú©ÛŒ تØ+ریک دی اور درØ+قیقت تمام جلسوں میں عوام کا بہت زیادہ جوش Ùˆ جذبہ دیکھنے میں آیا Û” لیکن یہ بھی Ø+قیقت ہے کہ قیادت کا مطلب صرف جوشیلی تقاریر کرنا ہی نہیں ہوتا۔ گزشتہ پانچ برسوں Ú©Û’ دوران مسلم لیگ (Ù†) Ú©ÛŒ ناقص کارکردگی اور مریم نواز Ú©Û’ گلگت بلتستان Ú©Û’ ناراض اراکین Ú©Û’ بارے میں چبھتے ہوئے تبصروں Ù†Û’ انتخابات میں پارٹی Ú©Ùˆ شکست سے دوچار کردیا۔ Ø+کمران جماعت ہونے Ú©Û’ ناتے تØ+ریک ِ انصاف Ù†Û’ ووٹروں سے گلگت بلتستان Ú©Ùˆ صوبے کا درجہ دینے کا وعدہ کیا Û” دوسری طرف پیپلز پارٹی Ú©Û’ پاس بھٹو Ú©Û’ جذباتی نعروں Ú©Û’ پیش کرنے Ú©Û’ لیے Ú©Ú†Ú¾ نہیں تھا اور یہ نعرے عوام پہلے بھی سنتے رہتے ہیں۔ اب اس جذباتیت کا ووٹوں میں ڈھلنا مشکل ہے Û”
Û”3Û” بیانیے Ú©ÛŒ قبولیت : یہ انتخابات Ù¾ÛŒ ÚˆÛŒ ایم Ú©Û’ بیانیے Ú©ÛŒ قبولیت کا بھی امتØ+ان تھے Û” جس دوران پیپلز پارٹی صرف تØ+ریک ِ انصاف Ú©ÛŒ کارکردگی Ú©Ùˆ ہدف ِتنقید بناتی رہی ‘ Ù¾ÛŒ ایم ایل Ù† Ù†Û’ اداروں Ú©Ùˆ نشانہ بنانے Ú©ÛŒ پالیسی اپنارکھی ہے Û” اُن کا منفی بیانیہ اس خطے Ú©Û’ عوام Ù†Û’ مستر د کردیاکیونکہ وہ اپنی آنکھوں سے فوج Ú©Ùˆ بہادری سے لڑتے دیکھ Ú†Ú©Û’ ہیں۔ نئی پارٹی قیادت Ú©ÛŒ تقریروں میں سنجیدگی اور بصیرت کا فقدان واضØ+ دکھائی دیا۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں کوئی ممکنہ اپ سیٹ نہ ہوسکا جس Ú©ÛŒ سیاسی پنڈت امید لگائے بیٹھے تھے Û”
گلگت بلتستان انتخابات کئی Ø+والوں سے اہم ہیں۔ ان کا انعقاد کورونا Ú©ÛŒ دوسری مہلک لہر Ú©Û’ دوران ہوا۔ موسم بھی سخت سرد تھا۔ اس Ú©Û’ باوجود عوام Ù†Û’ بے Ø+د جوش Ùˆ جذبے سے ان میں شرکت Ú©ÛŒ Û” تمام جماعتوں Ú©Û’ جلسوں میں بھاری تعداد میں عوام شریک ہوئے ۔اس کا مطلب ہے کہ گلگت بلتستان Ú©Û’ لوگ سیاسی توجہ چاہتے ہیں۔ دوسرا Ø+وصلہ افزا پہلو سیاسی عمل میں خواتین Ú©ÛŒ شمولیت تھی Û” مسلم لیگ (Ù†) Ú©Û’ علاوہ تمام جماعتوں Ù†Û’ خواتین امیدواروں Ú©Ùˆ نامزد کیا Û” ان امیدواروں Ù†Û’ بھاری تعداد میں ووٹ بھی لیے Û” خواتین رائے دہندگان Ú©ÛŒ طویل قطاریں اس بات کا منہ بولتا ثبوت تھیں کہ گلگت بلتستان Ú©ÛŒ خواتین اپنی اہمیت سے واقف ہیں۔
گلگت بلتستان میں Ø+کومت Ú©Û’ قیام Ú©Û’ بعد وفاقی Ø+کومت Ú©Û’ اقدامات اہمیت رکھتے ہیں۔ علاقے Ú©Ùˆ صوبائی Ø+یثیت دینے Ú©Û’ وعدے پر عمل درآمد ہونا چاہیے Û” ملازمت Ú©Û’ مواقع اور دیگر سہولیات Ú©ÛŒ فراہمی خطے Ú©Û’ بنیادی مسائل ہیں۔ Ø+کومت Ú©Ùˆ چاہیے کہ ملازمت Ú©Û’ مواقع پیدا کرنے Ú©Û’ لیے گلگت بلتستان سیاØ+ت Ú©Û’ منصوبے Ú©Ùˆ جدید خطوط پر فعال بنائے Û” رواں سال گلگت بلتستان اگلے برس آزاد کشمیر میں ہونے والے انتخابات Ú©Û’ لیے ایک ٹیسٹ کیس ہوگا۔ اسی طرØ+ Ø+زب ِ مخالف Ú©Û’ پاس بھی اپنے بیانیے پر نظر ِ ثانی کا موقع ہے Û” یہ بات Ø·Û’ ہے کہ ریاست مخالف بیانیے Ú©Ùˆ کہیں بھی پذیرائی نہیں ملے Ú¯ÛŒ Û” ریاستی اداروں پر Ø+ملہ کرنے Ú©ÛŒ بجائے اُن جماعتوں Ú©Ùˆ عوامی مسائل پر توجہ دینی چاہیے Û” گلگت بلتستان Ú©Û’ ساتھ مسئلہ یہ تھا کہ موجودہ انتخابات سے پہلے وہاں Ù¾ÛŒ ایم ایل Ù† Ú©ÛŒ Ø+کومت تھی ‘ اس لیے عوامی سہولیات Ú©Û’ فقدان پر بات کرنے کا مطلب اپنی کوتائیوں Ú©Ùˆ تسلیم کرنا تھا Û” قومی سطØ+ پر Ø+زب ِاختلاف Ú©Ùˆ عوامی معاملات پر بات کرنی چاہیے تاکہ وہ عوامی مفاد Ú©ÛŒ Ú©Û’ متبادل اور مؤثر نگہبان کا تاثر دے سکے Û”
ہر بØ+ران میں کوئی نہ کوئی موقع موجود ہوتا ہے Û” بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر کورونا نہ ہوتا تو ٹرمپ جیت جاتے Û” کورونا Ù†Û’ رائے دہندگان Ú©Ùˆ سوچ سمجھ کر ووٹ ڈالنے Ú©ÛŒ ترغیب دی Û” ووٹر بھی Ù…Ø+سوس کررہا ہے کہ اُنہیں ایسے Ø+کمران چاہئیں جو اُن کا خیال رکھیں Û” جارجیا سے Ù„Û’ کر گلگت بلتستان تک ووٹر جو اس سے پہلے کبھی باہر نہیں Ù†Ú©Ù„Û’ تھے اب جوق در جوق باہر نکلتے دکھائی دیے Û” اس میں کوئی Ø´Ú© نہیں کہ ووٹر Ú©ÛŒ آواز آخر کار ووٹ مانگنے والوں سے زیادہ توانا ہوتی جائے Ú¯ÛŒ Û”