جھانک کر سو بار اپنے دل میں دیکھا ٹھیک ہے
اپنی خواہش ٹھیک ہے اپنا ارادہ ٹھیک ہے
مہربانی آپ کی پوچھا ہے مجھ سے میرا حال
شُکر ہے اُس ذات کا فی الحال بندہ ٹھیک ہے
جب گزرتا ہوں تو مجھ سے پوچھتا ہے اک شجر
میں بھی کہہ دیتا ہوں اُس کو ہر پرندہ ٹھیک ہے
ٹھیک ہے کیا ایک ہی حالت میں رہنا ہر گھڑی
روتے رہنا ہر گھڑی، آنسو بہانا ٹھیک ہے!
دیکھتا ہوں جب بھی دنیا کو تو لگتا ہے مجھے
اُ س نے جس بھی حال میں جس کو ہے رکھا ٹھیک ہے
فیصلہ اس کا ہوا ہے اور نہ ہو گا عمر بھر
دوستو کیا کیا غلط ہے اور کیا کیا ٹھیک ہے
جس کو کہتے ہیں بُرا اس عہد کے انسان بھی
شکل و صورت سے تو وہ انسان لگتا ٹھیک ہے
مدتوں سے ایک ایسے گھر میں میں آباد ہوں
بام و در جس کے نہ کوئی بھی دریچہ ٹھیک ہے
آپ کی تقسیم پر راضی ہوں میں اس بار بھی
آپ نے جتنا دیا ہے مجھ کو حصّہ، ٹھیک ہے
ٹھیک ہے انداز کیا یوں بات کرنے کا بھلا
آپ ہی کہیے بھلا یہ سخت لہجہ ٹھیک ہے
دور کے سر سبز منظر یہ بتاتے ہیں نبیلؔ
اس کی جانب جانے والا سارا رستا ٹھیک ہے
نبیل احمد نبیل