درکار جس قدر ہے میسر نہیں رہا
کچھ بھی رسد طلب میں برابر نہیں رہا
پشتوں سے آ رہا تھا مچھیروں کو پالتا
اب وضعدار اتنا سمندر نہیں رہا
ماں باپ‘ بھائی بہن سبھی کچھ بکھر گیا
بے شک مکان ہے وہ مگر گھر نہیں رہا
دستار کو سنبھالنا مہنگا پڑا ہمیں
شانے تو رہ گئے ہیں مگر سر نہیں رہا
اس حاضری میں بھی ہے وہی غیر حاضری
موجود ہے مگر وہ میسر نہیں رہا
یہ دیکھنا پڑے گا اُدھر پھول پھینک کر
کیا اب کسی کے ہاتھ میں پتھر نہیں رہا
دشمن بھی خوف کھانے لگے میرے موت سے
مر کر کسی طرح کا مجھے ڈر نہیں رہا
اے فاختہ خدا کے لیے تُو بھی چھوڑ جا
میری منڈیر پر وہ کبوتر نہیں رہا
بُوڑھا درخت گرتے ہی ایسا لگا مجھے
سایہ کسی بزرگ کا سر پر نہیں رہا
میں بھی بہت اکیلا تھا میدانِ جنگ میں
اس جنگجو کے پاس بھی لشکر نہیں رہا
کس منہ سے اپنے آپ کو زندہ قرار دوں
بے شک ترے بغیر بھی میں مر نہیں رہا
ظفر اقبال