ہاؤس وائف ۔۔۔۔۔ اسد طاہر جپہ

وہ کبھی سکول نہیں گئی ،اس نے کسی کالج میں قدم نہیں رکھا اور نہ ہی کسی یونیورسٹی سے کوئی ڈگری حاصل کی ہے۔ اسے علمِ معاشیات کا پتا ہے نہ علمِ سیاسیات سے کوئی شغف ہے، ریاضی کے گورکھ دھندے سے ناآشنا اورشماریات کے مضمون کی پیچیدگیوں سے مکمل بے خبر۔ نیوٹن کے قوانینِ حرکت کی کوئی خبر نہ لا آف اٹریکشن سے شناسائی ۔ ڈینیل کارنیگی اور نپولین ہِل سے لے کر ٹونی بیوزن کے مائنڈ پاور کے فلسفہ اور رابن شرما کی کتاب'' فائیو اے ایم کلب‘‘ سے مکمل بے بہرہ۔ دنیاوی علوم، مفکرین، مقررین اور موٹیویشنل سپیکرز سے استفادہ سے بھی محروم، وہ سارے جہاں سے الگ تھلگ اپنی ایک چھوٹی سی دنیا میں وقت کے دائروں میں بٹی کٹی زندگی پوری سچائی اور دیانت داری سے جی رہی ہے۔ اس کی کل کائنات اس کے گھر کی چار دیواری، اس کا خاندان، اس سے جڑی ضرورتیں، پریشانیاں، صدمے اور خوشیاں ہیں۔ اس کا غم اور اس کی خوشی کو بانٹنے والوں کی تعداد بہت محدود ہے۔ اس کی سوچ کا محور اس کے بچے ،ان کا مستقبل ، اس کی بکریاں اور مرغیاں ہیں، ان سے حاصل ہونے والی کمائی اور اس میں بننے والا محدود سا بجٹ‘ جس سے جملہ اخراجات اور حاجات کو پورا کرنا ہے۔ وہ رات گئے آرام کے لیے بستر داز ہوتی ہے تو چاند تاروں سے باتیں کرتے، خواب دیکھتے سو جاتی ہے اور پھر صبحِ کا ذب کے وقت مرغوں کی اذانیں اسے جگا دیتی ہیں اور اس کا ایک اور لمبا دن شروع ہو جاتا ہے۔
سب سے پہلے وہ اللہ اور رسولﷺ کو یاد کرتی ہے اور بسم اللہ کے ورد کے ساتھ دودھ کی چاٹی میں مدھانی ڈالتی ہے جس سے دہی، مکھن اور لسی حاصل کر کے صبح کے ناشتے کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔ صبح صادق کے وقت بچوں کو جگا کر مسجد بھیجتی ہے اور خود اُن کی وردیاں استری اور جوتے پالش کر کے تازہ مکھن سے بنے پراٹھے، انڈے کے آملیٹ اور دہی پر مشتمل ناشتے کا بندوبست کرتی ہے جو مسجد سے واپسی پر بچوں کو پیش کرتی ہے اور انہیں سکول روانہ کر دیتی ہے ۔ ہر صبح اسے اپنی بیٹی کے ماتھے پر قسمت کا ستارہ چمکتا دکھائی دیتا ہے تو وہ اس کی روشنی میں اپنی بیٹی کو ڈاکٹر کے روپ میں دیکھتی ہے۔ اپنے بیٹوں کی آنکھوں میں امید اور حوصلے کا ایک جہان اسے نظر آتا ہے اور انہیں وہ مستقبل قریب میں اعلیٰ افسران اور کامیاب انسان بنتے نظر آتے ہیں تو اس کی خوابوں کی دنیا میں رنگِ بہار نمایاں ہے۔ اسے اپنی مشکلیں کٹتی اور فاصلے سمٹتے نظر آتے ہیں اور کارِ جہاں کے رنج و آلام سے جلد چھٹکارا ملنے کے امکانات روشن دکھائی دیتے ہیں۔ اس کے عزم و ولولہ میں نئی امنگ نمایاں ہونے لگتی ہے اور اس کے جذبے دوبارہ پوری طاقت سے ایک نیا صبر آزما دن شروع کرنے میں اس کی ڈھارس بندھاتے ہیں۔
بچوں کو سکول روانہ کر کے رات کی باسی روٹی، مکھن، اچار اور لسی پر مشتمل ناشتہ لے کر وہ کھیتوں کا رخ کرتی ہے جہاں اس کا خاوند زمین سے سونا اگانے اور متاعِ زیست کی تلاش میں مصروفِ عمل ہے۔ کھیتوں میں ہل چلانے سے لے کر پانی لگانے اور مال مویشی کو چارہ ڈالنے، پانی پلانے اور نہلانے ٹہلانے کے مختلف امور سر انجام دینا اس اکیلے شخص کے بس کی بات نہیں لہٰذا اسے ناشتہ دے کر وہ اس کے ساتھ کام میں جت جاتی ہے اور برابر مشقت کرتی ہے۔ ان ساری مصروفیات کے ساتھ ساتھ‘ اگر ٹیوب ویل چل رہا ہو تو وہ گھر سے کپڑے لا کر وہیں دھوتی ہے اور انہیں خشک کرنے کے لیے کھیتوں میں پھیلا دیتی ہے۔ اتنے میں اس کا شوہر دودھ دوہ کر اس کے حوالے کرتا ہے اور وہ اسے سر پہ اٹھائے دوپہر کو گھر واپس لوٹتی ہے اورسکول سے چھٹی کر کے گھر آنے والے بچوں کے پہنچنے سے قبل دوپہر کا کھانا تیار کرنے لگتی ہے۔ بچوں کو کھانا دے کر ایک بار پھر وہ کھیتوں کا رخ کرتی ہے جہاں موسم کے مطابق فصل کی کٹائی، بوائی اور چنائی میں لگ جاتی ہے اور شام تک اپنے لیے اور اپنے خاندان کے لیے سامانِ رزق اکٹھا کرتی ہے۔ ٹیوب ویل کے ساتھ ہی ایک چھوٹی سی کیاری میں اس نے موسمی سبزیاں بھی اگا رکھی ہیں جن میں وہ حسبِ ضرورت سبزیاں توڑ کر گھر لاتی ہے اور رات کے کھانے کی تیاری میں مصروف ہو جاتی ہے۔ مغرب کے کچھ دیر بعد اس کا شوہر اور خاندان کے دوسرے مرد حضرات گھر پہنچ جاتے ہیں جن کی خدمت اور انہیں رات کا کھانا دینا اس اکلوتی جان کی ذمہ داری ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ ان سب امورِ خانہ داری اور کھیتی باڑی کے ساتھ ساتھ وہ گھر میں ایک کامیاب دستکاری سنٹر بھی چلاتی ہے جہاں وہ گائوں کی چھوٹی بچیوں کو سلائی کڑھائی اور اون کی بُنائی سکھاتی ہے۔ روٹی والے رومال، تکیے ، چادریں، میز کرسی کے کور ،اون کی ٹوپیاں، جرسیاں اور دستانے‘ سب یہاں بنائے جاتے ہیں جنہیں نہ صرف اپنے بچوں کو سردی سے بچانے اور گھر کی سجاوٹ کے لیے استعمال میں لایا جاتا ہے بلکہ انہیں بیچ کر گھر کی ضروریات بھی پوری کی جاتی ہیں۔ اس کیش اکانومی کو مزید مضبوط بنانے کے لیے اس نے کھیتوں میں جانوروں کے ساتھ ساتھ چند ایک بکریاں اور مرغیاں بھی پال رکھی ہیں جنہیں بوقتِ ضرورت بیچ کر نقد رقم وصول کی جاتی ہے اور اپنی حاجات کو عزتِ نفس مجروح کیے بغیر ‘پورا کیا جاتا ہے۔ یوں وہ میکرو اور مائیکرو اکنامکس پڑھے بغیر ایک بہترین ماہرِ معاشیات بھی ہے اور اپنی مؤثر منصوبہ بندی اور حکمتِ عملی سے وہ آمدن کے ایک سے زائدذرائع بھی پیدا کر لیتی ہے۔ خود اپنی سبزیاں اگا کر وہ غیر ضروری اخراجات سے بھی گریز کرتی ہے اور بچت کی ایک جیتی جاگتی تصویر نظر آتی ہے۔
یوں بظاہر اس گھریلو اور نا خواندہ عورت کے کئی روپ ہیں۔ وہ ایک محبت کرنے والی ماں ہے اور ایک خدمت گزار بیوی بھی۔ وہ اپنے بھائیوں کی تابع فرمان بہن ہے تو اپنے خاندان کے بزرگوں کی عزت کرنے والی بیٹی اور بہو بھی۔ وہ اَن پڑھ ضرور ہے پر جاہل نہیں، وہ ایک بہترین منتظم، کامیاب ماں اور عملی زندگی کو خوبصورتی سے جینے کے فن سے بہرہ ور ایک عظیم عورت ہے۔ آج بھی ہمارے وطنِ عزیز کی تقریبا 65 فیصد آبادی دیہات میں آباد ہے اور یہ عظیم عورت اس دیہی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ یہ گھر گھر میں اپنے ٹھوس کردار سے نہ صرف کھیت کھلیان، امورِ خانہ داری اور دستکاری کے مختلف صبر آزما اور مشکل ترین کام کاج بطریقِ احسن سر انجام دیتی نظر آتی ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کر کے اور ان کی بہترین تربیت اور اپنی محنت سے کمائے گئے رزقِ حلال سے انہیں ایک ذمہ دار اور کارآمد شہری بنانے میں بھی اپنا نمایاں کردار ادا کرتی نظرآتی ہے۔اس سے ملتا جلتا کام تعلیم یافتہ شہری خواتین بھی کرتی ہیں جنہیں شادی کے بعد تعلیم، صلاحیت اور ڈگری کے باوجود نوکری کی اجازت نہیں ملتی اور وہ محض امورِ خانہ داری، بچوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت میں اپنی تمام عمر گزار دیتی ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ایم اے، ایم ایس سی، ایم بی اے، ایم فل، پی ایچ ڈی، ڈاکٹریٹ اور انجینئرنگ کرنے والی خواتین گھر کی چار دیواری میں دھوبن، باورچن، آیا، خادمہ، استانی اور صفائی والی آنٹی کے مختلف روپ دھار کر عملی طور پر لگ بھگ سولہ گھنٹے مصروف رہتی ہیں۔ یوں اپنے شوہر کی آمدن پر کوئی اضافی بوجھ نہیں پڑنے دیتیں مگر ہم پھر بھی انہیں نکما، ناکارہ اور ہائوس وائف کے القابات سے نواز تے ہیں اور ان کی بیش قیمت خدمات کے اعتراف کے بجائے انہیں ایک بوجھ تصور کرتے ہیں۔ قابلِ غور امر یہ ہے کہ ہم جب بھی ان عظیم خواتین کے بے بہا کارناموں پر بات چیت کرتے ہیں تو ان کے یہ تمام امور ردّی کی ٹوکری میں ڈال دیتے ہیں اور انہیں ہائوس وائف کا ٹائٹل دے کر ان کی کٹھن طرزِ زندگی اور بے پناہ خدمات کو سراہنے سے گریز کرتے ہیں۔ہم ورکنگ وومن صرف اسے قرار دیتے ہیں جو دفتری امور سرانجام دے اور ملازمت پیشہ ہو ۔ اگر ہم اپنے گھروں میں موجود خواتین کے مختلف امور کی اکنامک ویلیو کا حساب کتاب کریں تو یا ہمیں ہائوس وائف کے تصور کو بدلنا پڑے گا یا ورکنگ وومن کی تعریف تبدیل کرناہو گی۔