آ گیا تھا وہ خوش خصال پسند
تھی ہماری بھی کیا کمال پسند
حیف! بد صورتی رویّوں کی
ہائے دل تھا مرا جمال پسند
کیوں بنایا تھا ٹِھیکرا دل کو
کیوں کیا ساغرِ سفال پسند
ٹھیک ہے میں نہیں پسند اُنہیں
لیکن اس درجہ پائمال پسند
سچ نہ کہیے کہ سچ ہے صبر طلب
لوگ ہوتے ہیں اشتعال پسند
ہاں مجھے آج بھی پسند ہے وہ
اس کو کہتے ہیں لازوال پسند
حلم ہے اہلِ علم کا شیوہ
جاہ والوں کو ہے جلال پسند
وصل کو ہجر ، ناگہانی موت
ہجر کو موسمِ وصال پسند
فکرِ دنیا نہیں! مجھے احمدؔ
اپنی مستی اور اپنی کھال پسند