چارپائی Û”Û”Û”Û”Û” مشتاق اØ+مد یوسفی

charpaii.jpg
سچ تو یہ ہے کہ جہاں چارپائی ہو وہاں کسی فرنیچر Ú©ÛŒ ضرورت، نہ گنجائش، نہ تک Û” انگلستان کا موسم اگر اتنا ذلیل نہ ہوتا اور انگریزوں Ù†Û’ بروقت چارپائی ایجاد نہ کر Ù„ÛŒ ہوتی تو وہ موجودہ فرنیچر Ú©ÛŒ کھکھیڑ سے بچ جاتے، پھر آرام دہ چارپائی Ú†Ú¾ÙˆÚ‘ کر کالونیز بنانے Ú©ÛŒ خاطر گھر سے نکلنے Ú©Ùˆ بھی ان کا دل نہ چاہتا۔ ''اوول Ú©ÙˆÚˆ سورج ‘‘ بھی ان Ú©ÛŒ سلطنت ایک صدی تک ہمہ وقت چمکتے رہنے Ú©ÛŒ ڈیوٹی سے بچ جاتا اور Ú©Ù… از Ú©Ù… آج Ú©Ù„ Ú©Û’ Ø+الات میں بے کار Ù¾Ú‘Û’ رہنے کیلئے ان Ú©Û’ گھر میں کوئی ÚˆÚ¾Ù†Ú¯ Ú©ÛŒ چیز تو ہوتی Û” ہم Ù†Û’ ایک دن پروفیسر ڈاکٹر قاضی عبدالقدوس (ایم اے )بی Ù¹ÛŒ سے کہا کہ بقول آپ Ú©Û’ انگریز تمام ایجادات Ú©Û’ موجد ہیں بہت پریکٹیکل ہیں Û” Ø+یرت ہے چارپائی استعمال نہیں کر تے۔
بولے'' اوہ وائی کسنے سے کتراتے ہیں‘‘۔ راقم الØ+روف Ú©Û’ خیال میں ایک بنیادی فرق کا ضرور خیال رکھنا چاہیئے کہ یورپی فرنیچر صرف بیٹھنے کیلئے ہوتا ہے اور ہم کسی ایسی چیز پر بیٹھتے ہی نہیں جس پر لیٹ نہ سکیں۔ دری ØŒ گدے ØŒ قالین، جازم ØŒ چارپائی، کوچہ یار Ú©Ùˆ بھی پیش کیا جاسکتا ہے۔ ایک چیز ہمارے ہاں البتہ ایسی تھی جسے صرف بیٹھنے کیلئے استعمال کیا جاتا تھا۔اسے Ø+کمرانوں کا تخت کہتے ہیں لیکن جب اسی پر لٹا کر نہلا دیا جاتا تو یہی تخت تختہ کہلاتا تھااور اس عمل Ú©Ùˆ تختہ الٹنا کہتے ہیں۔
اس تمہید کا مقصد غیر دل پذیر کہ یہ ہے کہ جہاں چارپائی کا چلن ہو وہاں فرنیجر کا بزنس پنپ نہیں سکتا۔ اب اسے چوب عمارتی کہیے یا Ú©Ú†Ú¾ اور دھندہ ہمیشہ اس کا مندا ہی رہتا تھا کہ دکانوں Ú©ÛŒ تعداد گاہکوں سیزیادہ تھی۔ لہٰذا کوئی ایسا شخص نظر آ جائے جو Ø+لیے اور چال ڈھال سے ذرا بھی گھاگ معلوم ہوا تو Ù„Ú©Ú‘ منڈی Ú©Û’ دکاندار اس پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ بیشتر گاہک گردونواØ+ Ú©Û’ دیہاتی ہوتے جو زندگی میں پہلی اور آخری بار Ù„Ú©Ú‘ÛŒ خریدنے کان پور آتے Û” ان بیچاروں کا Ù„Ú©Ú‘ÛŒ سے دو ہی مرتبہ واسطہ پڑتا ایک اپنا گھر بناتے وقت اور دوسرا اپنا کریا کرم کرواتے ہوئے۔