جس حویلی میں تھا ہمارا گھر ۔۔۔۔ مشتاق احمد یوسفی
jis haveli mein tha hamara ghar.jpg
قبلہ نے بڑے جتن سے لی مارکیٹ میں ایک چھوٹی سی دکان کا ڈول ڈالا۔ بیوی کے جہیز کے زیور اور بندوق اونے پونے داموں بیچ ڈالی۔ کچھ مال ادھار خریدا، ابھی دکان ٹھیک سے جمی بھی نہ تھی کہ ایک انکم ٹیکس انسپکٹر آنکلا۔ کھاتے ، رجسٹریشن، روکڑا اور اخراجات کی رسید طلب کی۔ دوسرے دن قبلہ ہم سے کہنے لگے ''مشتاق صاحب آپ نے مہینوں جوتیاں چٹخائیں، دفتروں میں اپنی اوقات خراب کروائی، کسی نے پلٹ کر نہ پوچھا کہ بھیا کون ہو ۔ اب دل لگی دیکھئے کہ کل انکم ٹیکس کا تیس مار خان دندناتا ہوا آیا۔ لقہ، کبوتر کی طرح سینہ پھلائے میں نے اس بے اوقاتے کو یہ دکھا دی‘‘۔ میں نے پوچھا کیا دکھایا یہ سے کیا مراد ہے۔ کہنے لگے ہمارے ہاں اسے محل سرا کہتے ہیں۔
سچ جھوٹ کا حال مرزا جانے ،انہی سے روایت ہے کہ اس محل سرا کا ایک بڑا فوٹو فریم کروا کے اپنے محل کی ایک کاغذی سی دیوار میں کیل ٹھونک رہے تھے کہ دیوار کے اس پاروالے پڑوسی نے آکر درخواست کی کہ ذرا کیل ایک فٹ اوپرٹھونکیں تاکہ دوسرے سرے پر میں اپنی شیروانی لٹکا سکوں۔
دروازے زور سے کھولنے اور بند کرنے کی دھمک سے اس کیل پر ساری سرا محل پنڈولم کی طرح جھولتی تھی۔ گھر میں ڈاکیا یعنی دھوبن بھی آتی تو اسے بھی دکھاتے کہ یہ چھو ڑ کرآئے ہیں۔ اس حویلی کا فوٹو بھی ہم نے بار بار دیکھا ۔ اسے دیکھ کرایسا لگتا تھا کہ جیسے کیمرے کو موٹا نظرآنے لگا ہے۔ لیکن کیمرے کی ذوق بصارت کو قبلہ اپنے زور بیان سے دور کر دیتے تھے۔ یوں بھی ماضی ہر شے کے گرد ایک رومانی ہالہ کھینچ دیتا ہے۔ ماضی کی ہرشے سوہانی لگنے لگتی ہے۔گزرا ہوا درد بھی سوہانا لگتا ہے۔ آدمی کا جب سب کچھ چھن جائے تو یا تو وہ مست ملنگ ہو جاتا ہے یا پھر فینٹسی لینڈ میں پناہ لیتا ہے۔
نہ ہو اگر یہ فریب پیہم تو دم نکل جائے آدمی کا
شجرہ اور حویلی بھی ان کی ایک ایسی ہی جائے اماں تھی۔ ممکن ہے کہ بے ادب نگاہوں کو یہ تصویر میں اچھا دکھائی نہ دے۔ جب قبلہ اس کی تعمیراتی نزاکتوں کی تشریح فرماتے تو اس کے آگے تاج محل سیدھا سپاٹ، گنوار اور گروندا دکھائی دیتا۔ مثلاً دوسری منزل پر ایک دروازہ نظر آتا تھا جس کی چوکٹ اور کیواڑ جھڑ چکے تھے۔ قبلہ اسے فرانسی دریچہ بتاتے تھے۔ اگر کوئی یہاں دریچہ تھا تو اس دریچہ میں جڑے ہوئے آئینہ جہاں نما کو توڑ کر ساری کی ساری ایسٹ انڈیا کمپنی آنکھوں میں اپنے جوتوں کی دھول جھونکتی گزر گئی۔ ڈیوڑھی میں داخل ہونے کا جو کیواڑ پھلانگنا تھا جوکیواڑ تھا وہ دراصل شا ہ جہانی مہراب تھی۔ اس کے اوپر ایک ٹوٹا ہوا چھجا تھا جس پر سر دست ایک چیل قیلولہ کر رہی تھی۔ یہ راجپوتی جھروکے کی باقیات بتائی جاتی تھی ۔ جن کے عقب میں ان کے دادا کے وقتوں میں ایرانی قالینوں پرآذر بائیجان طرز کی قوالی ہوتی تھی۔ پچھلے پہر جب غلافی آنکھیں موندنے لگتیں تو وقفے وقفے سے نکری گلاب پاشوں سے حضار محفل پر عرق گلاب چھڑکا جاتا ۔ فرش اور دیواریں قالینوں سے ڈھکی رہتیں ۔ فرماتے تھے کہ جتنے پھول غالیچے پہ تھے اتنے ہی باہر باغیچے پر تھے۔ یہاں اطالوی مخمل کے کپڑے پر گنگا جمنی منقش اوگان دان رکھے رہتے تھے۔ جن پر چاندی کے ورق میں لپٹی گلوریوں کی پیک جب تھونکیں جاتی تو بلوریں گلے میں اترتی چڑھتی صاف نظرآتیں۔ جیسے تھرما میٹر میں پارہ۔ حویلی کے چند اندرونی کلوز اپ بھی تھے ۔ کچھ کیمرے کی آنکھ اور کچھ چشمے تصور کے رہن منت۔ دومحرابوں کی دراڑوں میں بازنطینی اینٹوں پر کان پوری چڑیوں کے گھونسلے نظر آرہے تھے۔ چراغ رکھنے کا ایک آلہ جسے تاقچہ کہتے ہیں ایک آرٹسٹک زاویہ پرٹکا ہوا تھا۔ صدر دروازے سے چند قدم کے فاصلے پرایک فوٹو میں ایک کالا مرغا گردن پھلائے اذان دے رہا تھا وہی ایک شکستہ چبوترے کے آثار نظر آرہے تھے۔